غزہ میں ٹرمپ کا جنگبندی منصوبہ اسرائیلی رژیم کے ہاتھوں ناکام ہو گا، امریکی ماہر
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
کئی ایک عالمی تجزیہ کاروں کے بعد بین الاقوامی تعلقات کے معروف امریکی پروفیسر نے بھی تاکید کی ہے کہ غزہ میں جنگبندی کا امریکی منصوبہ، عدم تعمیل پر مبنی اسرائیل کے سیاہ ریکارڈ کے باعث ناکام ہو جائیگا اسلام ٹائمز۔ امریکہ میں ممتاز تھیوریسٹ اور بین الاقوامی تعلقات میں یونیورسٹی پروفیسر جان میئرشیمر (John Mearsheimer) نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق ٹرمپ منصوبے میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اس پلان کے ذریعے آپ کسی "حتمی امن معاہدے" تک کسی صورت نہیں پہنچ پائیں گے۔ ججنگ فریڈم نامی ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے جان میئرشیمر نے کہا کہ ٹرمپ منصوبے کے تحت ایسا کوئی معاہدہ حاصل نہیں ہو گا کہ جس کے ذریعے فلسطینیوں کو "حق خود ارادیت" حاصل ہو سکے اور وہ اپنے لئے کسی بھی قسم کی آزاد ریاست تشکیل دے پائیں.
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شدت
اسلام ٹائمز: "میں 1960ء کی دہائی سے احتجاج کر رہا ہوں، لیکن اس بار یہ احتجاج مختلف محسوس ہو رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ہم حقوق کو بڑھانا چاہتے تھے، لیکن اب ہماری جمہوریت، ہمارے بنیادی اصول، ہماری پریس، ہماری عدلیہ سب خطرے میں ہے۔" مظاہرین میں شریک اور شخص نے CNN کو بتایا: "ہم احتجاج کر رہے ہیں، کیونکہ ہم امریکہ سے محبت کرتے ہیں اور ہم اسے واپس لینا چاہتے ہیں،" انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "ہم مل کر جمہوریت کو بچا سکتے ہیں۔" ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے واشنگٹن ڈی سی کی ریلی میں ٹرمپ کو "امریکی تاریخ کا سب سے کرپٹ صدر" قرار دیا۔ تحریر: رضا دھقانی
امریکہ کے درجنوں شہروں میں ہفتے کی شام اور آج صبح (ہفتہ کے امریکی وقت کے مطابق) "نو کنگز" کے عنوان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ ان عوامی اور مربوط مظاہروں کی دوسری لہر نے ٹرمپ کے حامیوں کو ششدر کردیا ہے۔ Axios ویب سائٹ نے امریکہ بھر میں ان مظاہروں میں حصہ لینے والوں کی تعداد 7 ملین بتائی ہے۔ یہ مظاہرے، جو واشنگٹن، ڈی سی سے لے کر نیویارک، لاس اینجلس اور چھوٹے شہروں تک پھیلے ہوئے تھے، منتظمین کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کے "بڑھتے ہوئے آمریت" اور "آمرانہ اقدامات" کے خلاف سخت مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے منعقد کیے گئے۔
مظاہروں کا بے مثال پیمانہ
"نو کنگز" اتحاد، جو 200 سے زیادہ شہری حقوق کے گروپوں اور مزدور یونینوں جیسے امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) اور امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز پر مشتمل ہے، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ تمام 50 امریکی ریاستوں میں 2,500 سے 2,700 ریلیوں اور مارچوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ منتظمین کا اندازہ ہے کہ اس دن لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے، جو امریکی تاریخ میں احتجاج کے سب سے بڑے دنوں میں سے ایک سمجھا جائیگا۔
احتجاج کے مطالبات اور موضوعات
مظاہرین نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں اور اقدامات کی شدید مذمت کی۔
احتجاج کے اہم موضوعات
1۔ "اقتدار پر قبضے" اور جمہوریت کیلئے خطرہ کیخلاف احتجاج: مرکزی نعرہ "امریکہ کو بادشاہ نہیں چاہیئے۔" اس سلوگن نے براہ راست ٹرمپ کی آمریت اور عدلیہ کو نظر انداز کرنے، میڈیا پر حملہ کرنے اور مقامی حکومتوں کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو نشانہ بنایا۔
2۔ حکومتی شٹ ڈاؤن بحران: وفاقی حکومت کا جاری شٹ ڈاؤن، جس نے بہت سے ملازمین کو کام سے باہر کر دیا ہے اور عوامی خدمات میں خلل ڈالا ہے، عدم اطمینان کی ایک بڑی وجہ تھی، جو عوامی احتجاج کا بڑا محرک ہے۔
3۔ امیگریشن پالیسیاں اور شہروں کی عسکریت پسندی: امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی کارروائیوں میں توسیع اور ڈیموکریٹک آبادی والے شہروں (جیسے شکاگو اور پورٹ لینڈ) میں وفاقی فوجیوں اور نیشنل گارڈ کو تعینات کرنے کے انتظامیہ کے فیصلے نے بھی مظاہرین کو ناراض کیا ہے۔
بڑے شہر، مظاہروں کا مرکز
نیویارک سٹی میں ٹائمز اسکوائر ہزاروں لوگوں کے احتجاج کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مظاہرین نے "بادشاہت کو نہیں" اور "ارب پتیوں سے نجات دلاو" جیسے نعروں پر مشتمل بینرز اور کتبے اٹھائے ہوئے تھے۔ معروف نعروں میں "جمہوریت کی حمایت"، "کوئی نفرت نہیں، کوئی خوف نہیں، تارکین وطن خوش آمدید!" وغیرہ شامل تھے۔ واشنگٹن ڈی سی میں، ریلیوں کا مرکز کیپٹل کے سامنے نیشنل مال پر تھا۔ بہت سے مظاہرین نے پیلے رنگ کے لباس پہن رکھے تھے، جسے معترض منتظمین نے "عوامی طاقت اور اتحاد" کی علامت کے طور پر تجویز کیا تھا۔ شکاگو میں، گرانٹ پارک میں، میئر برینڈن جانسن نے فوجی دستوں کی تعیناتی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "انہوں نے خانہ جنگی کو دہرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ہم یہاں ثابت قدم رہنے اور عہد کرنے کے لیے ہیں کہ ہم نہیں جھکیں گے، ہم نہیں جھکیں گے، ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے، ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہمیں اپنے شہر میں فوجی نہیں چاہیئے۔" لاس اینجلس کے علاوہ سان ڈیاگو اور سان فرانسسکو میں بھی احتجاج کیا گیا۔ کیلیفورنیا میں، مظاہروں نے مقامی مسائل پر بھی توجہ مرکوز کی، جیسے کہ انتخابی اضلاع کو تبدیل کرنے کا منصوبہ۔
احتجاج میں شریک ایک شہری کے تاثرات
"میں 1960ء کی دہائی سے احتجاج کر رہا ہوں، لیکن اس بار یہ احتجاج مختلف محسوس ہو رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ہم حقوق کو بڑھانا چاہتے تھے، لیکن اب ہماری جمہوریت، ہمارے بنیادی اصول، ہماری پریس، ہماری عدلیہ سب خطرے میں ہے۔" مظاہرین میں شریک اور شخص نے CNN کو بتایا: "ہم احتجاج کر رہے ہیں، کیونکہ ہم امریکہ سے محبت کرتے ہیں اور ہم اسے واپس لینا چاہتے ہیں،" انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "ہم مل کر جمہوریت کو بچا سکتے ہیں۔" ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے واشنگٹن ڈی سی کی ریلی میں ٹرمپ کو "امریکی تاریخ کا سب سے کرپٹ صدر" قرار دیا۔ "یہ امریکی تاریخ میں احتجاج کا سب سے بڑا دن ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں،" لیزا گلبرٹ نے جو تنظیم سازی کرنے والے گروپوں میں سے ایک رہنماء ہیں، انہوں نے کہا ہے "لوگ اس سے کہیں زیادہ باخبر ہیں، جب وہ آخری بار احتجاج کے لیے نکلے تھے۔"
وائٹ ہاؤس اور ریپبلکنز کا ردعمل
ٹرمپ انتظامیہ اور ریپبلکنز نے ریلیوں کی شدید مذمت کی۔ ایوان کے اسپیکر مائیک جانسن جو ایک ریپبلکن ہیں، انہوں نے احتجاج کو "امریکہ کے لیے نفرت انگیز ریلی" قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ان مظاہروں میں "دو بائیں بازو،" "سوشلسٹ" اور "مارکسسٹ" موجود تھے۔ اس کے برعکس، سینیٹر برنی سینڈرز، جو ایک آزاد اور جمہوری حامی ہیں، انہوں نے فیس بک پر لکھا: "یہ امریکہ سے محبت کی ریلی ہے۔ اس ملک کے لاکھوں لوگوں کی ریلی جو ہمارے آئین پر یقین رکھتے ہیں، جو امریکی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور جو آپ کو اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ملک کے حکمرانوں کو مطلق بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔" دریں اثناء، ٹرمپ، جو ہفتے کے آخر میں فلوریڈا میں اپنی ذاتی جائیداد میں وقت گزار رہے ہیں، انہوں نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے "بادشاہ" کے لقب کو مسترد کرتے ہوئے کہا: " وہ مجھے بادشاہ کہتے ہیں، میں بادشاہ نہیں ہوں۔" یہ مظاہرہ، ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد "No to the Monarchy" اتحاد کی طرف سے ہوا، جو ٹرمپ کے خلاف دوسرا بڑا احتجاج ہے، یہ مخالفین کے وسیع تر متحرک ہونے کی نمائندگی کرتا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ گہرے سیاسی تناؤ اور حکومتی شٹ ڈاؤن کے درمیان امریکی جمہوریت کا مستقبل شدید خطرے میں ہے۔