سرکاری جامعات میں عارضی اساتذہ و ملازمین، کچرے کے بھاؤ سونا
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج میں کراچی کے مزدور کے جس مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اس کو چھاپنے کی جسارت سوائے روزنامہ جسارت کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ استاد کی عظمت پر بڑے بڑے سیمینار تو منعقد ہوتے ہیں لیکن کسی بھی سرکاری ادارے نے آج تک اپنی وزیٹنگ فیکلٹی کے لیے کوئی پروگرام تک منعقد کرنا ضروری نہیں سمجھا اور توجہ دلانے پر یہ کہہ کر ٹال دیا اگیا کہ ’’ہمارے پاس غیر ضروری کاموں کے لیے بجٹ نہیں‘‘ جبکہ بڑے بڑے مفتی و علماء و اسکالرز سرکاری اداروں میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کراچی جیسے عالمی شہرت و حیثیت رکھنے والے شہر کی سرکاری جامعات اپنے مستقبل کے شاہینوں کو تیار کرنے والے عارضی ملازمین و اساتذہ کے ساتھ سوتیلے بچوں جیسا سلوک کررہی ہیں۔ یہ اساتذہ و ملازمین ایسے سفید پوش مزدور ہیں جو اپنے مسائل کسی کو نہیں بتا سکتے اس لیے میں نے ان کی آواز بننے کا فیصلہ کیا اور انشاء اللہ اس مسئلے پر اب کام بھی ہوگا۔ ان کے مسائل میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ وقت پر تنخواہوں کا اجراء نہ ہونا اور فکسڈ سیلری نہ ہونا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہر عارضی استاد اپنی تنخواہ کے حصول کے لیے ہر ماہ
اپنے نام کا ایک بل بناتا ہے جس میں گھنٹوں کے حساب سے کلاسز کی تعداد (Credit Hours)کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر گھنٹے کے حساب سے طے شدہ مشاہرہ جو کہ اونٹ کے منہ میں زہرہ ہے تحریر کیا جاتا ہے جو تقریباً تین ماہ بعد پروسیس ہو کر بینک میں ٹیکس کٹوتی کے بعد پہنچتا ہے اور بعض اوقات تین ماہ بعد بھی یہ کہہ کر بات ٹال دی جاتی ہے کہ ابھی جامعہ کے مالی حالات بہتر نہیں اس لیے تنخواہیں اگلے یا پھر اس سے اگلے ماہ بعد ملیں گی ہم کسی کا پیسہ اپنے پاس نہیں رکھتے ہیں؟؟؟ مطلب کراچی کی سرکاری جامعات کے پاس اپنے عارضی اساتذہ و ملازمین کے لیے کوئی بجٹ قبل از وقت ہوتا ہی نہیں یا طے کیا جاتا ہی نہیں؟؟؟ اچھا جی۔۔۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ اگر آپ اپنا حق مانگیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ہم کیا کریں ہمارے پاس عارضی اساتذہ و
ملازمین کے لیے ابھی بجٹ موجود نہیں‘‘۔۔۔ یعنی تین ماہ بعد آپ کو یہ بات توجہ دلانے پر یاد آرہی ہے کہ اساتذہ و ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ہمارے پاس ابھی کچھ نہیں ہے ابھی آپ ہوا کھاؤ اور پانی پیو اور صبر و توکل کرو بس۔ بعض ایسے اساتذہ و ملازمین سے بات کرنے پر یہ بھی پتا چلا ہے کہ کراچی کی سرکاری جامعات کی اس اوٹ پٹانگ حرکت کی وجہ سے گھریلو جھگڑے ہوئے اور طلاق و خُلا بھی ہوئیں ہیں۔ پھر بھی اگر یہ مسئلہ ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو اس کے علاوہ نہ تو ان اساتذہ و ملازمین کے لیے میڈیکل اور نہ ہاؤس سیلنگ کا اجراء ہوتا ہے اور توجہ دلانے پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مراعات صرف مستقل اساتذہ و ملازمین کے لیے ہیں اور سرکاری جامعات تو آپ کو تجربہ کرنے کا موقع دے رہی ہیں کیا اتنا کافی نہیں؟؟؟۔۔۔ مطلب سرکاری جامعات تو اس بات سے اپنی مستقل فیکلٹی کی نااہلی ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ تمام طلبہ و طالبات کے لیے ناکافی ہیں اور ہمیں باہر سے خواہشمند اساتذہ و ملازمین مجبوراً وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر لینا پڑ رہے ہیں۔۔۔ لیجیے قبلہ شوق سے لیجیے مگر ان کے گھروں کی کفالت بھی کرنا آپ کی زمہ داری میں آئے گا یا پھر صرف اپنا الّو سیدھا کرنا آپ کا مقصد ہے؟؟؟۔۔۔ پھر تیسرا مسئلہ یہ بھی آتا ہے کہ جب تین یا چھ ماہ یا سال بھر بعد سیلری ملتی ہے تو وہ سرکاری ٹیکس کٹ کر ملتی ہے جب کہ تنخواہ پر ٹیکس کٹوتی ماہانہ 50000 سے کم پر نہیں لیکن پھر جامعات کس فارمولے کے تحت ٹیکس کاٹ دیتی ہیں؟؟؟ کیا سرکاری جامعات کی انتظامیہ اتنی بھی عقل نہیں رکھتیں کہ وہ ایک گریڈ 19 کے پی ایچ ڈی لیول کی استاد کے ساتھ کیا مزاق کر رہی ہے کہ جو اپنی تعلیم پر لاکھوں روپے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے انڈورسمنٹ پر ہزاروں روپے خرچ کرتا ہے اور آپ؟؟؟ ان حرکتوں میں ملوث ہیں یا یہ بتادیں کہ آپ کب تک سونے کو کچرے کے بھاؤ بیچیں گے؟؟؟ سرکاری جامعات کو اس مسئلہ پر اپنا قبلہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ آپ کے پڑھے لکھے ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ سرکاری جامعات چلانے کے بجائے کریانہ اسٹور کھول لیں اور پڑھے لکھے لوگوں کی زندگیاں اس بے دردی سے تباہ کرنا بند کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو حقدار کا حق دینے والا بنائے اور وزیٹنگ فیکلٹی کے ساتھ نارواں سلوک نہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
p
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اساتذہ و ملازمین کے لیے سرکاری جامعات ماہ بعد
پڑھیں:
کراچی میں ٹماٹر کے دام آسمان پر، عوام مہنگائی سے پریشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: شہرِ قائد میں مہنگائی نے ایک بار پھر شہریوں کو شدید متاثر کر دیا ہے، جہاں روزمرہ استعمال کی سبزی ٹماٹر کی قیمت مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ ہو گئی ہے، کراچی میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت 500 روپے سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ مرغی کا گوشت 450 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق شہر کے مختلف علاقوں، گلی محلوں اور بازاروں میں ٹماٹر 450 سے 550 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی نے کھانے پینے کی بنیادی اشیا کو بھی پہنچ سے دور کر دیا ہے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی مؤثر کارروائی نظر نہیں آ رہی۔
دکانداروں کے مطابق افغانستان سے ٹماٹر کی آمد بند ہونے اور پنجاب سے سپلائی محدود ہونے کے باعث قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس وقت کراچی میں ٹماٹر کی 90 فیصد طلب ایرانی ٹماٹر سے پوری کی جا رہی ہے، اس کی رسد بھی ناکافی ثابت ہو رہی ہے جس سے مارکیٹ میں قیمتوں کا توازن بگڑ گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے ٹماٹر کا سرکاری نرخ 280 روپے فی کلو مقرر کیا ہے، مگر بچت بازاروں سمیت عام مارکیٹوں میں دکاندار سرکاری نرخ پر فروخت سے انکار کر رہے ہیں۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ منڈی سے ٹماٹر مہنگا ملنے کے باعث وہ سستا فروخت نہیں کر سکتے۔ ان کے بقول، اگر انتظامیہ چاہتی ہے کہ سرکاری نرخ پر فروخت ہو تو پہلے منڈی سطح پر نرخنامے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
دوسری جانب بچت بازار انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر دکاندار سرکاری نرخوں پر عمل نہیں کرتے تو انہیں فروخت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
شہریوں نے حکومتِ سندھ اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹماٹر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ عام آدمی کی دسترخوان تک سبزیوں کی رسائی برقرار رہے۔