نوبیل انعام یافتہ سائنس دان اور ’بابائے کلوننگ‘ جان گَرڈن 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
مشہور حیاتیاتی ماہر، نوبیل انعام یافتہ اور ’بابائے کلوننگ‘ کہلائے جانے والے سر جان گَرڈن 92 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
گرڈن انسٹیٹیوٹ، جو انہوں نے 1991 میں شریکِ بانی کے طور پر قائم کیا تھا، نے ان کی موت کی تصدیق کی ہے، تاہم ان کی موت کا سبب ظاہر نہیں کیا گیا۔
ادارے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جان گَرڈن ترقیاتی حیاتیات (Developmental Biology) کے ایک صاحب بصیرت سائنس دان تھے۔ ان کی پیش رو تحقیق جس میں انہوں نے مینڈک کے خلیوں میں نیوکلئیر ٹرانسفر کا تجربہ کیا، نے یہ بنیادی سوال حل کیا کہ آیا خلیے کی نشوونما کے دوران جینیاتی معلومات ضائع ہوتی ہیں یا برقرار رہتی ہیں۔ ان کے کام نے حیاتیاتی سائنس، اسٹیم سیل ریسرچ، ماؤس جینیٹکس اور IVF میں انقلابی پیش رفت کی راہیں کھولیں۔‘
جان گَرڈن کا انقلابی سائنسی کارنامہ1933 میں برطانوی علاقے ہیمپشائر (Hampshire) میں پیدا ہونے والے جان گَرڈن نے 1962 میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں گریجویشن کے دوران ایک تاریخی تجربہ کیا۔
انہوں نے مینڈک کے انڈے سے نیوکلئیس نکال کر اس کی جگہ ٹیڈپول (مینڈک کے بچے) کی آنت کے خلیے کا نیوکلئیس منتقل کیا جس سے ایک نیا مکمل مینڈک تیار ہوگیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جس نے دنیا کو یہ دکھایا کہ بالغ خلیات کو دوبارہ ری پروگرام کر کے ایک نئی زندگی تخلیق کی جا سکتی ہے۔
یہی بنیاد بعد میں کلوننگ، اسٹیم سیل ریسرچ اور مصنوعی تولید (IVF) جیسی جدید بائیومیڈیکل ٹیکنالوجیز کی بنی۔
1995: ملکہ الزبتھ دوم نے جان گَرڈن کو ’سر‘ (Sir) کے خطاب سے نوازا۔
2012: انہیں طب اور فزیالوجی کے شعبے میں نوبیل انعام دیا گیا، جو انہوں نے جاپانی سائنس دان شِنیا یاماناکا (Shinya Yamanaka) کے ساتھ مشترکہ طور پر حاصل کیا۔
ان دونوں کے کام نے یہ ظاہر کیا کہ خلیات کو دوبارہ “Pluripotent” حالت میں لایا جا سکتا ہے، یعنی وہ کسی بھی جسمانی خلیے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہ ریسرچ آج بھی بیماریوں کے علاج میں استعمال ہو رہی ہے۔
کیمرج یونیورسٹی کے پروفیسر بن سائمنز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سر جان گَرڈن ایک عظیم سائنس دان، شفیق رہنما اور عاجز انسان تھے۔ ترقیاتی اور اسٹیم سیل بائیولوجی میں ان کا کردار ہمیشہ رہنمائی کا ذریعہ رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بابائے کلوننگ جان گَرڈن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بابائے کلوننگ نوبیل انعام انہوں نے
پڑھیں:
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
نوبیل لفط سویڈش سائنس دان الفریڈ نوبیل( Alfred Nobel)کے نام سے منسوب ہے ۔دنیا کی سب سے معزز اور متنازع ترین اعزازات میں سے ایک ”نوبیل امن انعام”ہر سال عالمی توجہ کا مرکز بنتا ہے ۔ یہ وہ انعام ہے جو صرف کسی شخص کی کامیابی کا اعتراف نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں امن، مفاہمت اور عالمی تعاون کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ نوبیل انعام پانے والے افراد نہ صرف اپنے ملک بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں۔ تاہم جب بات امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہو تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ واقعی امن کے علمبردار کے طور پر اس عالمی اعزاز کے اہل قرار دیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ ماہرین کی اکثریت اس خیال کی تائید نہیں کرتی کہ ٹرمپ کے ریکارڈ یا ان کے طرزِ عمل میں وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو نوبیل کمیٹی کے معیار پر پورا اترتے ہوں۔
نوبیل امن انعام کے معیار واضح ہیں۔ یہ ان افراد یا تنظیموں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پائیدار امن، تنازعات کے حل، انسانی حقوق کے تحفظ، یا بین الاقوامی تعاون کے فروغ میں حقیقی کردار ادا کیا ہو۔ اس حوالے سے تاریخ میں نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ، مادر ٹریسا، کوفی عنان، اور حالیہ برسوں میں ابی احمد یا ملالہ یوسفزئی جیسے شخصیات کے نام اس ایوارڈ کو وقار بخشتے ہیں۔ ان تمام شخصیات میں ایک قدر مشترک ہے کہ انسانیت کے لیے قربانی، مفاہمت اور اخلاقی جرات۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی کیریئر ان اصولوں کے برعکس تضادات سے بھرا نظر آتا ہے ۔
ٹرمپ کی صدارت( 2017۔2021) کے دوران امریکہ نے جس خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کیا، اسے ماہرین نے America First یعنی سب سے پہلے امریکہ کی پالیسی کہا۔ یہ ایک قومی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی تھی جس میں عالمی اداروں، معاہدوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو اکثر پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ ٹرمپ نے اقوام متحدہ، نیٹو، پیرس ماحولیاتی معاہدے ، اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں پر تنقید کرتے ہوئے امریکی انخلا یا تعاون میں کمی کا اعلان کیا۔ ان کے ان اقدامات کو بین الاقوامی تعاون کے بجائے عالمی انزوا (Isolationism) کی علامت سمجھا گیا۔ یہ طرزِ عمل نوبیل امن انعام کے بنیادی فلسفے سے میل نہیں کھاتا، جو عالمی یکجہتی اور اجتماعی امن کے فروغ پر مبنی ہے ۔ٹرمپ کے دورِ حکومت میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں کچھ پیش رفت ضرور دیکھی گئی۔ اسرائیل اور چند عرب ممالک کے درمیان ”ابراہام معاہدات”کے نتیجے میں تعلقات معمول پر آئے ، جسے ان کے حامی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ تاہم ناقدین کے مطابق یہ معاہدے وقتی نوعیت کے تھے ، کیونکہ ان میں فلسطین کے دیرینہ مسئلے کو نظرانداز کیا گیا، جو مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بنیادی شرط ہے ۔ نوبیل کمیٹی ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھتی ہے کہ امن کی کوششیں کتنی جامع، پائیدار اور انسانی بنیادوں پر مبنی ہیں۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں یہ پہلو کمزور دکھائی دیتا ہے ، کیونکہ ان کی ترجیحات سیاسی اور انتخابی مفادات سے جڑی ہوئی تھیں، نہ کہ عالمی امن سے ۔ مزید برآں، ٹرمپ کی داخلی پالیسی نے بھی عالمی سطح پر ان کے امیج کو نقصان پہنچایا۔ نسل پرستی کے واقعات، امیگریشن قوانین کی سختی، میکسیکو بارڈر پر دیوار کی تعمیر، مسلم ممالک پر سفری پابندیاں، اور بلیک لائیوز میٹر تحریک کے دوران ان کا سخت رویہ اُن کے امن پسند ہونے کے تصور کو کمزور کرتا ہے ۔ نوبیل انعام دینے والی ناروے کی کمیٹی ہمیشہ اس بات کو دیکھتی ہے کہ امیدوار کے اقدامات صرف سفارتی میز تک محدود نہیں بلکہ انسانی حقوق اور اخلاقی اصولوں کے مطابق بھی ہوں۔ٹرمپ کے رویے اور بیانات اکثر اشتعال انگیز اور تقسیم پیدا کرنے والے رہے ۔ انہوں نے سیاسی مخالفین، میڈیا، حتیٰ کہ اپنے اتحادی ممالک کو بھی عوامی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے عہد میں امریکہ کے اندر سیاسی و سماجی تقسیم میں اضافہ ہوا، جس کا مظاہرہ 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگریس پر حملے کے دوران ہوا۔ اس واقعے نے ٹرمپ کی قیادت پر سوالیہ نشان لگا دیا کہ آیا وہ جمہوری اقدار کے محافظ ہیں یا اقتدار کی کشمکش میں جمہوری اصولوں کو قربان کرنے والے ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا کے بیشتر مبصرین نے سمجھ لیا کہ ٹرمپ کی شخصیت امن کے تصور سے ہم آہنگ نہیں۔
نوبیل امن انعام کے امیدواروں کی فہرست ہر سال سینکڑوں ناموں پر مشتمل ہوتی ہے ، جن میں سیاستدان، تنظیمیں، اور سماجی کارکن شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کا نام 2020 میں چند حامیوں کی جانب سے نامزد کیا گیا تھا، مگر ماہرین کے نزدیک نامزدگی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی شخص انعام کے معیار پر پورا بھی اترتا ہو۔ نوبیل کمیٹی کے اراکین نامزدگی کے بعد کئی ماہ تک تفصیلی جائزہ لیتے ہیں، امیدوار کے سابقہ اقدامات، پالیسیوں، اور ان کے عالمی اثرات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس بار بھی کمیٹی کے ذرائع کے مطابق، ایسے افراد کو فوقیت دی جائے گی جنہوں نے پائیدار امن، انسانی بحرانوں کے خاتمے ، یا ماحولیاتی تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا ہو اور ٹرمپ ان زمروں میں فطری طور پر کمزور دکھائی دیتے ہیں۔یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ نوبیل انعام محض سفارتی بیانات یا وقتی معاہدوں کی بنیاد پر نہیں دیا جاتا، بلکہ اس کے لیے اخلاقی تسلسل اور انسانی خدمت کا ریکارڈ درکار ہوتا ہے ۔ ٹرمپ کے دور میں اگرچہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات ایک تاریخی قدم تھا، مگر اس کے بعد امن مذاکرات کا کوئی دیرپا نتیجہ سامنے نہ آ سکا۔ اسی طرح ایران کے جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری نے خطے میں کشیدگی میں اضافہ کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں امن کی بنیادوں کو کمزور کیا جائے ، وہاں انعام کی توقع رکھنا حقیقت سے فرار کے مترادف ہے ۔
غیر ملکی میڈیا اور سیاسی مبصرین کے مطابق نوبیل کمیٹی کی حالیہ سمت ان شخصیات کی طرف ہے جو ماحولیاتی تبدیلی، انسانی حقوق، اور عالمی تعاون میں عملی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ اس سال کا ایوارڈ کسی ایسے فرد یا تنظیم کو دیا جائے جو عالمی بحرانوں، مثلاً یوکرین جنگ، فلسطین انسانی المیے ، یا ماحولیاتی تباہی کے حل کے لیے فعال کردار ادا کر رہی ہو۔ ٹرمپ کی پالیسیوں میں ان میں سے کسی مسئلے کے لیے کوئی مثبت مثال نہیں ملتی، بلکہ ان کے دور میں ان بحرانوں کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ٹرمپ کے ناقدین کے مطابق ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی قیادت کا انداز ہے ، جو مفاہمت کے بجائے محاذ آرائی پر مبنی ہے ۔ نوبیل امن انعام کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار امن کے فروغ کا استعارہ بنے ، نہ کہ اختلافات کی علامت۔ ٹرمپ نے اپنی سیاست میں جیت یا ہار کی ذہنیت اپنائی، جب کہ امن ہمیشہ درمیانی راستے اور قربانی کے فلسفے پر قائم ہوتا ہے ۔اگرچہ ٹرمپ کے حامی اب بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بنیاد رکھی، مگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو وہ بنیاد کھوکھلی ثابت ہوئی ہے ۔ نوبیل کمیٹی کے لیے فیصلہ ہمیشہ تاریخ کے تناظر میں ہوتا ہے ، نہ کہ سیاسی مصلحت کے لحاظ سے ۔ اس لحاظ سے ماہرین کا یہ کہنا درست ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نوبیل امن انعام حاصل کرنا نہ صرف مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے ۔
دنیا کو اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو طاقت کے بجائے مکالمے پر یقین رکھتی ہو۔ نوبیل کمیٹی کے فیصلے کے بعد یہ پیغام مزید مضبوط ہوگا کہ امن محض نعرہ نہیں بلکہ کردار کا تقاضا ہے ۔ امریکہ سمیت تمام طاقتور ممالک کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ عالمی امن صرف اپنے مفاد کے گرد نہیں گھوم سکتا۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو بھی ایسے رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو امن کی سیاست کو عملی شکل دیتے ہیں۔ یہی نوبیل امن انعام کا اصل مقصد ہے ۔انسانیت کے لیے پائیدار امن، نہ کہ اقتدار کے لیے وقتی مصلحت۔
٭٭٭