اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہو گیا ہے، جس کا مقصد کئی ماہ سے جاری لڑائی کے خاتمے اور علاقے میں سنگین انسانی بحران کو کم کرنا ہے۔
یہ معاہدہ، جس پر جمعرات کو باضابطہ طور پر دستخط کیے جانے کا امکان ہے، میں یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں اضافے کی شقیں شامل ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر میں مذاکرات کے بعد اپنے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت اس پیشرفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ امن کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
مزید پڑھیں: مذاکرات میں پیش رفت، حماس اور اسرائیل کے مابین قیدیوں و یرغمالیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
ذرائع کے مطابق، معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں حماس 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیل قریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ تبادلہ سمجھوتے پر عمل درآمد کے 72 گھنٹوں کے اندر متوقع ہے۔
معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج غزہ کے اندر ایک متفقہ لائن تک پیچھے ہٹیں گی، جبکہ مصر اور قطر کی نگرانی میں انسانی امداد کی ترسیل کو بڑھایا جائے گا۔
امریکی حکام کے مطابق، اگر کسی اسرائیلی قیدی کی لاش واپس کی جاتی ہے تو اس کے بدلے میں اسرائیل 15 فلسطینی شہریوں کی باقیات واپس کرے گا۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ بندی کے لیے حماس کے 6 اہم مطالبات سامنے آ گئے
حماس نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ اس نے اسرائیل کو رہائی کے لیے فلسطینی قیدیوں کی فہرست فراہم کر دی ہے اور اب وہ ناموں کی حتمی منظوری کا انتظار کر رہی ہے۔
بیان کے مطابق، اس معاہدے میں غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا اور یرغمالیوں و قیدیوں کے تبادلے کے مراحل شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے جو فہرست دی گئی ہے، اس میں معروف فلسطینی رہنما مروان البرغوثی (فتح تحریک) اور احمد سعدات (پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے سربراہ) کے نام بھی شامل ہیں، جو طویل قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کو غزہ امن معاہدے پر امید، ’اہم معاملات‘ پر حماس کی رضامندی کا دعویٰ
حماس نے اپنے بیان میں قطر، مصر، ترکی اور امریکا کی ثالثی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
حماس کا کہنا تھا کہ ہم اپنے عوام کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے صبر، عزم اور ہمت سے اس مشکل وقت کا مقابلہ کیا۔ ہماری جدوجہد آزادی، خود مختاری اور قومی حقوق کے حصول تک جاری رہے گی۔
اگر اس معاہدے پر کامیابی سے عمل درآمد ہو گیا تو یہ غزہ میں طویل المدتی جنگ بندی اور ممکنہ سیاسی مذاکرات کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل حماس غزہ جنگ بندی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل شامل ہیں کے لیے
پڑھیں:
مذاکرات میں پیش رفت، حماس اور اسرائیل کے مابین قیدیوں و یرغمالیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
قاہرہ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات کے دوران ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ حماس کے سینئر رہنما طاہر النونو نے بدھ کے روز بتایا کہ حماس اور اسرائیل کے مذاکرات کاروں نے قیدیوں اور یرغمالیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے، جو کسی ممکنہ معاہدے کی صورت میں رہا کیے جائیں گے۔
النونو نے کہا کہ حماس مذاکرات میں مثبت رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور ایک معاہدے تک پہنچنے کے حوالے سے پر امید ہے۔
بدھ کو قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی، ترکی کے انٹیلی جنس سربراہ ابراہیم کالن، امریکہ کے خصوصی مشرقِ وسطیٰ ایلچی اسٹیو وٹکوف، اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں تیسرے روز جاری ان مذاکرات میں شریک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:
یہ بالواسطہ مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ ماہ پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، جس میں جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلا کی تجاویز شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقی موقع ہے کہ ہم کچھ کر سکتے ہیں۔
’ممکن ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو، اور یہ صرف غزہ کے مسئلے سے آگے کی بات ہے۔ ہم فوری طور پر تمام یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جاتا ہے تو امریکا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا کہ تمام فریق اس پر عمل کریں۔
دریں اثنا، عالمی سطح پر جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کے بیشتر علاقے تباہ ہو چکے ہیں، اقوامِ متحدہ قحط کا اعلان کر چکی ہے، اور اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی واپسی کے منتظر ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے گزشتہ ماہ اسرائیل پر ’نسل کشی‘ کا الزام عائد کیا تھا۔
مزید پڑھیں:
گزشتہ ہفتے کے آخر میں اٹلی، اسپین، آئرلینڈ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد نے فلسطین کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
نیدرلینڈز میں مظاہرین نے حکومت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ برطانیہ میں ہزاروں افراد نے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی اپیل کے باوجود ریلیوں میں شرکت کی اور 7 اکتوبر کی مناسبت سے اجتماعات منعقد کیے۔
حماس کے سینیئر مذاکرات کار خلیل الحیہ نے کہا کہ ان کا گروپ صدر ٹرمپ اور ثالث ممالک سے اس بات کی واضح ضمانتیں چاہتا ہے کہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 67 ہزار 160 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جنہیں اقوام متحدہ قابلِ اعتبار اعداد و شمار قرار دیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ جنگ بندی حماس صدر ٹرمپ غزہ فلسطین مذاکرات نسل کشی وائٹ ہاؤس