صرف 20 منٹ میں عمدہ صحت پانے کا راز
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
اگر آپ نے کبھی پارک میں چہل قدمی کرتے یا جنگل میں سیر کے بعد خود کو زیادہ پُرسکون محسوس کیا ہے، تو یہ آپ کا وہم نہیں بلکہ حیاتیاتی حقیقت ہے۔
جدید طبی سائنس نے دریافت کیا ہے، قدرت کے درمیان وقت گزارنے سے آپ کے جسم کے اندرکئی مثبت جسمانی و روحانی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں ، جیسے تناؤ یا اسٹریس پیدا کرنے والے ہارمونوں کی مقدار میں کمی آنا، بلڈ پریشر ماند پڑ جانا اور یہاں تک کہ آنتوں کی صحت میں بہتری ہونا۔اہم بات یہ کہ درج بالا طبی فوائد پانے کے لیے آپ کو گھنٹوں پیدل چلنے کی ضرورت نہیں۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پارک میں صرف 20 منٹ چلنے پھرنے اور سیر کرنے سے بھی زیادہ سے زیادہ مثبت اثر حاصل ہو جاتا ہے۔اسی لیے روزانہ نہیں تو ہفتے میں چند بار دوپہر کو کھانے کے وقفے میں پارک میں چہل قدمی کرنا اور بینچ پر بیٹھ کر سینڈوچ کھانا بھی جسم اور ذہن کے لیے فائدے مند ہے۔فطرت کی آغوش میں بیس پچیس منٹ کا وقت گزار کر ہر انسان کو چار قیمتی فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کا تذکرہ درج ذیل ہے:
1… سکون کا بیش قیمت تحفہ
پارک پہنچ کر جب آپ لہلاتے سبز درخت دیکھتے ، پھولوں کی مدھر خوشبو سونگھتے یا پتوں کی ہلکی سرسراہٹ اور پرندوں کی آواز سنتے ہیں تو آپ کا خودکار اعصابی نظام جو جسم کے لاشعوری افعال کنٹرول کرتا ہے، فور اًمثبت ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔
یہ اثر مقامی پارک کے مختصر دورے پر بھی محسوس ہو سکتا ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ میں حیاتیاتی تنوع کی ماہر بیرو نیس کیتھی ولس کہتی ہیں:’’ اس وقت ہم جسم میں مثبت تبدیلیاں ہوتی دیکھتے ہیں جیسے بلڈ پریشر میں کمی آنا اور دل دھڑکنے کی رفتار میں نرمی یعنی دل آہستہ دھڑکنے لگتا ہے۔‘‘برطانیہ میں تقریباً بیس ہزار خواتین ومردوں پر کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جو لوگ ہر ہفتے کم از کم 120 منٹ سرسبز ماحول میں گزارتے ہیں، وہ بہتر جسمانی صحت رکھتے اور زیادہ نفسیاتی خوشحالی کی نوید سناتے ہیں۔فطرت میں وقت گزارنے کے فوائد اتنے واضح ہیں کہ اب برطانیہ کے کچھ علاقوں میں ’’گرین سوشل تجویزی‘‘ (Green Social Prescribing) نامی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو فطرت سے جوڑنا ہے تاکہ ان کی ذہنی و جسمانی صحت بہتر ہو اور خوشی و اطمینان میں اضافہ ہو سکے۔
2… ہارمون دوبارہ متوازن ہو تے ہیں
پارک میں وقت گزارنے سے آپ کے جسم کا ہارمونی نظام بھی جنم لیتے سکون کے عمل میں شامل ہو جاتا ہے۔ کیتھی ولس کہتی ہیں کہ فطرت میں وقت گزارنے سے کورٹیسول اور ایڈرینالین کی سطح کم ہو جاتی ہے ۔ یہ وہ ہارمون ہیں جو تناؤ یا بے چینی کے وقت جسم میں بڑھ جاتے ہیں۔
ایک تحقیق سے یہ اہم انکشاف ہوا کہ جن لوگوں نے تین دن ایک ہوٹل کے کمرے میں پھولوں کے تیل کی خوشبو سانس کے ذریعے محسوس کی،تو ان کے جسم میں ایڈرینالین کی مقدار نمایاں طور پر کم ہوگئی۔یہی نہیں ان کے بدن میں ’’قدرتی قاتل خلیوں‘‘ (Natural Killer Cells)کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا۔یہ قدرتی قاتل خلیے انسانی جسم میں وائرس اور جراثیم سے لڑنے کا کام کرتے ہیں۔
تحقیق میں شامل شرکاء کے جسم میں یہ خلیے پھولوں کی خوشبو میں سانس میں لینے کے دو ہفتے بعد بھی بلند سطح پر موجود تھے۔امریکی یونیورسٹی میں طب وصحت کی پروفیسر کا کہنا ہے :’’فطرت اْن چیزوں کو پُرسکون کرتی ہے جنہیں سکون کی ضرورت ہو اور اْن چیزوں کو مضبوط کرتی ہے جنہیں طاقت کی ضرورت ہو۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں:’’فطرت کی آغوش میں صرف تین دن کا ویک اینڈ گزارنا ہمارے جسم میں وائرس وجراثیم سے لڑنے والے نظام پر زبردست مثبت اثر ڈالتا ہے ۔ اور ایک ماہ بعد بھی یہ نظام اپنی عام سطح سے’’ 24 فیصد‘‘ زیادہ قوت کے ساتھ فعال رہ سکتا ہے۔‘‘
تحقیقات سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ جو مروزن پارک میں بیس منٹ سے کم عرصہ گزارتے ہیں،فطرت انھیں بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی اور اپنی کچھ طبی برکات سے انھیں بھی نواز دیتی ہے، جیسے مایوسی سے چھٹکارا پانا اور مثبت طرزفکر کا جنم لینا۔
3…خوشبو ، ایک طاقتور احساس
قدرتی مناظر ’’سونگھنا‘‘ بھی اتنا ہی مؤثر ہے جتنا دیکھنا یا سننا۔درختوں اور مٹی کی خوشبو میں ایسے نامیاتی مرکبات (Organic Compounds ) شامل ہوتے ہیں جو پودے فضا میں خارج کرتے ہیں۔ اور جب آپ انہیں سانس کے ذریعے اندر لیتے ہیں تو ان کے کچھ ذرات خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔" صنوبر (Pine)کا درخت اس عجوبے کی بہترین مثال ہے۔ صنوبر کے جنگل کی خوشبو صرف 20 سیکنڈ میں ذہن پُرسکون کر دیتی ہے اور یہ اثر تقریباً 10 منٹ تک برقرار رہتا ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ پارک میں بسی خوشبو سونگھنے سے جنم لیتاسکون محض ذہنی وہم ہے۔ لیکن ایک تحقیق میں پایا گیا کہ جب نوزائیدہ بچوں کے کمرے میں جن کے ذہن میں کسی خوشبو سے متعلق کوئی یاد نہیں ہوتی ، صنوبر اور دیگر پھولوں کی خوشبو پھیلائی گئی تو وہ بھی پُرسکون ہو گئے۔
4… مٹی سے قربت اور آنتوں کی صحت
مٹی کو چھونا بھی آپ کے جسم کو انسان دوست جراثیم یعنی بیکٹیریا حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔یہ بیکٹیریا ہماری آنتوں کا اہم جراثیمی نظام (Microbiome) متوازن کرتے ہیں، جس سے مدافعتی قوت مضبوط ہوتی اور مجموعی صحت میں بہتری آتی ہے۔
گویا فطرت نہ صرف ہمارے ذہن کو سکون دیتی بلکہ آنتوں کی صحت بھی بہتر بناتی ہے کیونکہ مٹی اور پودے اچھے بیکٹیریا سے بھرپور ہوتے ہیں۔یہ وہی انسان دوست بیکٹیریا ہیں جنھیں پانے کے لیے ہم پروبایوٹک غذاؤں یا ادویہ پر بھاری پیسا خرچ کرتے ہیں۔
ماہرین نے انفیکشن کے خدشات اور ذہنی صحت جیسے عوامل پر فطرت کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پارک میں پائے جانے والے کچھ مخصوص بیکٹیریا سانس کے ذریعے اندر لینے سے مزاج بہتر ہوتا ہے۔ جبکہ پودے مضر جراثیم دور رکھنے کے لیے خصوصی کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں جنھیں ’’فائیٹون سائیڈز‘‘ (Phytoncides) کہا جاتا ہے۔یہ انسان کے جسم میں پہنچ کر بیماریوں سے لڑنے میں مددگار ثابت ہو تے ہیں۔
ڈاکٹر کرس وین ٹْلکن برطانیہ میں چھوتی امراض پر تحقیق کرتے معروف سائنس دان ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ فطرت دراصل ایک ایسا مثبت ماحول ہے جو ہمارے مدافعتی نظام کو ہلکا سا چیلنج دیتا ہے ، جیسے اُسے گدگدی کرتا ہو۔وہ اپنے بچوں کو پارک یا جنگل میں مٹی سے کھیلنے دیتے ہیں تاکہ وہ قدرتی بیکٹیریا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں جذب کر سکیں۔اس طرح ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔
فطرت کو اپنے قریب لائیے
اگر گھر کے قریب پارک یا درختوں کا جھنڈ موجود نہیں تو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماہرین کے نزدیک تو کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر لگا قدرتی مناظر کا اسکرین سیور بھی آپ کو پُرسکون کر سکتا ہے۔ سب لوگوں کے لیے جنگل یا پارک جانا ممکن نہیں، مگر گھر میں فطرت کے چند چھوٹے لمحات شامل کرنے سے بھی بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔دیکھنے کے لحاظ سے سفید یا پیلے گلاب کے پھول دماغی سرگرمی میں سب سے زیادہ سکون پیدا کرتے ہیں۔خوشبو کے لحاظ سے لیونڈر جیسے ضروری تیل (Essential Oils ) تناؤ دور کر کے ذہنی سکون کا تحفہ دیتے ہیںاور اگر کچھ بھی ممکن نہ ہو تو ’’جنگل کی تصویر‘‘ دیکھنا بھی فائدے مند ہے۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ لیپ ٹاپ پر فطرت کی تصویریں دیکھنا یا کسی سبز منظر کو گھورنا دماغ میں وہی پُرسکون لہریں پیدا اور تناؤ کم کرتا ہے جو حقیقت میں دیکھنے سے ملتاہے۔
قدرت کا ہر چھوٹا سا لمس بھی آپ کو جسمانی وذہنی صحت کی دولت عطا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی ضرورت کی خوشبو کے ذریعے پارک میں کرتے ہیں سکتا ہے پ رسکون ہیں جن ہیں تو ا نتوں ہیں کہ کے جسم کے لیے
پڑھیں:
جج آصف کا بیٹا بھی جج بنے گا؟
نہ سیف سٹی اسلام آباد نے سی سی ٹی وی فوٹیج برآمد کی، نہ کسی چشم دید گواہ نے گواہی دی، نہ کچلی ہوئی بچیوں کے دفتر نے احتجاج کیا، نہ ٹریفک پولیس نے کوئی کارروائی کی، نہ آج تک پتہ چلا کہ گاڑی میں کون کون تھا، نہ وی ایٹ جیسی بڑی گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصدیق ہوئی، نہ وکلاء نے احتجاج کیا، نہ معزز ججوں نے ایک دوسرے کو خط لکھا، نہ سول سوسائٹی نے موم بتیاں جلائیں، نہ وزیر اعظم نے دکھی خاندان کی داد رسی کی۔ اور صرف 5 دن میں انصاف ہو گیا۔ کچلی جانے والی بچیوں کے خاندان کی زبان پر قفل لگا دیے گئے اور انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ کیس عدالت سے اسی تیز رفتاری سے ختم ہوا جس تیز رفتاری سے سکوٹی پر بیٹھی بچیوں کو کچلا گیا تھا۔
انصاف کے حصول کے لیے اس برق رفتاری کا مظاہرہ اس عدلیہ کی جانب سے کیا گیا جس کے کیس نسلوں تک فیصلوں کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ تیز رفتار انصاف اس عدلیہ کی جانب سے کیا گیا جس کا دنیا میں انصاف کی فراہمی میں 140واں نمبر ہے۔ یہ کارنامہ اس عدلیہ کی جانب سے کیا گیا جہاں کسی کسی کیس میں دہائیوں تک گواہوں کی پیشی نہیں لگتی، جہاں سائل انصاف کی تلاش میں عمریں گزار دیتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔ اس عدلیہ کی جانب سے ایسا کیس 5 دن میں نپٹانا ایسا کارنامہ ہے جو شاید اس وقت تک نہ دہرایا جائے جب تک کسی اور جج کا بچہ کسی اور بڑی گاڑی میں کسی اور بچی کو قتل نہیں کرتا۔
سارا زمانہ ششدر ہے کہ یہ کیسا کیس تھا جو بس 5 دن میں تمام ہو گیا۔ حیرت ان وکیلوں پر ہے جو ہر وقت احتجاج کو تیار رہتے ہیں، جن کی مرضی سے عدالتیں چلتی ہیں، جو سب سے زیادہ انصاف کا نعرہ لگاتے ہیں، جو اپنے پریشر سے حکومتوں کو زیرِ دام کرتے ہیں، جن کی بارز کی طاقت سے بڑے بڑے جج گھبراتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سارے وکیل لیڈر، وکیل تنظیمیں کیوں خاموش ہو گئیں؟ ان کا جذبۂ جہاد کہاں چلا گیا؟ ان کی انصاف کی طلب کہاں مر گئی؟
وہ بڑے بڑے جج جو سرعام ایک دوسرے کو خط لکھتے ہیں، جن کی طاقت اور دہشت سے ٹی وی پر ٹکر چلتے ہیں، جن کے فیصلوں سے حکومتیں الٹتی ہیں، جن کے خوف سے حکومتیں تھر تھر کانپتی ہیں، وہ سبھی اپنے مجرم ساتھی کو بچانے کی خاطر چپ ہو گئے۔ نہ کسی نے سوموٹو لیا، نہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا، نہ فل کورٹ کو طلب کرنے کی درخواست آئی، نہ کوئی خط میڈیا میں لیک ہوا، نہ انصاف کے ترازو میں کوئی جنبش ہوئی۔ سب اپنے ساتھی کے جرم پر پردہ ڈالنے کو خاموش ہو گئے۔
ایک لمحے کو سوچیں: جج آصف اب بھی انصاف کی مسند پر براجمان ہوں گے۔ سائل امید سے انصاف کی توقع لے کر ان کی عدالت میں آئیں گے۔ میزانِ عدل بھی وہیں پڑا ہوگا۔ قانون کی کتاب بھی وہیں کہیں رکھی ہو گی۔ قرآنِ کریم کا نسخہ بھی گواہی کے لیے موجود ہوگا۔ چوبدار بلند آواز میں سائلین کو پکارے گا۔ پولیس معزز جج کے حکم پر لوگوں کو گرفتار یا رہا کرے گی لیکن انصاف کی مسند پر وہ شخص بیٹھا ہوگا جس نے اپنے ادارے کے نام کو بٹہ لگایا، انصاف کا تماشا بنایا۔ نہ ادارے کو حیا آئی نہ کسی اور جج کی غیرت جاگی۔
جج آصف کو چاہیے کہ اپنی عدالت میں رکھی قانون کی کتاب کو آگ لگا دیں، انصاف کے میزان کے دونوں پلڑے زمین پر گرا دیں، قرآنِ کریم کے نسخے کو طاق پر رکھوا دیں، سائلین میں منادی کرا دیں کہ یہ اس منصف کی عدالت ہے جو خود مجرم ہے، جس کا بیٹا قاتل ہے اور اس قاتل کی پشت پناہی کرنے والا آج آپ کا مقدمہ سنے گا۔ سائلین خود بتائیں کہ انہیں کون سا انصاف درکار ہے: جج آصف کے بیٹے ابوذر ریکی والا یا سکوٹی پر بیٹھی 2 غریب بچیوں والا؟
کہا جاتا ہے کہ جس بڑی گاڑی نے سکوٹی والی بچیوں کو کچلا اس کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی۔
سرکارِ پاکستان اس وقت دہشتگردی کے خلاف جہاد سے نبرد آزما ہے۔ غیر قانونی مقیم افغانیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جا رہا ہے۔ ہر شخص کے لائسنس اور گاڑی کے نمبر کی تصدیق ہو رہی ہے۔ کوئٹہ سے کراچی تک دہشتگردی اور دہشتگروں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے۔ ان حالات میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک جج وی ایٹ جیسی بڑی گاڑی جعلی نمبر پلیٹ پر چلا رہا ہے، تو اس پر تشویش کسی ایک ادارے کو نہیں، پورے ملک کو ہونی چاہیے۔
ایک زمانہ تھا جب ہم مجرم اس کو کہتے تھے جس نے جرم کیا ہوتا تھا، مگر جج آصف نے اس عدلیہ کے منہ پر وہ کالک ملی ہے کہ اب مجرم اور منصف میں تخصیص ختم ہو گئی ہے۔ اب دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہو گئے ہیں۔ اب دونوں ایک ہی گھر میں پرورش پاتے ہیں۔ ایک اپنے بچے کو 9 سال کی عمر سے گاڑی چلانے کی ترغیب دیتا ہے اور اسی تربیت کا فائدہ اٹھا کر وہ بچہ 16 سال کی عمر میں وی ایٹ تلے 2 بچیوں کو قتل کر دیتا ہے۔ اسی گھر میں ایک منصف ہے جو اس سارے جرم پر پردہ ڈالتا ہے۔ پورا ادارہ اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔ کہیں سے کوئی احتجاج کی آواز نہیں آتی۔ انصاف کا سارا ادارہ ایک مجرم جج کے حق میں خاموش رہتا ہے۔
جج آصف نے اپنے عہدے اور دولت سے اپنے قاتل بیٹے کے لیے جو انصاف خریدا ہے، اس سے یوں گمان ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا بھی بڑا ہو کر جج ہی بنے گا کیونکہ طاقت کے بل پر سستے داموں انصاف کو خریدنے کا نسخہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو چکا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔