صوبائی ایکسائز اور پولیس کی جانب سے نان کسٹم پیڈ (NCP) گاڑیوں کو ضبط کرنے کا انکشاف ہوا ہے، جس پر فیڈرل ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے نوٹس لیتے ہوئے باضابطہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
ایف ٹی او کی رپورٹ کے مطابق، ان کارروائیوں کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکام نے NCP گاڑیاں صوبائی قوانین کے تحت ضبط کیں، حالانکہ ان گاڑیوں کا دائرہ اختیار صرف پاکستان کسٹمز کے پاس ہے۔
ایف ٹی او نے واضح کیا ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ضبطی صرف کسٹمز حکام کا اختیار ہے، اور صوبائی ایکسائز یا پولیس کی جانب سے ایسی کارروائیاں آئین کے آرٹیکل 143 اور کسٹمز ایکٹ 1969 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔
ایف ٹی او نے فوری طور پر تمام ضبط شدہ NCP گاڑیاں قریبی کسٹمز ہاؤس کے حوالے کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ اس کے علاوہ ایف ٹی او نے ایف بی آر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان متنازعہ صوبائی قواعد کی منسوخی کے لیے وزارتِ قانون سے رجوع کرے، کیونکہ یہ رولز عدالتی فیصلوں سے بھی متصادم ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تحقیقات فیڈرل ٹیکس محتسب آرڈیننس 2000 کے سیکشن 9(1) کے تحت کی جا رہی ہیں۔ مزید برآں، ایف ٹی او نے تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز، ڈی جی ایکسائز اور آئی جیز کو ہدایات جاری کرنے کی سفارش کی ہے، اور ساتھ ہی کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 170(2) میں ترمیم کی تجویز بھی دی ہے۔
ایف ٹی او نے 90 دن کے اندر عمل درآمد رپورٹ طلب کر لی ہے تاکہ اس معاملے پر مزید پیشرفت کی جا سکے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ایف ٹی او نے

پڑھیں:

مبینہ طور پر 200ٹن سے زاید مضر صحت چھالیہ نیلام کرنے کی کوشش ناکام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی( کامرس رپورٹر) کلیکٹریٹ آف اپریزمینٹ ویسٹ پر مبینہ طور پر 200 ٹن سے زائد مضر صحت چھالیہ نیلام کرنے کی کوشش کا الزام ہے، جسے دو بار انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں قرار دیا جا چکا ہے۔دستاویزات کے مطابق، یہ چھالیہ 2023 میں درآمد کی گئی تھی اور گزشتہ دو سالوں سے کراچی کی بندرگاہوں پر ضبط ہے۔ ابتدائی لیبارٹری ٹیسٹوں میں چھالیہ میں ”ایفلاٹاکسن” نامی خطرناک زہریلے مادے کی موجودگی پائی گئی، جو کہ بعض فنگس (پھپھوندی) سے پیدا ہوتا ہے، جس کے بعد اسے کلیئر کرنے سے انکار کر دیا گیا۔پہلی بار مسترد کیے جانے کے بعد، درآمد کنندہ نے عدالت سے رجوع کیا اور 10 نومبر 2023 کو دوبارہ ٹیسٹ کے لیے نمونے بھجوانے کی اجازت حاصل کی۔ تاہم، دوسری بار کی گئی لیبارٹری جانچ میں بھی اسی سطح کا ایفلاٹاکسن پایا گیا اور کنسائمنٹ کو دوبارہ ”انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں” قرار دیا گیا۔ذرائع کے مطابق، ان دونوں بار کی مستردگی کے باوجود، کلیکٹریٹ آف اپریزمینٹ ویسٹ کے سینئر افسران نے دو سال بعد پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی لیبارٹری میں تیسری بار جانچ کے لیے نمونے بھیجے، جو کہ مقررہ قانونی طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے۔قانون کے مطابق، کسٹمز کو براہِ راست ٹیسٹنگ کے لیے نمونے بھجوانے کا اختیار نہیں بلکہ ایسے معاملات کو ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کو ریفر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حاصل شدہ ایک کوریئر سلپ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کسٹمز اہلکار نے ذاتی طور پر پارسل بک کیا، اور لیبارٹری ٹیسٹ فیس (20,000 روپے) درآمد کنندہ کی جانب سے ایک نجی بینک کے چیک کے ذریعے ادا کی گئی۔کسٹمز ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ لیبارٹری رپورٹوں میں ہیرا پھیری کی جا رہی ہے تاکہ صحت کے لیے مضر چھالیہ کو کلیئر کروایا جا سکے۔ یہ دوبارہ جانچ صرف نیلامی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ بندرگاہوں پر طویل عرصے سے پڑے ہوئے غیر خوردنی سامان کی نیلامی معمول کی بات ہے، لیکن ایسے خوردنی اشیاء جو دو بار خطرناک قرار دی جا چکی ہوں، انہیں نیلامی کے ذریعے نکالنا خطرناک اور ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہا کہ حکام کو اس معاملے کی فوری تحقیقات کرنی چاہیے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تاکہ یہ خطرناک سامان انسانی استعمال کے لیے مارکیٹ میں نہ پہنچ سکے۔کسٹمز حکام نے رابطہ کرنے پر اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

کامرس رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • ای چالان ڈیفالٹر گاڑی مالکان کیلئے بری خبر
  • پاکستانی شناختی کارڈ والے افغانیوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • سندھ ہائیکورٹ: فردوس شمیم نقوی کو تحقیقات کے لیے طلبی کا معاملہ، نیشنل سائبر کرائم ایجنسی سے رپورٹ طلب
  • مبینہ طور پر 200ٹن سے زاید مضر صحت چھالیہ نیلام کرنے کی کوشش ناکام
  • اے آئی ایپس سے متعلق رپورٹ میں دلچسپ انکشاف
  • کراچی میں غیرقانونی اور خطرناک عمارتوں کیخلاف کارروائی شروع
  • لاہور کے مختلف علاقوں سے 3 لاشیں برآمد، پولیس نے تحقیقات شروع کردیں
  • بھارت میں ہاتھیوں کی آبادی میں ایک چوتھائی کمی، نئے سروے میں انکشاف
  • سندھ بلڈنگ، صدر ٹاؤن میں بلند عمارتوں کا غیرقانونی کاروبار!