ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ زمین کے اندر تقریباً 6.2 کھرب ٹن ہائیڈروجن موجود ہو سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر آئندہ ایک ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک پوری دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ قدرتی ہائیڈروجن زیرِ زمین پانی اور آئرن سے بھرپور معدنیات کے درمیان ہونے والے کیمیائی ردعمل کے نتیجے میں بنتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اسے کامیابی سے نکالا جائے تو یہ ہائیڈروجن روایتی “گرے ہائیڈروجن” اور فوسل فیول کے مقابلے میں ایک صاف اور کم کاربن والا توانائی کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کی ایک تحقیق کے مطابق اگر زمین کے ان مجموعی ذخائر کا صرف 2 فیصد حصہ بھی حاصل کر لیا جائے تو یہ آئندہ دو صدیوں تک دنیا کی ہائیڈروجن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گا۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ذخائر زمین کی بہت گہرائی میں یا سمندر کے نیچے واقع ہیں، جن تک رسائی تکنیکی طور پر مشکل اور مہنگی ہے۔ اس کے باوجود سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ دریافت توانائی کے شعبے میں ایک اہم سنگ میل ہے، جو طویل المدتی توانائی سلامتی اور پائیداری کے حصول کی جانب ایک بڑا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ بشرطِ تحقیق اور سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

آپ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے!

اسلام ٹائمز: وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ؛ "وہ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے۔" عالمی برادری امریکہ اور صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف متحد ہے اور یہ وہ چیز ہے، جسے ٹرمپ چھپا نہیں سکے۔ آج ٹرمپ خود پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے۔ یورپ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں وہ سابقہ ​​امریکی حکومتوں کے مقابلے میں جنگ کی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے۔ ٹیرف کی جنگ اپنے آپ میں ایک مکمل جنگ ہے۔ بہرحال امریکہ لالچ اور زیادتی کی وجہ سے پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​کے گڑھے میں گر چکا ہے۔ تحریر: محمد کاظم انبارلوئی

فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلیوں سے کہا: "آپ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے۔" ٹرمپ کے سامعین بظاہر مقبوضہ علاقوں میں مقیم دہشت گرد ہیں، لیکن درحقیقت وہ اپنے الفاظ کا مرکزی مخاطب خود ہی ہے۔ ان کے اس اعتراف کے تجزیئے سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت میں امریکہ کا مقام عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ٹرمپ کے اعتراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین دنیا کا نمبر ایک مسئلہ ہے۔ حماس نے طوفان الاقصیٰ  کے ساتھ عالمی خبروں میں فلسطین کی مظلومیت کو سرفہرست رکھا، یہی وجہ ہے کہ غاصب اسرائیل کے جنگی جرائم کی رپورٹنگ کرنے والے درجنوں صحافیوں اور نامہ نگاروں کو صیہونیوں نے شہید کیا۔

پینٹاگون وار روم نے نتیجہ اخذ کیا کہ غزہ میں نیٹو اور صیہونی دہشت گرد فوج کو کسی ایسے گوریلا گروپ کا سامنا ہے، جس نے بیت المقدس کی آزادی اور قبضے کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کی ہوں۔ وہ مغربی ایشیاء میں مزاحمتی محاذ کا بھی سامنا کر رہے ہیں بلکہ پوری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں اور دنیا ان کی نسل کشی اور جنگی جرائم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ آخرکار، انہوں نے دنیا کے پانچ براعظموں کی گلیوں میں لاکھوں لوگوں کی یہ آوازیں سنی ہیں کہ نسل کشی ختم کرو، جنگی جرائم کا ارتکاب قبضے کے بحران کے مسئلہ  کا حل نہیں۔ ٹرمپ کا جنگ بندی کا منصوبہ دنیا میں صیہونیوں اور امریکیوں کی طرف سے اعلان جنگ کا عملی خاتمہ تھا۔

امریکی اور صیہونیوں نے ایک دہائی قبل چھ عالمی طاقتوں کو ایٹمی سرگرمیوں کے حوالے سے میز پر بٹھانے میں کامیابی حاصل کی تھی، ایران کو عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا تھا اور مسلسل یہ بڑا جھوٹ دہرایا تھا کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب سے اہم بات جس کا پتہ چلا کہ صرف وہ پوری دنیا نہیں ہیں۔ وہ صرف چھ لوگ ہیں بلکہ چار لوگ ہیں۔ دو عالمی طاقتیں آپس میں ہم آہنگ اور مشترک زبان نہیں رکھتیں۔ امریکہ کی طرف سے جے سی پی او اے کو پھاڑنے کے بعد، یہ پتہ چلا کہ وہ چار لوگ حقیقت میں ایک شخص ہیں۔ امریکہ تین شریر یورپی ممالک کو اپنی غنڈہ گردی میں شراکت دار بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ایرانی قوم سے ترقی کا ایک دہائی کا موقع چھین لیا۔ معلوم ہوا کہ ایران نے دنیا کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا تھا۔ کیونکہ؛

1۔ دنیا امریکہ اور تین بڑے یورپی ممالک نہیں ہیں۔ 2۔ چین اور روس کے امریکہ کے ساتھ ناقابل حل تضادات اور اختلافات ہیں۔ 3۔ امریکیوں اور صیہونیوں کا مسئلہ ایرانی ہی نہیں ہے۔ انہوں نے ایرانی قوم کی آزادی، غیرت اور وقار کو نشانہ پر لیا ہے اور وہ اپنے سادہ لوح تصور میں ملک کے خاتمے، حکومت کی تبدیلی اور ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔ 4۔ ایران کی بہادر قیادت اور قربانی دینے والی قوم منطق کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "مزاحمت کی قیمت ہتھیار ڈالنے سے کم ہے۔" اس حکمت عملی کا نتیجہ امریکہ اور صیہونیوں کی ذلت آمیز شکست تھی۔

 طوفان الاقصیٰ کے بعد نیتن یاہو نے تین مقاصد کا اعلان کیا:
1۔ ہم غزہ پر قبضہ کریں گے اور مقبوضہ علاقوں کا اپنے ساتھ  الحاق کر لیں گے۔
2۔ ہم حماس کو تباہ کر دیں گے۔
3۔ ہم اپنے قیدیوں کو رہا کریں گے۔
صہیونیوں نے 2 سال 3 دن، کل 735 دن جنگ میں وہ غزہ پر قبضے میں ناکام رہے۔ اب وہ ذلت کے مارے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ حماس جنگ بندی کی میز پر بیٹھی ہے، پہلے سے زیادہ مضبوط، اچھے جذبے کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ اسرائیلی ایک بھی قیدی کو رہا نہیں کرا سکے۔

یہ شکست صیہونی غاصبوں کی تاریخ میں حیران کن، بے مثال اور ذلت آمیز ہے۔ صیہونی دہشت گردی کی مشین رک گئی ہے۔ موت، جرم اور قتل و غارت کے ہاتھوں نے چلنا چھوڑ دیا ہے۔ اس تاریخی جنگ کی راکھ سے، ایک خستہ حال فوج، زیادہ ہلاکتیں اور خودکشیوں کے خوفناک شرح نیتن یاہو کے نصیب میں آئی ہیں۔ غزہ جنگ کی سیاسی، اقتصادی اور عسکری لاگت کا ابھی حساب لگایا جا رہا ہے اور امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے بھی اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کی سیاسی زندگی ختم ہوچکی ہے، کیونکہ ایک جنگی مجرم امن کے دور کو نہیں چلا سکتا۔

وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ؛ "وہ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے۔" عالمی برادری امریکہ اور صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف متحد ہے اور یہ وہ چیز ہے، جسے ٹرمپ چھپا نہیں سکے۔ آج ٹرمپ خود  پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے۔ یورپ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں وہ سابقہ ​​امریکی حکومتوں کے مقابلے میں جنگ کی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے۔ ٹیرف کی جنگ اپنے آپ میں ایک مکمل جنگ ہے۔ بہرحال امریکہ لالچ اور زیادتی کی وجہ سے پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​کے گڑھے میں گر چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی یونیورسٹی کے 14 محققین کو دنیا کے بہترین سائنسدانوں کی فہرست میں شامل
  • کیا پاک افغان سرحد پر جنگ بندی پائیدار ہ سکتی ہے؟
  • جاپان نے دنیا کا پہلا ہائیڈروجن سے چلنے والا ریموٹ کنٹرول ٹریکٹر متعارف کرادیا
  • اب آنسو بہائے بغیر پیاز کاٹیں: سائنسدانوں نے مسئلے کا دلچسپ حل نکال دیا
  • جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کا غزہ میں ڈرون حملہ: کئی ہلاکتوں کی اطلاعات
  • افغان طالبان کی بلا اشتعال جارحیت کے خلاف پوری قوم متحد
  • آپ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے!
  • پاکستان کا معدنی و دھاتی قدرتی خزانہ
  • خلا میں اربوں نوری سال کے فاصلے پر موجود یہ پُر اسرار دائرے کیا ہیں؟