کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن) شہیدِ مِلّت، نوابزادہ لیاقت علی خان کی 74 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور تحریک پاکستان کے نامور رہنما کا شمار قائد اعظم کے قریبی رفقا اور جدوجہد آزادی کے مرکزی رہنماؤں میں کیا جاتا ہے، لیاقت علی خان کو انکی سیاسی بصیرت اور اصول پسندی کے باعث "قائد ملت" کا خطاب بھی دیا گیا۔

16 اکتوبر 1951 کو ایک جلسے کے دوران قائدِ اعظم کے معتمد اور نہایت قریبی ساتھی، قوم کے عظیم راہنما، محسن اور ملک کے پہلے وزیرِاعظم کو ایک بدبخت نے ریوالور سے گولیاں برسا کر شہید کردیا تھا۔

سپریم کورٹ بار الیکشن: ہارون الرشید اور توفیق آصف میں مقابلہ، پولنگ شروع

قوم انہیں‌ شہیدِ ملّت کے نام سے یاد کرتی ہے، لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1896ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے، وہ ایک نواب خاندان کے فرد تھے جنہوں نے مسلمانانِ ہند اور آزادی کی جدوجہد کے لئے ہر آسائش اور سہولت کو پس پشت ڈال دیا اور قیامِ پاکستان کے بعد خلوصِ نیت اور تن دہی سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں انجام دیں۔

1918ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیمی سند لینے کے بعد لیاقت علی خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لیا۔

1923ء میں ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں‌ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1936ء میں انہیں اس کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا، وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے اور ان کی وفات کے بعد انہیں ملک کا پہلا وزیرِاعظم بنایا گیا۔

مالا کنڈ: ٹرک الٹنے سے 15 افراد جاں بحق، خواتین اور بچوں سمیت 8 زخمی

شہیدِ ملّت کی زبان پر جاری ہونے والے آخری الفاظ تھے ’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘ قوم کے اس عظیم رہنما کو راولپنڈی کے جس کمپنی باغ میں شہید کیا گیا، بعد میں اسے ’’لیاقت باغ‘‘ کا نام دیا گیا، ان کے قاتل کو ایک پولیس افسر نے موقع پر ہی گولیاں‌ مار کر ہلاک کردیا تھا اور اس قتل کا سبب اور اس کے محرکات آج تک سامنے نہ آسکے۔

شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔
 

افغان طالبان بھارتی مفادات کیلیے کام کررہے ہیں، سیزفائر کی خلاف ورزی پر بھرپور جواب ملے گا، خواجہ آصف

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: لیاقت علی خان کے بعد

پڑھیں:

’’لیاقت علی کا مقام صرف ’لیاقت علی‘ ہی کی جگہ پر ہے!‘‘

قدرے فربہ سے بَر میں ڈھیلی ڈھالی سی شیروانی۔۔۔

سر پر وہی مخصوص ٹوپی، جو بعد میں اُنھی کے نام سے موسوم ہوئی۔ چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ کے باوجود سنجیدگی اور متانت ان کی شخصیت کو اور بھی زیادہ پُروقار بنا رہی تھی۔ یہ کوئی اور نہیں ’شہید ملت‘ لیاقت علی خان خود تھے، ہم انھیں آج کے زمانے میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔۔۔

جھجھکتے جھجھکتے اُن کے قریب گئے، اپنا تعارف کرایا اور بات کرنے کی اجازت چاہی، تو ان کے چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹ در آئی۔

’’بیٹھ جاؤ، برخوردار!‘‘

ہم نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے ان کے پاس والی نشست پر ادب سے بیٹھ گئے۔

’’یہاں تو ہم کافی دیر سے آئے ہوئے ہیں، لیکن تمھارے علاوہ یہاں ہمیں کسی نے بھی نہیں پہچانا۔۔۔!‘‘ انھوں نے ایم اے جناح روڈ کی تیز تیز آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس سے قبل کہ ہم کچھ صفائی پیش کرتے، وہ کہنے لگے:

’’کراچی اب بدل گیا ہے، بلکہ یہ ملک بھی تو اب پہلے جیسا نہیں رہا۔‘‘

ان کے لہجے میں موجود ایک شکایت بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔

’’جی قائدِملت! اب تو کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، ہمیں افسوس ہے کہ اب آپ کے ملک میں آنے والی حکومتیں ہوں یا بڑے ادارے، آپ کو کوئی بھی یاد نہیں رکھتا۔ ’بانیان پاکستان‘ میں انھیں صرف قائداعظم ہی یاد رہے، وہ بھی شاید اس لیے کہ ان کی تصویر نوٹ پر موجود ہے۔‘‘

’’قائداعظم تو قائداعظم تھے، بلاشبہہ وہ اپنے آپ میں یَکتا تھے!‘‘ انھوں نے بہت خوب صورتی سے شکایت کی تلخی ’بانیٔ پاکستان‘ کی تعریف سے ڈھانپ دی۔

’’ہمارے ہاں علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر تو تعطیل دی جاتی ہے، کچھ سیاسی جماعتوں کے لوگ کبھی کبھار محترمہ فاطمہ جناح کا بھی تذکرہ کرلیتے ہیں، لیکن ’مسلم لیگ‘ نام کی کسی بھی ’سیاسی جماعت‘ کو آپ کا یوم شہادت تک یاد نہیں رہتا۔‘‘ ہم نے کہا تو وہ بولے:

’’میاں، ڈاکٹر اقبال کا اپنا ایک مرتبہ اور فلسفہ ہے، ایسے ہی محترمہ فاطمہ جناح کا بھی ہماری تاریخ میں اپنا ایک الگ اور منفرد مقام ہے، یہ ضروری تو نہیں ہوتا ناں کہ ہم کسی کو فراموش کردینے کی شکایت کریں، تو ان کا موازنہ اپنے دیگر محسنین سے کرنے لگیں۔‘‘

انھوں نے توقف کیا اور ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’بیٹا، لیاقت علی کی جگہ صرف لیاقت علی ہی کے مقام پر ہے۔۔۔ اور مجھے اطمینان ہے کہ میں نے صرف اپنی خاندانی جاگیریں ہی اس پاکستان کے لیے قربان نہیں کیں، بلکہ اپنی جان بھی اس ملک کے لیے نچھاور کر دی۔۔۔ تحریک پاکستان میں ضرور کوئی بڑا راہ نما شہید نہیں ہوا، لیکن پاکستان پر قربان ہونے والا پہلا سربراہ تو میں ہی ہوں! اس کے بعد مجھے کوئی شکوہ نہیں کہ یہاں کے سیاسی قائدین، حکومتی سربراہ اور میڈیا پر مجھے یاد کیا جاتا ہے یا نہیں۔‘‘

’’جناب ایسے تو پھر لوگوں کو یاد ہی نہیں رہے گا کہ پاکستان کے لیے آپ کا کردار کیا تھا؟‘‘ ہم نے قدرے بے چینی سے اظہار کیا تو لیاقت علی خان کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی، وہ کہنے لگے:

’’دیکھیے، اگر سب بھلائے بیٹھے ہیں اور تب بھی آپ جیسے کچھ لوگ تو ہمیں یاد رکھے ہوئے ہیں، تو کیا یہ کوئی کم اہم بات ہے؟‘‘

ہم نے قدرے سوالیہ انداز میں انھیں دیکھا، تو وہ گویا ہوئے: ’’میاں، تاریخ میں شہرت اور اہمیت دو الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں، بعضے وقت یہ یک جا ہوجاتی ہیں اور کبھی نہیں بھی ہوپاتیں۔ 1933ء میں جب قائداعظم ہندوستان کی سیاست سے مایوس ہوکر لندن چلے گئے تھے، تو انھیں 1934ء میں لندن جا کر منانے والا کون تھا۔۔۔؟ کیا 1946ء میں متحدہ ہندوستان کی عبوری حکومت کے وزیرخزانہ کی حیثیت سے میرا یادگار بجٹ بھلایا جا سکتا ہے؟ کیا ’نئی دلی‘ میں پاکستان کے سفارت خانے کی عمارت کی تاریخ بدلی جا سکتی ہے کہ یہ کس نے ’پاکستان‘ کو عطیہ کی تھی؟

مجھے اس ملک کے لیے اپنے بھرپور کردار اور قربانی پر پورا پورا بھروسا ہے کہ اس پاکستان کے لیے اپنے جان ومال کو لُٹا دینے والے کسی بھی راہ نما کا ذکر ہوگا، تو تاریخ کو مجھ پر ضرور بالضرور ٹھیرنا پڑے گا۔۔۔!‘‘

’’لیکن پاکستان کے بہت سے دانش وَر آپ پر تنقید کرنے کی غرض سے ہی ٹھیرتے ہیں، اور 1949ء میں منظور شدہ ’قراردادِمقاصد‘ پر خوب نکتہ چینی کرتے ہیں۔‘‘ ہم نے ایک اہم اعتراض ’قائد ملت‘ کے روبرو کیا۔ وہ مسکرانے لگے، پھر بولے:

’’مجھے حیرت ہے کہ آج بھی ایسی باتیں کی جاتی ہیں، حالاں کہ 1973ء کے آئین کی تشکیل کے موقع پر اگر منتخب ارکان چاہتے، تو اس بنیاد کے برخلاف بھی تو جا سکتے تھے، لیکن وہ کیوں نہیں گئے؟ اس لیے کہ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان اور قائداعظم کا نظریہ بھی یہی تھا۔ انھوں نے کبھی ’سیکولر‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا، جب کہ کئی مواقع پر واشگاف الفاظ میں اسلامی نظام کی بات کی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر 1949ء میں جناح صاحب بہ قید حیات ہوتے، تو وہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ کہ ’قراردادِ مقاصد‘ منتخب ایوان کی منظور کردہ تھی۔ اگر ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں، تو آخر اس جمہوری طریقہ کار پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’آپ پر ایک اعتراض یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ نے کراچی میں مہاجروں کو بسایا، کیوں کہ آپ یہاں اپنا حلقۂ انتخاب بنانا چاہتے تھے؟‘‘

ہمارے اس سوال پر ’قائدِملت‘ کے چہرے پر یکایک سنجیدگی سی چھاگئی، آنکھوں میں ہلکی سی نمی چَھلکی، انھوں نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا:

’’اگر لیاقت علی نے پاکستان سے محبت اور ’پاکستانیت‘ کے سوا اپنے لیے یا اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ جمع کیا ہوتا، تو وہ 16 اکتوبر 1951ء سے آج 2025ء میں تک کچھ نہ کچھ تو دنیا کے سامنے آ ہی چکا ہوتا۔ میں نے تو آخری مہاجر کے مکان بنوا لینے تک اپنے سر پر کسی مکان بنوانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ’حلقۂ انتخاب‘ کی بات کہنے والے یقیناً زیادتی کرتے ہیں، پاکستان بننے سے پہلے میرے پاس کیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد کیا رہا؟ اگر صرف اسی کو دیکھ لیں، تو مجھے یقین ہے کہ تاریخ کے کٹہرے میں مجھ پر یہ الزام بھی جاتا رہے گا۔ پھر اگر میرے ایسے سیاسی عزائم ہوتے، توکیا میں اپنے بعد اپنے بیوی اور بچوں کو ’سیاسی قیادت‘ کے لیے تیار نہ کرتا، جیسے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں آج ایک عام رویہ بن چکا ہے! کیا آپ نہیں جانتے کہ کراچی شہر کے باسی سیاسی اصولوں کے معاملے میں کس قدر سخت ہیں، انھوں نے نظریے کی بنیاد پر ’شہید ملت‘ کے بیٹے اکبر لیاقت کو بھی نہیں بخشا اور 1977ء میں انھیں بھی بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔‘‘

’’یہ بتائیے کہ آپ کے خلاف سازش کس نے کی تھی؟‘‘

ہمارے اس سوال پر ’قائد ملت‘ نے کہا کہ میں کسی کا نام نہیں لوں گا، تاریخ کی کتابوں میں اس کے بہت واضح شواہد آچکے ہیں، مبینہ قاتل سید اکبر کو مارنے والے پولیس افسر محمد شاہ کی گجرات میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاکت، قتل کی تحقیقات کرنے والے طیارے کے ’حادثے‘ سے سب کچھ واضح ہے کہ یہ سب کیوں ہوا۔۔۔!‘‘

’’بہت سے ’مورخین‘ آپ کو پاکستان کی خرابیوں کے لیے بھی مورودِالزام ٹھیراتے ہیں؟‘‘ ہمارے اس سوال پر وہ بے ساختہ سی ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے:

’’برخوردار! تمھیں تو پتا ہی ہے کہ ہمارے چلے جانے کے بعد خواجہ ناظم الدین جیسے مرنجاں مرنج وزیراعظم بنے، وہ سیدھے سادے آدمی تھے، چالاک لوگوں کے بچھائے جال میں پھنستے چلے گئے۔ پہلے 1952ء میں بنگلا زبان کی تحریک میں طلبہ پر گولیاں چل گئیں۔ پھر 1953ء میں لاہور میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگ گیا، جس کی بنیاد پر خواجہ صاحب کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا گیا اور محمد علی بوگرہ ملک کے تیسرے وزیراعظم بن گئے، اس کے بعد 1954ء میں کمانڈر انچیف ایوب خان کو وزیردفاع بنا دینے کا سانحہ بھی پیش آگیا اور اسی برس گورنر جنرل غلام محمد نے دستورساز اسمبلی بھی برخاست کرڈالی۔ 1955ء میں ہمارے دور میں مسترد ہونے والا سر فیروزخان نون کا ’ون یونٹ‘ کا منصوبہ بھی نافذ کردیا گیا۔ پھر 1956ء میں ملک کا پہلا دستور تو بن گیا، لیکن بدقسمتی سے یہ پہلا دستور کوئی بھی عام انتخابات کرائے بغیر صدر اسکندر مرزا کے ہاتھوں 1958ء ہی میں تحلیل کردیا گیا۔ پھر چند ہی دن میں جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو نکال کر خود ہی اقتدار سنبھال لیا، وہ ہمارا دارالحکومت تک کراچی سے اٹھا کر لے گئے۔۔۔! کیا یکے بعد دیگرے اتنے سارے سانحات کے بعد بھی یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ’لیاقت علی‘ اس ملک کے لیے کتنی ساری خرابیوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا؟ اُسے تو سازشیوں نے اپنے راستے کا پتھر سمجھ کر ہٹایا تھا۔ اور اگر کوئی اب بھی یہ کہتا ہے کہ عام انتخابات لیاقت علی ہی نہیں کروا رہا تھا، تو ہمیں تو جیسے تیسے صرف چار برس مل سکے تھے، اس میں ہمیں بہ یک وقت بہت سارے ضروری کام کرنے تھے، مفلوک الحال پاکستان کے وجود کو بچانا تھا، بدترین معاشی بدحالی، مہاجرین کی آبادکاری اور ماہرین کی کم یابی سے لے کر اندرونی اور بیرونی سازشوں سے بھی نمٹنا تھا۔ سوال تو یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی اگر ہم ہی قصور وار ہیں، تو ہمارے بعد آنے والوں نے سات برس میں بھی انتخابات کیوں نہ کروائے؟ بلکہ سات برس کے بعد ملک کو پہلی فوجی حکومت کا ’تحفہ‘ بھی دے دیا گیا۔‘‘

’قائد ملت‘ کے مُدلّل جواب کے بعد ہم نے ذکر کیا کہ ’’پاکستان کے قیام کے 75 برس مکمل ہونے پر 75 روپے کے یادگاری نوٹ پر قائداعظم کے ساتھ علامہ اقبال، سرسید اور فاطمہ جناح کی تصویر دی گئی، لیکن آپ کی تصویر نہیں دی گئی؟‘‘

ہمارے اضطراب کو بھانپتے ہوئے وہ اطمینان سے گہرا سانس لیے، پھر کہنے لگے ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمارے حوالے سے بہت زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں۔ ہم نے آپ سے پہلے ہی کہا کہ کوئی چاہے کچھ بھی کرلے، لیکن لیاقت علی کو پاکستان کی تاریخ سے نہیں نکالا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے موقع پر بابائے قوم کا دستِ راست، پہلا وزیراعظم، پہلا وزیرخارجہ اور پہلا وزیردفاع۔ کوئی چاہ کر بھی تاریخ سے یہ حذف نہیں کرسکتا۔ ممکن ہے یہ ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کی ’غلطی‘ ہو یا شاید کسی کو میں اچھا نہیں لگتا ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مجھے ’اپنا‘ نہ سمجھتے ہوں، لیکن میں نے اس ملک کو ہر ہر مرحلے پر اپنا سمجھا ہے اور یہ ثابت بھی کیا ہے، تو کیا ہوا، اگر محبت کرنے والوں کو چاہنے کا حق ہے، تو مجھے ناپسند کرنے والوں سے اُن کا حق کیوں کر چھینا جا سکتا ہے؟‘‘

’’ہم تو آپ کو یہ بتا رہے تھے کہ 2022ء میں جامعہ کراچی سے بھی سرسید احمد خان، ٹیپو سلطان وغیرہ کے ساتھ آپ کی تصویر بھی مٹا دی گئی، اور جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے یہ کہا کہ اس سے ’آرٹس لابی‘ کے ’’حُسن‘‘ میں فرق پڑتا ہے!‘‘

’’برخوردارِ، اتنے زیادہ جذباتی نہیں ہوتے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ تصویر ہٹا سکتے ہیں، لیکن لوگوں کے دلوں سے تو کسی کی محبت کو ختم نہیں کر سکتے۔ میری شہادت پر پوری قوم نے کسی اپنے کی موت کی طرح آنسو بہائے۔ گلی کُوچوں میں کھیلتی ہوئی ننھی بچیاں آج 74 برس بعد تک ’’لیاقت علی کو گولی لگی، ساری دنیا رونے لگی۔۔۔!‘‘ کی گردان کرتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ کیا ایسا اور کوئی لیڈر ہے کہ جسے ہر طرف نظرانداز کردیا جائے، کوئی سیاسی جماعت اس کی نام لیوا نہ ہو اور کوئی موثر ذریعہ اِبلاغ اُسے یاد نہ کرتا ہو، اس کے باوجود لوگ اس کی یاد کو اپنے سینے سے لگائے رکھیں۔

مجھے معلوم ہے کہ اب شاید تم یہ کہو گے کہ اس ملک میں قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے ’باچا خان‘ کے نام سے منسوب ہوائی اڈا تو موجود ہے، لیکن جب قومی اسمبلی میں راول پنڈی ایئر پورٹ کو لیاقت علی خان سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی تو، اس کی جگہ فوری طور پر بے نظیر بھٹو کا نام پیش کردیا گیا۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ عزیزآباد کے ’لیاقت علی خان چوک‘ المعروف ’مُکا چوک‘ سے میرا نشان ’مُکا‘ بھی 2017ء میں ہٹا دیا گیا، لیکن دوسری طرف میرے لہو کی سرخی سے ہی راول پنڈی کا کمپنی باغ آج بھی ’لیاقت باغ‘ کہلاتا ہے۔ کراچی میں لیاقت آباد، لیاقت نیشنل اسپتال، لیاقت میموریل لائبریری، شاہ راہ لیاقت، شہیدِ ملت روڈ، لیاقت علی خان روڈ (گلشن معمار) اور لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسری وغیرہ بھی تو موجود ہیں۔

اور یہاں تو آدھا پاکستان توڑ دیا گیا اور کسی سے بھی کوئی بازپُرس نہیں ہوئی، اس لیے اگر ایسے ملک کے کسی راہ نما کے لیے گنجائش نہیں نکلتی یا اس کے لیے تنگ نظری دکھائی دیتی ہے، تو یہ تو پھر زندگی کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ تاریخ میں مختلف وجوہ کی بنا پر اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے، لیکن یاد رکھنا، تاریخ کبھی تعصب نہیں کرتی، یہ ہمیشہ انصاف کرتی ہے، وہ قومی تنصیبات کو متنازع سیاسی راہ نماؤں سے منسوب کرنے کے باوجود بُھلا دیتی ہے اور کام کرنے والے ’بے نام‘ لوگوں کو بھی امر کردیتی ہے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • شہیدِ ملت لیاقت علی خان کی دیانت، قومی یکجہتی اور جمہوری اصولوں سے وابستگی آج بھی مشعلِ راہ ہے ،انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی تعمیر و استحکام کےلئے تاریخی خدمات سرانجام دیں،صدرِ مملکت آصف علی زرداری
  • لیاقت علی خان کا 75 واں یوم شہادت آج منایا جا رہا ہے
  • پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا 75 واں یوم شہادت آج منایا جا رہا ہے
  • شہیدِ مِلّت، نوابزادہ لیاقت علی خان کی 74 ویں برسی آج منائی جارہی ہے
  • لیاقت علی خان اور سازشی نظریات
  • ’’لیاقت علی کا مقام صرف ’لیاقت علی‘ ہی کی جگہ پر ہے!‘‘
  • ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی کا 74ویں برسی پر شہیدِ ملت لیاقت علی خان کو پیغام خراجِ عقیدت و سلامِ تحسین
  • پولیو ٹیم پر فائرنگ سے لیویز اہلکار شہید؛ وزیر اعظم کا اظہار افسوس
  • جھنگ، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام قائم بھروانہ میں شہید مقاومت سیمینار، کارکنان میں شیلڈز تقسیم