جس افسر نے کام کرنا ہے وہ کام کا ہے، جو نہیں کرتا وہ گھر جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جس افسر نے کام کرنا ہے وہ کام کا ہے، جو نہیں کرتا وہ گھر جائے۔
وفاقی دارالحکومت کے علاقے شاہ اللہ دتہ اور سی 13 کے متاثرین کی درخواستوں پر سماعت میں عدالت نے سی ڈی اے کو متاثرین کی درخواست پر ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے کیس میں شامل سی ڈی اے کے ایک ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ رکوانے کی متفرق درخواست مسترد کرتے ہوئے وکیل کی استدعا پر برہمی کا اظہار کیا۔ وکیل نے اس حوالے سے استدعا کی تھی کہ اس کیس میں شامل ایک ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ ہورہا ہے حتمی فیصلے تک اس افسر کا تبادلہ روکا جائے ۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالت سے ایک افسر کی سفارش کر رہے ہیں ۔ عدالت کا یہ کام نہیں کہ کسی افسر کی سفارش کرے ۔ عدالت کو کسی افسر کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ کیوں نہ معاملہ وزیر اعظم کو بھیجوں کہ آپ کورٹ میں سفارش کروانا چاہ رہے ہیں؟۔
جسٹس محسن اختر نے کہا کہ اگر کوئی ڈیپوٹیشن پر جارہا ہے تو جانے دیں ۔ ایسی چیزوں پر یہاں مت بات کریں ۔ وہ ایک پبلک سرونٹ ہے کسی افسر میں کوئی خصوصیت نہیں ہوتی ۔ جس نے کام کرنا ہے، وہ کام کا ہے، جو نہیں کرتا وہ گھر جائے ۔ آپ اپنے کام کے لیے یہاں آئے ہیں یا کسی افسر کی نوکری بچانے آئے ہیں؟۔
عدالت نے سی ڈی اے کے ڈپٹی کمشنر کے تبادلے کی متفرق درخواست مسترد کردی اور سی ڈی اے کو ایک ماہ میں سی 13 کے متاثرین کی درخواستوں پر فیصلے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پختونخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف؛ پشاور ہائیکورٹ نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا
پشاور:ہائی کورٹ نے پختونخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے سے متعلق درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سماعت کے دوران گورنر خیبر پخونخوا فیصل کریم کنڈی کی جانب سے دلائل کے لیے نامزد کیے گئے عامر جاوید ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ گورنر نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت جہاز بھیج دے، میں آج واپس آ جاؤں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایڈوکیٹ جنرل صاحب جہاز کا بندوست کریں پھر، جس پر ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے جواب دیا کہ اب تو وزیراعلیٰ نہیں ہیں، کس کو جہاز کا بندوبست کرنے کا کہیں؟۔
دورانِ سماعت سلمان اکرم راجا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ علی امین گنڈاپور نے اسمبلی فلور پر کہا کہ انہوں نے استعفا دیا ہے۔ علی امین گنڈاپور نے سب سے پہلے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو ووٹ دیا۔ وزیراعلیٰ استعفا دے تو آئین میں منظوری کا کوئی تصور نہیں ہے۔ نئے وزیراعلی کا انتخاب ہو تو پھر حلف لینا لازمی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف؛ پشاور ہائیکورٹ کا گورنر کی دستیابی جاننے کا حکم
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ کے پاس اختیار ہے، آئین نے آپ کو اختیار دیا ہے، آپ آرڈر کریں۔ انڈین آئین کے آرٹیکل 190 (3)(b) کو دیکھا، انڈین سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جہاں پر استعفا منظوری کا ذکر نہیں ہے، وہاں استعفا منظور ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کو سنا ہے، اس پر آرڈر کریں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر سرکاری دورے پر ہیں اور وہ کل 2 بجے واپس پہنچیں گے۔
چیف جسٹس کے حلف سے متعلق استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر نے استعفے کی منظوری کے لیے علی امین گنڈاپور کو طلب کیا ہے، اس کے بعد وہ فیصلہ کریں گے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔