عزہ امن معاہدہ:امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو نے صدرٹرمپ کو پریس کانفرنس کے دوران آگاہ کیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 اکتوبر ۔2025 ) غزہ میں جنگ بندی کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاقِ رائے کے اعلان سے کچھ ہی دیر قبل امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کو ایک مختصر پیغام لکھ کر بھیجا اس کے بعد روبیو ان کے قریب آئے اور کان میں چند الفاظ کہے جبکہ صدر اس وقت وائٹ ہاﺅس میں ایک پریس کانفرنس کررہے تھے.
(جاری ہے)
مارکوروبیو کے پیغام کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ا نہیں اطلاع ملی ہے کہ ایک معاہدے تک پہنچنا انتہائی قریب ہے عرب نشریاتی ادارے کے مطابق مارکو روبیو نے اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھ کر ٹرمپ کو دیا تھا اور جسے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے نمائندوںاور فوٹوگرافروں نے بھی دیکھا نوٹ میں لکھا تھا کہ معاہدہ انتہائی قریب ہے جبکہ اس کے آخر میں یہ جملہ درج تھا”ہمیں آپ کی منظوری درکار ہے تاکہ جلد ہی ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ لگائی جا سکے تاکہ آپ خود سب سے پہلے اس معاہدے کا اعلان کر سکیں“. وائٹ ہاﺅس میں پریس کانفرنس ایک بالکل مختلف موضوع کے لیے منعقد کی گئی تھی جس کا غزہ کی جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم روبیو غیر متوقع طور پر اجلاس میں شریک ہوئے اور صدر کو یہ تحریر تھما دی بعد میں ٹرمپ نے” فوکس نیوز“ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ غزہ میں قید یرغمالی آئندہ پیر کو اسرائیل واپس آجائیں گے. انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ یرغمالی پیر کے دن واپس آئیں گے اور ان میں مرنے والوں کی لاشیں بھی شامل ہوں گی واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے کے دوران 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا جن میں سے 47 اب بھی غزہ میں موجود ہیں ان میں 25 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مر چکے ہیں. دوسری جانب اسرائیلی فوج نے بتایا کہ چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے اپنی فورسز کو ہدایت دی ہے کہ وہ دفاعی طور پر مستعد رہیں اور ہر ممکن منظرنامے کے لیے تیار رہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے ممکنہ آپریشن کی قیادت حساسیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کی جائے ادھر حماس نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے اور وضاحت کی ہے کہ منصوبے کے پہلے مرحلے میں 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
جی 20 ممالک نے امریکی شمولیت کے بغیر اعلامیہ منظور کر لیا
جنوبی افریقہ میں جی 20 رہنماؤں کے اجلاس نے ہفتے کے روز ایک اعلامیہ منظور کیا ہے، جس میں ماحولیاتی بحران اور دیگر عالمی چیلنجز پر بات کی گئی ہے، تاہم یہ اعلامیہ امریکی شمولیت کے بغیر تیار کیا گیا ہے، جسے وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اعلامیے میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے، جس کی واشنگٹن طویل عرصے سے مخالفت کرتا رہا ہے، اور اسے ’دوبارہ مذاکرات کے لیے نہیں کھولا جا سکتا‘۔
ترجمان نے کہا کہ ہم نے اس منظوری کے لیے پورا سال کام کیا ہے اور گزشتہ ہفتے خاصا دباؤ رہا۔
ہفتہ وار اجلاس کی میزبانی کرنے والے صدر رامافوسا نے اس سے قبل کہا تھا کہ اعلامیے کے لیے بھاری اکثریت میں اتفاقِ رائے موجود تھا۔
4 ذرائع کے مطابق جو اس معاملے سے واقف ہیں، جی 20 کے ایلچیوں نے جمعے کے روز یہ مسودہ امریکی شرکت کے بغیر تیار کیا۔
دستاویز میں وہ زبان استعمال کی گئی ہے جسے ٹرمپ انتظامیہ ناپسند کرتی رہی ہے، یعنی موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی اور اس سے نمٹنے کی بہتر حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دینا، اس میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے بلند اہداف کی تعریف کی گئی اور غریب ممالک کی جانب سے قرضوں کی بھاری ادائیگیوں کے بوجھ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق زبان کا شامل کیا جانا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ’سفارتی دھچکے‘ کے طور پر دیکھا گیا، جو اس سائنسی اتفاقِ رائے پر شکوک کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ عالمی حدت انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہوتی ہے، امریکی اہلکار پہلے ہی اشارہ دے چکے تھے کہ وہ اس طرح کے حوالوں کی مخالفت کریں گے۔
اپنے افتتاحی خطاب میں رامافوسا نے کہا کہ ہمیں کسی بھی چیز کو پہلے افریقی جی 20 صدارت کی قدر، وقار اور اثر کم کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ان کا یہ پُر اعتماد لہجہ اگست میں وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ان کے نسبتاً خاموش رویے کے برعکس تھا، جب انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے غط دعوے کو برداشت کیا تھا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، بعد میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکی حکام اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے کیوں کہ میزبان ملک پر سفید فام اقلیت کو دبانے کے الزامات ہیں۔
جغرافیائی سیاسی تقسیم
امریکی بائیکاٹ کے باوجود رہنماؤں نے خبردار کیا کہ معاشی بحران حل کرنے میں جی 20 کا کردار جغرافیائی سیاسی تقسیم کے باعث خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
رامافوسا نے ٹرمپ کی غیر موجودگی کو کم اہمیت دی اور مؤقف اختیار کیا کہ جی 20 اب بھی بین الاقوامی تعاون کے لیے کلیدی فورم ہے۔
تاہم فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اجلاس کے دوران خبردار کیا کہ جی 20 شاید اپنے ایک دور کے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، افتتاحی خطاب میں میکرون نے کہا کہ رہنما اس میز پر ’بڑے عالمی بحرانوں کے حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘۔
دوسری جانب، یورپی یونین کی کمشنر ارسلا وان ڈیر لین نے اپنی تقریر میں ’انحصار کے ہتھیار بننے‘ کے خطرے سے خبردار کیا، جو چین کی جانب سے توانائی کی منتقلی کے لیے ضروری نایاب معدنیات کی برآمدات پر پابندیوں کی طرف اشارہ تھا۔
اگرچہ امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی، مگر اس نے آئندہ جی 20 اجلاس میں صدارت سنبھالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، ٹرمپ 2026 میں اگلا اجلاس فلوریڈا کے ایک گولف کلب میں منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جو ان کی ذاتی ملکیت ہے۔