Express News:
2025-10-24@23:34:48 GMT

اسرائیل کی من مانیاں

اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن معاہدے کے باوجود غزہ میں حالات خاصے خراب ہیں اور اسرائیل وہاں اپنی کارروائیاں کر رہا ہے۔ ان کارروائیوں میں مسلسل ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔

یوں غزہ میں قیام امن کی جو امید قائم ہوئی تھی وہ تاحال تعبیر کی صورت میں سامنے نہیں آسکی۔امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ دنوں اسرائیل بھی گئے تھے اور انھوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے ساتھ خطاب بھی کیا تھا لیکن اب وہ بھی حماس کے حوالے سے مسلسل خاصے سخت بیانات دے رہے ہیں۔ادھر امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے یروشلم میں اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات کی ہے۔

اس ملاقات میں انھوں نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ چیلنجوں کے باوجود آگے بڑھے گا۔ صدر ٹرمپ کے غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے تحت ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس قائم کی جائے گی، تاکہ غزہ میں امن برقرار رہے جب کہ اسرائیل اس سے دستبردار ہو جائے۔قبل ازیں امریکی نائب صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ نیوز کانفرنس میں کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کی تعمیر نو مشکل ہے مگر ہم اس کے لیے بہت پر امید ہیں۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکا غزہ میں بغیر فوج بھیجے صرف ہم آہنگی فراہم کرے گا۔انھوں نے واضح کیا کہ حماس کو غیر مسلح ہونے کی کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں دینا چاہتے۔امریکا کی درخواست پر برطانوی فوجیوں کو غزہ امن منصوبے کی نگرانی کے لیے اسرائیل میں تعینات کردیا گیا۔

غزہ میں جب تک حتمی امن نہیں ہوتا تب تک تنازعہ فلسطین کا حل بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ اس وقت ضروری بات یہ ہے کہ غزہ امن منصوبے میں جو جو نکات شامل ہیں‘ان پرفوری عمل درآمد کرایا جائے ‘جہاں تک حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط کا تعلق ہے تو اس حوالے سے  بہتر تو یہ تھا کہ حماس کے ساتھ معاملات طے کیے جاتے کیونکہ حماس بھی حالیہ مذاکراتی عمل میں شریک تھی اور وہ بھی غزہ میں امن کے عمل پر راضی ہے۔

اس کے باوجود غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں معاملات حل نہیں ہوئے اور کچھ نکات ابھی ادھورے اور مبہم ہیں۔ حماس کا یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ حماس کے لیڈروں اور کارکنوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔اصولی طور پر تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس قسم کی ضمانت امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ با آسانی دے سکتے ہیں۔

اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ حماس غیر مسلح ہونے پر آمادہ ہو جائے گی جس کی وجہ سے غزہ میں مستقل امن کی ضمانت بھی مل جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ میں بین الاقوامی فورس کی تعیناتی بھی انتہائی ضروری ہے۔ فقط برطانیہ کی فوج کی تعیناتی سے معاملہ حل نہیں ہو گا اس کے لیے مسلم ممالک خصوصاً عربوں پر مشتمل فورس کی تعیناتی بھی ایک اہم نقطہ ہے جس پر جتنا جلد ہو سکے عمل کیا جانا چاہیے۔

غزہ میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے ‘حالیہ امن منصوبے کے اعلان کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی اپنے گھروں میں آئے ہیں‘لیکن اسرائیل کی کارروائیاں تاحال جاری ہیں ‘علاقے میں ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی فورسز غزہ میں امدادی قافلوں کو ابھی بھی جانے نہیں دے رہی جو سراسر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے ۔

عالمی ادارے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں قحط کی صورت حال ہے اور اس کی ساری ذمے داری اسرائیل کی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسرائیلی حکومت نے غزہ میں امدادی سامان کی بندش کو جاری رکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فوجی کارروائیاں بھی کر رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے ایک فیصلے میں مشاورتی رائے دی ہے کہ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (UNRWA) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مقبوضہ غزہ کے فلسطینیوں میں امداد کی فراہمی اسرائیل کی ذمے داری ہے۔

اسرائیل غزہ میں بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے، غزہ جانے والے امدادی سامان میں رکاوٹ نہ ڈالے۔اسرائیل کو UNRWA اور دیگر اقوام متحدہ کے اداروں کو امداد کی فراہمی میں تعاون کرنا چاہیے۔عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے ججوں نے قرار دیا کہ اسرائیل اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا کے ملازمین کی بڑی تعداد حماس کے ارکان ہیں۔واضح رہے اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا پر اسرائیلی پابندی پر جنرل اسمبلی نے عدالت سے اسرائیل کی قانونی ذمے داریوں کے بارے میں مشاورتی رائے دینے کی درخواست کی تھی۔

اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت نے غزہ کے حوالے سے جس قسم کی من مانی کی ہے اور ایک چھوٹے سے خطے کے لوگوں پر جس طرح مسلسل بمباری جاری رکھی ہوئی ہے‘ جنگوں کی تاریخ میں اس قسم کی بے رحمی کی مثال کم ہی دیکھنے میں ملے گی۔ اقوام متحدہ کے مختلف ادارے متعدد بار غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کے بارے میں اقوام عالم کو آگاہ کر چکے ہیں لیکن اقوام عالم کی طاقتور اقوام نے بھی اسرائیل کی اس من مانی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات سے گریز کی پالیسی اختیار کی ہے۔

روس خود یوکرین کی جنگ میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ روس سے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ فلسطین کی حمایت کو آئے گا لیکن یوکرین کی جنگ نے روسی قیادت کو بری طرح الجھا دیا ہے اور ان کی سب سے پہلی ترجیح یوکرین کے مسئلے سے نمٹنا بن چکی ہے جس کی وجہ سے وہ فلسطین پر عملی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں جب کہ چین کی پالیسی بھی بیانات سے آگے نہیں ہے جب کہ بھارت کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔عرب ممالک کی طرف دیکھا جائے تو انھوں نے جس قدر ہو سکا کوشش کی ہے مگر عالمی سیاست میں ان کا وزن اتنا زیادہ نہیں کہ وہ امریکا اور مغربی ممالک کی مشترکہ پالیسی کا توڑ کر سکیں۔ یوں اسرائیل کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا ہے۔

اسرائیل فلسطین کے حوالے سے مسلسل اپنے منصوبے پر عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔میڈیا کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطین کے علاقے مغربی کنارے کے انضمام کا ابتدائی مرحلے کا بل منظور کرلیا گیا۔الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کی مخالفت کے باوجود بل کو آگے بڑھانے کے حق میں 25 اور مخالفت میں 24 ووٹ آئے۔نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے بیشتر ممبران یا تو غیر حاضر رہے یا بل کے حق میں ووٹ نہ دیا۔ واضح رہے امریکی صدر ٹرمپ نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔

اردن نے اسرائیلی حکومت کے مغربی کنارہ ہتھیانے کے دو ڈرافٹس کی ابتدائی منظوری کی شدید مذمت کی ہے ۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی افواج کے غزہ پر تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں شرم الشیخ،مصر میں مسلم اور عرب دنیا، امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کی قیادت کی موجودگی میں طے پانے والے امن معاہدے کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔عالمی برادری اسرائیل کی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے ۔ الجزیرہ کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے طوفہ میں بھی اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں جن میں ایک اسرائیلی فوجی اور ایک شہری کی لاش شامل ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس غزہ امن معاہدے کی طے کردہ شرائط پر عمل کر رہی ہے ‘اس امن معاہدے میں یہ بھی شق شامل تھی کہ حماس کے پاس جو یرغمالی موجود ہیں ‘انھیں زندہ یا مردہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی تکمیل تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل کو اس پر عملدرآمد کے لیے مجبور کیا جائے گا کیونکہ اسرائیل کی حکومت تاحال اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر بھی عمل کر رہی ہے اور غزہ میں جنگ بندی کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے۔مغربی کنارے کو ہتھیانے کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ نے جو قرار دادیں یا مسودے منظور کیے ہیں وہ سراسر زیادتی ہے۔

موجودہ حالات میں تو اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔ اسرائیل نے شام کے علاقے گولان ہائیٹس پر بھی ناجائز قبضہ کر رکھا ‘اسرائیل کے انتہا پسند مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس علاقے کو اسرائیل میں ضم کر لیں۔ اگر اس قسم کی من مانی جاری رہتی ہے تو تنازعہ فلسطین حل نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکے گا۔ اس حوالے سے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی پڑے گی کیونکہ اسرائیل کے انتہا پسند اس وقت تک باز نہیں آئیں گے جب تک کہ انھیں امریکی انتظامیہ سختی سے منع نہیں کرتی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی اقوام متحدہ کے حوالے سے اسرائیل کی اسرائیل کو اسرائیل کے کہ اسرائیل امن معاہدے امریکا کے کے باوجود نیتن یاہو کر رہا ہے انھوں نے نہیں ہو حماس کے کے ساتھ کہ حماس کے لیے ہیں کہ ہے اور قسم کی

پڑھیں:

اسرائیل کا لبنان میں گاڑی پر ڈرون حملہ؛ حزب اللہ کمانڈر ساتھی سمیت شہید؛ ویڈیو وائرل

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی لبنان میں کیے گئے ایک ڈرون حملے میں حزب اللہ کے لاجسٹک یونٹ کے سربراہ عباس حسن کرکی کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ کارروائی نباتیہ کے قریب تول نامی قصبے میں کی گئی۔

اسرائیلی فوج کے بقول ڈرون حملہ عین اُس وقت کیا گیا جب حزب اللہ کے کمانڈر عباس حسن کرکی اپنی گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔

اس حملے میں گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی جب کہ حزب اللہ کے رہنما موقع پر ہی اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ شہید ہوگئے۔

צה"ל חיסל את מפקד הלוגיסטיקה של מפקדת 'חזית הדרום' בארגון הטרור חיזבאללה

צה"ל תקף מוקדם יותר היום, בהובלת פיקוד הצפון, באמצעות כלי טיס של חיל האוויר במרחב נבטיה שבדרום לבנון, וחיסל את המחבל עבאס חסן כרכי, מפקד הלוגיסטיקה של מפקדת 'חזית הדרום' בארגון הטרור חיזבאללה.

בתקופה… pic.twitter.com/5eJjpn4RIJ

— צבא ההגנה לישראל (@idfonline) October 24, 2025

عباس حسن کرکی حزب اللہ کے جنوبی محاذ کے لاجسٹک یونٹ کے سربراہ تھے اور انھوں نے حالیہ برسوں میں کئی کارروائیوں میں حصہ لیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے بیان میں مزید کہا گیا کہ عباس حسن اسلحے کی منتقلی اور ذخیرہ کرنے کے انتظامات کے بھی ذمہ دار تھے جو کہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان ہونے والے غیر رسمی معاہدے کی خلاف ورزی بھی ہے۔

حزب اللہ کی جانب سے تاحال اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

بھی ردِعمل کی توقع نہیں ہے ابھی تک حزب اللہ کی جانب سے اس حملے کی باضابطہ تصدیق یا ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

 

متعلقہ مضامین

  • شہریوں کی حفاظت تجارت سے زیادہ اہم، افغان سرحدی راہداریاں بند رہیں گی، پاکستان
  • اسرائیل کا لبنان میں گاڑی پر ڈرون حملہ؛ حزب اللہ کمانڈر ساتھی سمیت شہید؛ ویڈیو وائرل
  • نیتن یاہو نے غزہ معاہدہ خطرے میں ڈالا ، ٹرمپ انہیں خود سبق سکھائیں گے، امریکہ
  • نیتن یاہو نے غزہ معاہدے کو خطرے میں ڈالا تو ٹرمپ انہیں خود سبق سکھائیں گے، امریکی اہلکار
  • سعودیہ سے تعلقات نہیں چاہتے، وہ صحرا میں اونٹوں پر گھومتے رہیں؛ اسرائیلی وزیر
  • اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے اضمام کا فیصلہ عالمی سطح پر بھی مسترد
  • امریکا اسرائیل کا نگراں نہیں، شراکت دار ہے، نائب امریکی صدر جے ڈی وینس
  • غزہ امن منصوبے کی نگرانی کے لیے برطانوی فوجی اسرائیل میں تعینات
  • حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں