Nawaiwaqt:
2025-12-14@06:06:13 GMT

صرف 20 منٹ میں عمدہ صحت پانے کا راز

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

صرف 20 منٹ میں عمدہ صحت پانے کا راز

اگر آپ نے کبھی پارک میں چہل قدمی کرتے یا جنگل میں سیر کے بعد خود کو زیادہ پُرسکون محسوس کیا ہے، تو یہ آپ کا وہم نہیں بلکہ حیاتیاتی حقیقت ہے۔جدید طبی سائنس نے دریافت کیا ہے، قدرت کے درمیان وقت گزارنے سے آپ کے جسم کے اندرکئی مثبت جسمانی و روحانی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں ، جیسے تناؤ یا اسٹریس پیدا کرنے والے ہارمونوں کی مقدار میں کمی آنا، بلڈ پریشر ماند پڑ جانا اور یہاں تک کہ آنتوں کی صحت میں بہتری ہونا۔اہم بات یہ کہ درج بالا طبی فوائد پانے کے لیے آپ کو گھنٹوں پیدل چلنے کی ضرورت نہیں۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پارک میں صرف 20 منٹ چلنے پھرنے اور سیر کرنے سے بھی زیادہ سے زیادہ مثبت اثر حاصل ہو جاتا ہے۔اسی لیے روزانہ نہیں تو ہفتے میں چند بار دوپہر کو کھانے کے وقفے میں پارک میں چہل قدمی کرنا اور بینچ پر بیٹھ کر سینڈوچ کھانا بھی جسم اور ذہن کے لیے فائدے مند ہے۔فطرت کی آغوش میں بیس پچیس منٹ کا وقت گزار کر ہر انسان کو چار قیمتی فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کا تذکرہ درج ذیل ہے:

 1… سکون کا بیش قیمت تحفہ

پارک پہنچ کر جب آپ لہلاتے سبز درخت دیکھتے ، پھولوں کی مدھر خوشبو سونگھتے یا پتوں کی ہلکی سرسراہٹ اور پرندوں کی آواز سنتے ہیں تو آپ کا خودکار اعصابی نظام جو جسم کے لاشعوری افعال کنٹرول کرتا ہے، فور اًمثبت ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔یہ اثر مقامی پارک کے مختصر دورے پر بھی محسوس ہو سکتا ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ میں حیاتیاتی تنوع کی ماہر بیرو نیس کیتھی ولس کہتی ہیں:’’ اس وقت ہم جسم میں مثبت تبدیلیاں ہوتی دیکھتے ہیں جیسے بلڈ پریشر میں کمی آنا اور دل دھڑکنے کی رفتار میں نرمی یعنی دل آہستہ دھڑکنے لگتا ہے۔‘‘برطانیہ میں تقریباً بیس ہزار خواتین ومردوں پر کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جو لوگ ہر ہفتے کم از کم 120 منٹ سرسبز ماحول میں گزارتے ہیں، وہ بہتر جسمانی صحت رکھتے اور زیادہ نفسیاتی خوشحالی کی نوید سناتے ہیں۔فطرت میں وقت گزارنے کے فوائد اتنے واضح ہیں کہ اب برطانیہ کے کچھ علاقوں میں ’’گرین سوشل تجویزی‘‘ (Green Social Prescribing) نامی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو فطرت سے جوڑنا ہے تاکہ ان کی ذہنی و جسمانی صحت بہتر ہو اور خوشی و اطمینان میں اضافہ ہو سکے۔

2… ہارمون دوبارہ متوازن ہو تے ہیں

پارک میں وقت گزارنے سے آپ کے جسم کا ہارمونی نظام بھی جنم لیتے سکون کے عمل میں شامل ہو جاتا ہے۔ کیتھی ولس کہتی ہیں کہ فطرت میں وقت گزارنے سے کورٹیسول اور ایڈرینالین کی سطح کم ہو جاتی ہے ۔ یہ وہ ہارمون ہیں جو تناؤ یا بے چینی کے وقت جسم میں بڑھ جاتے ہیں۔ایک تحقیق سے یہ اہم انکشاف ہوا کہ جن لوگوں نے تین دن ایک ہوٹل کے کمرے میں پھولوں کے تیل کی خوشبو سانس کے ذریعے محسوس کی،تو ان کے جسم میں ایڈرینالین کی مقدار نمایاں طور پر کم ہوگئی۔یہی نہیں ان کے بدن میں ’’قدرتی قاتل خلیوں‘‘ (Natural Killer Cells)کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا۔یہ قدرتی قاتل خلیے انسانی جسم میں وائرس اور جراثیم سے لڑنے کا کام کرتے ہیں۔تحقیق میں شامل شرکاء کے جسم میں یہ خلیے پھولوں کی خوشبو میں سانس میں لینے کے دو ہفتے بعد بھی بلند سطح پر موجود تھے۔امریکی یونیورسٹی میں طب وصحت کی پروفیسر کا کہنا ہے :’’فطرت اْن چیزوں کو پُرسکون کرتی ہے جنہیں سکون کی ضرورت ہو اور اْن چیزوں کو مضبوط کرتی ہے جنہیں طاقت کی ضرورت ہو۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں:’’فطرت کی آغوش میں صرف تین دن کا ویک اینڈ گزارنا ہمارے جسم میں وائرس وجراثیم سے لڑنے والے نظام پر زبردست مثبت اثر ڈالتا ہے ۔ اور ایک ماہ بعد بھی یہ نظام اپنی عام سطح سے’’ 24 فیصد‘‘ زیادہ قوت کے ساتھ فعال رہ سکتا ہے۔‘‘تحقیقات سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ جو مروزن پارک میں بیس منٹ سے کم عرصہ گزارتے ہیں،فطرت انھیں بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی اور اپنی کچھ طبی برکات سے انھیں بھی نواز دیتی ہے، جیسے مایوسی سے چھٹکارا پانا اور مثبت طرزفکر کا جنم لینا۔

3…خوشبو ، ایک طاقتور احساس

قدرتی مناظر ’’سونگھنا‘‘ بھی اتنا ہی مؤثر ہے جتنا دیکھنا یا سننا۔درختوں اور مٹی کی خوشبو میں ایسے نامیاتی مرکبات (Organic Compounds ) شامل ہوتے ہیں جو پودے فضا میں خارج کرتے ہیں۔ اور جب آپ انہیں سانس کے ذریعے اندر لیتے ہیں تو ان کے کچھ ذرات خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔" صنوبر (Pine)کا درخت اس عجوبے کی بہترین مثال ہے۔ صنوبر کے جنگل کی خوشبو صرف 20 سیکنڈ میں ذہن پُرسکون کر دیتی ہے اور یہ اثر تقریباً 10 منٹ تک برقرار رہتا ہے۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ پارک میں بسی خوشبو سونگھنے سے جنم لیتاسکون محض ذہنی وہم ہے۔ لیکن ایک تحقیق میں پایا گیا کہ جب نوزائیدہ بچوں کے کمرے میں جن کے ذہن میں کسی خوشبو سے متعلق کوئی یاد نہیں ہوتی ، صنوبر اور دیگر پھولوں کی خوشبو پھیلائی گئی تو وہ بھی پُرسکون ہو گئے۔

4… مٹی سے قربت اور آنتوں کی صحت

مٹی کو چھونا بھی آپ کے جسم کو انسان دوست جراثیم یعنی بیکٹیریا حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔یہ بیکٹیریا ہماری آنتوں کا اہم جراثیمی نظام (Microbiome) متوازن کرتے ہیں، جس سے مدافعتی قوت مضبوط ہوتی اور مجموعی صحت میں بہتری آتی ہے۔گویا فطرت نہ صرف ہمارے ذہن کو سکون دیتی بلکہ آنتوں کی صحت بھی بہتر بناتی ہے کیونکہ مٹی اور پودے اچھے بیکٹیریا سے بھرپور ہوتے ہیں۔یہ وہی انسان دوست بیکٹیریا ہیں جنھیں پانے کے لیے ہم پروبایوٹک غذاؤں یا ادویہ پر بھاری پیسا خرچ کرتے ہیں۔ماہرین نے انفیکشن کے خدشات اور ذہنی صحت جیسے عوامل پر فطرت کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پارک میں پائے جانے والے کچھ مخصوص بیکٹیریا سانس کے ذریعے اندر لینے سے مزاج بہتر ہوتا ہے۔ جبکہ پودے مضر جراثیم دور رکھنے کے لیے خصوصی کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں جنھیں ’’فائیٹون سائیڈز‘‘ (Phytoncides) کہا جاتا ہے۔یہ انسان کے جسم میں پہنچ کر بیماریوں سے لڑنے میں مددگار ثابت ہو تے ہیں۔ڈاکٹر کرس وین ٹْلکن برطانیہ میں چھوتی امراض پر تحقیق کرتے معروف سائنس دان ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ فطرت دراصل ایک ایسا مثبت ماحول ہے جو ہمارے مدافعتی نظام کو ہلکا سا چیلنج دیتا ہے ، جیسے اُسے گدگدی کرتا ہو۔وہ اپنے بچوں کو پارک یا جنگل میں مٹی سے کھیلنے دیتے ہیں تاکہ وہ قدرتی بیکٹیریا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں جذب کر سکیں۔اس طرح ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔

فطرت کو اپنے قریب لائیے

اگر گھر کے قریب پارک یا درختوں کا جھنڈ موجود نہیں تو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماہرین کے نزدیک تو کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر لگا قدرتی مناظر کا اسکرین سیور بھی آپ کو پُرسکون کر سکتا ہے۔ سب لوگوں کے لیے جنگل یا پارک جانا ممکن نہیں، مگر گھر میں فطرت کے چند چھوٹے لمحات شامل کرنے سے بھی بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔دیکھنے کے لحاظ سے سفید یا پیلے گلاب کے پھول دماغی سرگرمی میں سب سے زیادہ سکون پیدا کرتے ہیں۔خوشبو کے لحاظ سے لیونڈر جیسے ضروری تیل (Essential Oils ) تناؤ دور کر کے ذہنی سکون کا تحفہ دیتے ہیںاور اگر کچھ بھی ممکن نہ ہو تو ’’جنگل کی تصویر‘‘ دیکھنا بھی فائدے مند ہے۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ لیپ ٹاپ پر فطرت کی تصویریں دیکھنا یا کسی سبز منظر کو گھورنا دماغ میں وہی پُرسکون لہریں پیدا اور تناؤ کم کرتا ہے جو حقیقت میں دیکھنے سے ملتاہے۔

قدرت کا ہر چھوٹا سا لمس بھی آپ کو جسمانی وذہنی صحت کی دولت عطا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کی ضرورت کی خوشبو کے ذریعے پارک میں کرتے ہیں سکتا ہے پ رسکون ہیں جن ہیں تو ا نتوں ہیں کہ کے جسم کے لیے

پڑھیں:

ایک عام سی بات

انسانی جسم کی تشکیل کے دوران دل پہلے اور دماغ بعد میں وجود میں آتا ہے، یہ دونوں انسانی جسم کے بنیادی اعضاء ہیں، جسم کے دیگر اعضاء بھی اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں مگر جب تک انسان کا دل اور دماغ ٹھیک سے اپنا کام سر انجام دیتے ہیں اُس کی سانسوں کی ڈور چلتی رہتی ہے۔ ایک توانا دل اور صحت مند دماغ کا امتزاج ہی انسان کی اندرونی اور بیرونی تازگی کا ضامن ہوتا ہے۔

انسانوں کے بارے میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ جس کا دل مضبوط ہو، اُس کا دماغ مشکل سے ہی تھکتا ہے، اس کے برعکس نازک دل تھکن زدہ دماغ کی وجہ بنتا ہے۔

خالقِ انسانی نے اپنی پسندیدہ مخلوق کو جہاں ایک طرف اپنی تمام تخلیقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے، وہیں دوسری طرف اسے بیشمار احساسات کا منبع بھی قرار دیا ہے۔

احساس پر عمل کا گہرا اثر ہوتا ہے اور یہی انسانی جسم میں روح کی موجودگی کی زندہ جاوید علامت سمجھا جاتا ہے۔احساسات دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرے منفی، انسانی دماغ کو یہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انسان ایک عجوبہ ہے،کیونکہ اگر وہ کسی عمل کوکرنے یا شے کو پانے کا پکا ارادہ کر لے تو اُس میں کامرانی حاصل کر کے ہی دم لیتا ہے، پھر چاہے اُس کے پاس ہمت، حوصلے، وسائل، ذرایع اور مواقعوں کا فقدان ہی کیوں نہ ہو۔

انسان ’’ من موجی‘‘ کی تعریف پر من وعن پورا اُترتا دکھائی دیتا ہے، اس کے من کو بھائے تو خوب دوڑ لگائے اور جب جی نہ چاہے تو ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائے۔مولانا جلال الدین رومی سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا، زہرکیا ہے؟ آپ نے فرمایا، ’’ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے جیسے قوت، اقتدار، دولت، بھوک، لالچ، محبت اور نفرت۔‘‘

ایک وقت میں بیشمار احساسات کی انسانی جسم میں موجودگی اور اُس میں سے ہر احساس کو ذہن پر سوار رکھنا انسان کو روشنی سے اندھیروں کی جانب کم وقت میں پہنچا دیتا ہے اور ایسے ہی اندھیروں کے بارے میں مرشد رومی فرماتے ہیں، ’’ اپنی زندگی کے تاریک لمحات میں بھی بغیرکسی خوف کے انتظار کرو۔‘‘ یہاں انتظار سے مراد ہے سوچوں کی یلغار پر بند باندھ کر کچھ وقت کے لیے چین کے لمحات جینا۔

ہم انسان کائنات کے جس سیارے پر اُتارے گئے ہیں وہاں دوڑ کا مقابلہ زور شور سے جاری و ساری ہے، افراتفری کا بھیانک عالم ہے اور نفسا نفسی کا جِن بوتل سے باہر نکل کر انسانی زندگیوں کو سالم نگل رہا ہے، ان حالات میں انسان اپنا آپ سنبھالنے میں بالکل قاصر نظر آرہا ہے۔

انسان کو مٹی سے خلق کیا گیا ہے اور مٹی بدلتے ہوئے موسموں کا سب سے زیادہ اثر لینے والی شے ہے، برسات میں یہ بہت نم ہو جاتی ہے، تیز ہوا کے جھونکوں میں یہ بکھر جاتی ہے، تپتی گرمی میں یہ بنجر صحرا کا روپ دھار لیتی ہے اور طوفان کے وقت اس میں دھول شامل ہو جاتی ہے۔

انسانی طبیعت میں اُس کی تخلیقی شے کے جزو کے تمام اثرات واضح طور دکھائی دیتا ہے۔زِیست انسانی ربِ کریم کا خوبصورت تحفہ ہے جس میں خوشنما بہاریں، رنگوں بھرے دن، ہنستا کھلکھلاتا وجود ابنِ آدم اور اُمنگوں بھری کرن موجود ہوتی ہے۔

بندہ بشر کو فریب سے نکال کر سفر کی سختیاں محسوس کروا کر حقیقتِ زندگانی کی چوکھٹ تک لے جایا جاتا ہے لیکن اندر صرف وہی لوگ داخل ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے کٹھن سفر کو وسیلہ ظفر سمجھا ہو۔ پرُسکون ایام صرف تبھی پُر لطف مانے جاتے ہیں جب زندگی کی مسافتوں میں انسان اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ کر اذیت کا ہر احساس بہادری کے ساتھ محسوس کرے اور اپنی زخمی روح پر نکلنے والے آبلوں کا مداوا بھی خود ہی کرے۔

اس کرہ ارض پر ایسا کوئی فرد نہیں جس کی زندگی میں کسی قسم کا رنج و غم موجود نہ ہو، یہاں پھولوں کی سیج پر براجمان افراد کو بھی کانٹوں کی چبھن محسوس ہوتی ہے، اس دنیا کا ہر دوسرا انسان ذہنی یا جسمانی اعتبار سے تھکا ہوا ہے۔

گزرتے ہوئے زمانوں، بدلتے ہوئے سالوں اور موسموں میں پیدا ہوتی شدتوں نے انسانوں کا طرزِ زندگی بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور تازہ ہوا کا جھونکا قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔

ہماری دنیا جدیدیت کی اُس چوٹی پر پہنچی ہوئی ہے جہاں سے مزید بلندیوں کی راہیں ہموار ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہاں کے باسی اپنے نڈھال وجود کو منظرِ عام پر لانے سے نہ صرف ہچکچاتے ہیں بلکہ ذلت کا احساس بھی محسوس کرتے ہیں۔

اگر کسی غیر جاندار چیز، جانور یا انسان پرحد سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو یہ یکساں طور پر سبھی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے، انسان کے جسمانی اعضاء کا بھی یہی معاملہ ہے جب کسی عضو سے اُس کی وسعت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے تو صرف وہی نہیں اُس سے منسوب دیگر اعضاء بھی تکلیف کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جدید دنیا کا انسان تقریباً اپنے تمام معاملاتِ زندگی کے حوالے سے ترقی پسند سوچ کا مالک ہے، ماسوائے اپنی اور اپنے اطراف کے لوگوں کی ذہنی تھکن کے۔

اس دنیا میں موجود انگنت معاشروں اور وہاں بسنے والے افراد عقل و فراست کے گروہ سے تعلق رکھتے ہوں یا پستہ سوچ کے، وہ سبھی بے چینی اور ذہنی اضطراب و بوجھ کی ظاہری علامات کو پاگل پن یا نیم پاگل پن کی کیفیت گردانتے ہیں۔

جب کسی انسان کو دل کی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اُسے ہمارا معاشرہ قلبی مریض کہہ کر زِچ نہیں کرتا، لیکن ایسا ذہنی تھکن زدہ افراد کے ساتھ ضرورکیا جاتا ہے۔ جس طرح بیمار قلب کو خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی تھکے ہوئے ذہن کے مالک افراد بھی خیال، فکر، توجہ، اپنائیت اور محبت کے مستحق ہوتے ہیں۔

اس دنیا کا انسان بیشمار اخلاقی برائیوں کے ہمراہ دوغلے پن کا بھی شکار ہے، وہ مرض دینے والے کے بجائے مریض کو مرض کا مورودِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے ذہن کو تھکانے میں اُس کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے ساتھ اس میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ اندرونی سے زیادہ بیرونی عوامل انسان کی ذہنی سرگرمیوں کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں کسی فرد کا خود کے ذہن کو تھکا ہوا ماننا انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے کے مترادف ہے پھر اگر وہ ڈرتے، سہمتے اپنے مرض کی تشخیص کے بعد ماہرِ نفسیات کے پاس علاج کی غرض سے چلا جائے تو دنیا والے اُسے ایسی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اُس کی مشکل سے جمع کی ہوئی ہمت اور شخصی اعتماد فضا میں محلول ہو جاتا ہے۔

ذہن کا تھکا ہوا ہونا یا ذہن پرکسی قسم کا بوجھ موجود ہونا، ایک عام سی بات ہے اگر حقیقت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ہماری دنیا کا ہر دوسرا فرد ذہنی طور پر بیمار ہے۔

آج اگر ہم دوسروں کو اُن کے تھکن زدہ ذہن کی وجہ سے Alien سمجھیں گے تو کل کوئی دوسرا بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا۔ دنیا بہت تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہی ہے ہمیں بھی اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر صرف چلنا نہیں بھاگنا بھی ہوگا۔

محض رہن سہن کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرنے اور دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اُن کے لیے اپنے دل میں احترام کا جذبہ اُجاگر کرنے اور اُس کا عملی مظاہرہ کرنے کے اعتبار سے بھی اور جب ہم ایسا کر جائیں گے، تبھی ہم صحیح معنوں میں ماڈرن انسان کہلانے کے اہل ہونگے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی پالیسی میں صرف چین خطرہ ؟
  • آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط
  • پروفیسر خیال آفاقی
  • میں نہیں ہم
  • ایک عام سی بات
  • اسرائیلی فضائی حملے میں شہادت پانے والے بہادر اور جری حماس کمانڈر رعد سعد کون ہیں؟
  • لاہور ہائیکورٹ نے پارک میں درخت کاٹنے پر ایل ڈی اے آور پی ایچ اے کو کام سے روک دیا
  • بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
  • کوئن الزبتھ اول کے حکم پر سزائے موت پانے والی اسکاٹ لینڈ کی ملکہ کا آخری خط منظر عام پر
  • مستقبل کس کا ہے؟