پاکستانی فوج سے سخت خفت کا نشانہ بننے کے بعد اب نریندر مودی نے بدلے کی صدا بلند کی ہے۔ وہ کیا چاہتے تھے اورکیوں چاہتے تھے یہ بڑا دلچسپ نقطہ ہے مثلاً یہ کہ وہ فدائی فوج دار کی مانند پاکستان کی حدود میں گھس کر دہشت گردوں کو ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے ایسا ہی کیا اور اپنا کارنامہ انجام دے کر چپ چاپ چلے گئے۔
اب پاکستانی فوج کو ضرورت ہی کیا تھی کہ ان کا پیچھا کرتے، ان کو شکست دیتے، اگر ان کا دل رکھ لیا جاتا تو کیا بگڑ جاتا؟
بھارتی فوج کو سپریم ہونے کا احساس دلانے والے بھارتی ذمے داران نے اپنے آپ کو امریکا بابو کا ساتھی سمجھ لیا تھا کہ وہ جو چاہیں گے جیسے چاہیں گے کر گزریں گے اور پاکستان سے اس کے خلاف کوئی انگلی بھی بلند نہ کرے گا، پر ایسا نہ ہوا اور جس ہاتھی نے چیونٹی سمجھ کر مسلنے کی کوشش کی تھی وہ تو اس کی جان کے در پے ہی ہو گئی۔
فلسطین پر جو مظالم کی داستان رقم ہو رہی ہے وہ تکلیف دہ ہے جس پر انسانیت شرمندہ ہے پر بے غیرتوں کے جگر مضبوط ہیں، پر اس صورت حال میں جہاں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، اسے کسی اور مقام پر رکھ کر لاگو کرنا یا کوشش بھی کرنا سرا سر زیادتی ہے پر نریندر مودی اور اس کے حواری ابھی تک اسی نشے میں چور ہیں۔
یہ جان کرکہ اگر پھر سے ایسی کوئی حرکت کی تو پلٹ کر وار اور بھی سخت ہوگا، لیکن بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر جس طرح زندگی کو تنگ کیا جا رہا ہے وہ بہت شرم ناک ہے۔ کیا غزوہ ہند گزر چکی ہے یا آنے والی ہے؟ حالات اس قدرگمبھیرکیے جا رہے ہیں کہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ کیا 2002 کا ہندو مسلم فرقہ وارانہ تنازع کو وہ بالکل اپنی یاد سے محو کرچکا ہے۔
یہ ایک کھلا چیلنج تھا کہ نریندر مودی کے راستے میں جو بھی آئے گا وہ اسے جلا کر راکھ کر دے گا، شاید تب ہی اسے قاتل، خونی جیسے القابات سے نوازا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے کئی سال تک امریکا نے پابند کر رکھا تھا اور ویزہ دینے سے انکارکیا تھا۔ ثبوت و شواہد کے مطابق سب کچھ عیاں تھا لیکن شیطان کی چالیں تو جاری رہیں گی۔
تب بھی ایسا ہی ہوا تھا ہزاروں مسلمان شہید کیے گئے تھے اور املاک کا نقصان کیا گیا تھا، لیکن پہلی بار اعلیٰ اختیارکی کرسی ملتے ہی 2001 سے نریندر مودی نے جو چالیں مسلمانوں کے لیے اختیارکی تھیں،گجرات کے وزیر اعلیٰ سے لے کر آج تک جو کچھ وہ کرتا آیا ہے بی جے پی اور اس کے حواری کسی بھی معاملے میں چوک نہیں کرتے۔
کان پور میں عید میلادالنبیؐ کے موقع پر مسلمانوں کی جانب سے ایک بینر پر I Love Muhammad نے مخالفین کے دلوں پر ایسا اثر ڈالا کہ معاملہ پولیس تک جا پہنچا، لڑائی جھگڑا طول پکڑتا گیا اور دوسرے شہروں تک جا پہنچا۔
صرف یہی کہانی ہوتی تو بات ایک طرف ہوتی پر ایک نوجوان نے اپنے ملک کے جھنڈے پر بھی اپنے مذہبی جوش و جذبے کا اظہار کلمہ طیبہ لکھ کر کردیا اور یہ بات اس وقت نوٹ کی گئی جب عید میلادالنبیؐ کے موقع پر ریلی میں لہرائے جانے والے ترنگے پر کلمہ طیبہ لکھا دیکھ کر کچھ لوگوں نے پولیس میں شکایت کر دی اور جلد ہی اس سلسلے میں دو مسلمان نوجوانوں کو پکڑ لیا گیا۔
انڈین ٹی وی چینلز پر چلنے والے اس کلپ کو چلایا گیا پھر مسئلہ Love Muhammad پر کھڑا کیا گیا۔ اب انڈیا میں اس بات پر لوگوں میں مخالفتیں اور پولیس کے رویے نے غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ گرفتاریاں ہوئیں، مقدمات درج ہوئے۔ بجائے مظاہروں کے نتیجے میں لوگوں کو پرامن رکھنے کی ترکیبیں اپنائی جاتیں الٹا یوگی اترپردیش کے وزیر کے رویے یہ بتا رہے ہیں کہ موصوف جم کر مسلمانوں کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں۔
ادھر نریندر مودی جنگ کی شکست پر انگاروں پر لوٹ رہے ہیں اور اندرکی حالت پر ان کے حواری آگ بھڑکا رہے ہیں۔ یوگی کھل کر واضح الفاظ میں فجر کی اذان پر شعلے برسا رہے ہیں، اسے اذان کی آواز سے تکلیف ہے اور یہ بھی کہ مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکرزکو اتارنے کے بارے میں مشورے چل رہے ہیں، ورنہ وہ بھی اپنے مندروں سے چوبیس گھنٹے جاپ نشر کریں گے۔
جو شخص اسلامی مذہبی شعائر کا اس قدر مخالف ہے کیا وہ اپنے فیصلوں اور ارادوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکے گا یا کر رہا ہے؟ جو شخص خود غزوہ ہند کی باتیں کر رہا ہے وہ کیا سوچ سکتا ہے، بی جے پی کے انتہائی ذمے دار وزیرکی کھلے عام مسلمانوں کی مخالفت میں نفرت انگیز اور شر پھیلانے والی باتیں، ان کا غیر سنجیدہ رویہ ظاہر کر رہا ہے۔
بی جے پی کے ہم نوا مسلمان رکن علی آدتیہ ناتھ کے مسلمانوں کے خلاف تبصروں پر دل برداشتہ ہیں دراصل یوگی یہ بھول بیٹھا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن ہندوتوا کے مطابق پورے بھارت پر صرف ہندو مت کا لیبل چسپاں کرنا آدتیہ ناتھ یوگی کی خواہش ہے لیکن اب وہ اس قدر شیر ہوچکا ہے کہ اپنے ان خیالات کا اظہار عوام کے سامنے کرتا ذرا گھبراتا نہیں، شاید اسے علم ہے کہ اسے کون کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔
کیا 2022 کے فسادات میں نریندر مودی کو سزا ملی تھی؟ کیا ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قاتل کا کوئی بگاڑ پایا تھا بلکہ الٹا اسے وزارت عظمیٰ کی اعلیٰ کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا اور آج بھی سینے میں مسلمانوں کے خلاف بغض اورکینہ رکھنے والے اور عمل کرنے والے مودی نے سازشوں کو بننا ختم نہیں کیا، لہٰذا یوگی جو نریندر مودی کا بازو ہے کیسے پیچھے رہ سکتا ہے؟
بارہ ربیع الاول کے میلاد کی اس ریلی سے شروع ہونے والی داستان تو بہت پہلے سے بنائی جا رہی تھی جسے مسلمانوں کے عشق محمدؐ نے عیاں کر دیا۔ ہم بھارت میں بسنے والے ان لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے لیے تشویش میں ہیں۔
ان کے مستقبل اور حال پر ٹینشن میں گھرے ہیں لیکن نا امید ہرگز نہیں ہیں کیونکہ ہمارے رب کو مایوسی پسند نہیں۔ اب غزوہ ہند شروع ہونے کو ہے یا محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی کے دور میں ختم ہو چکی تھی خدا جانے، پر ہم اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لیے دعاگو ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسلمانوں کے غزوہ ہند کے خلاف رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
مودی حکومت "آر ٹی آئی" قانون کو کمزور اور جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے، کانگریس
کانگریس صدر نے کہا کہ 2019ء میں مودی حکومت نے آر ٹی آئی ایکٹ میں کٹوتی کی، انفارمیشن کمشنروں کی میعاد اور تنخواہوں پر پابندی لگادی اور خودمختار نگران اداروں کو ماتحت اہلکاروں کیلئے کم کیا۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے مودی حکومت پر اطلاعات کے حق (آر ٹی آئی) ایکٹ 2005 کو "منظم طریقے سے کمزور" کرنے اور جمہوریت اور شہری حقوق کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔ ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے لکھا کہ 20 سال قبل کانگریس کی قیادت والی "یو پی اے حکومت" نے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی قیادت میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کے لئے "آر ٹی آئی ایکٹ" نافذ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11 برسوں میں، مودی حکومت نے آر ٹی آئی ایکٹ کو منظم طریقے سے کمزور کیا ہے، جس سے جمہوریت اور شہری حقوق کو نقصان پہنچا ہے۔
کانگریس صدر نے الزام لگایا کہ 2019ء میں مودی حکومت نے آر ٹی آئی ایکٹ میں کٹوتی کی، انفارمیشن کمشنروں کی میعاد اور تنخواہوں پر پابندی لگا دی اور خود مختار نگران اداروں کو ماتحت اہلکاروں کے لئے کم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 نے آر ٹی آئی کے مفاد عامہ کی دفعات کو کمزور کیا اور بدعنوانی کو چھپانے اور تحقیقات کو روکنے کے لئے رازداری کو ہتھیار بنایا۔ ملکارجن کھرگے نے یہ بھی کہا کہ سنٹرل انفارمیشن کمیشن طویل عرصے سے چیف انفارمیشن کمشنر کے بغیر کام کر رہا ہے، یہ اہم عہدہ گزشتہ 11 برسوں میں ساتویں مرتبہ خالی ہوا ہے اور کمیشن میں کل آٹھ اسامیاں 15 ماہ سے خالی پڑی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے اپیلوں کا عمل رک گیا ہے اور ہزاروں لوگوں کو انصاف سے محروم کر دیا گیا ہے۔