گھر میں ایک اور شکست، پاکستانی ٹیم ہمیں کب حیران کرے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
گزشتہ 6 سالوں کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے گھر میں 16 ٹیسٹ میچ کھیلے، جن میں سے 4 جیتے اور 4 کا کوئی نتیجہ نہ نکلا جبکہ 8 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مزید تکلیف دہ بات یہ رہی کہ اس دوران 2 سیریز میں کلین سوئپ کی خفت اٹھانی پڑی جبکہ مزید دردناک معاملہ یہ رہا کہ بنگلہ دیش نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی۔
یہ ہے وہ کارکردگی جسے ہم اپنے سر پر سجائے گھوم رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ہوم سیریز ٹیمیوں کے لیے سودمند رہتی ہیں کہ وکٹیں اور کنڈیشنز دونوں ہی حق میں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر ٹیم کا ریکارڈ گھر میں اچھا رہتا ہے، مگر ہمیں ناجانے کیا ہوگیا ہے کہ اب گھر میں بھی جیتنا جیسے بھول گئے ہیں۔
واضح رہے کہ 16 ٹیسٹ میچوں میں بھی 4 میچوں میں کامیابی اسپن وکٹوں کے نئے فارمولے کے سبب ملی ہے ورنہ 2022 میں پہلے انگلینڈ نے ہمیں گھر میں گھس کر 0-3 سے شکست دے کر رسوا کیا اور پھر 2024 میں بنگلہ دیش نے 0-2 سے شرمندہ کیا۔
جب عاقب جاوید نے اسپن وکٹوں کا نیا فارمولہ پیش کیا اور پھر اس فارمولے پر نعمان علی اور ساجد خان نے شاندار انداز میں عمل کیا تو لگا کہ بس اب تو ہمیں گھر میں ہرانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے مگر ہم غلط تھے کیونکہ اس فارمولے کے بعد ہم صرف انگلینڈ کو ہی سیریز میں شکست دے سکے ہیں جبکہ ویسٹ انڈیز جیسی کمزور اور جنوبی افریقہ کی کم تجربہ ٹیم کے ہاتھوں بھی سیریز برابر ہی کرسکے اور کامیابی کا سنہری موقع ہم نے اپنے ہاتھ سے نکال دیا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف اس شکست کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں ہم اچانک دوسرے سے چوتھے نمبر پر آگئے، لیکن اگر جیت جاتے تو ہماری پوزیشن کافی مستحکم ہوجاتی۔
چونکہ بار بار ہارنے کے بعد اب یہ بحث تو ختم ہی ہوگئی ہے کہ ہم کیوں ہارے، مگر ہاں یہ گنجائش اب بھی باقی ہے کہ اس موضوع پر بات کرلیں کہ ہارنے کا ذمہ دار کون ہے، کچھ لوگ شکست کا ملبہ بلے بازوں پر ڈال رہے ہیں تو کچھ کے نزدیک غلطی بولرز کی ہے، چلیں اچھا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کہ ہمارے پاس کرنے کے لیے کوئی کام تو ہونا چاہیے۔
لیکن میرے نزدیک ہر بار غلطی صرف ان دونوں کی نہیں ہوتی، بعض اوقات نظام کی خرابی بھی شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔
جب بھی ہوم کنڈیشنز کی بات کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب کسی بھی ٹیم کو معلوم ہو کہ اس کا مضبوط شعبہ کونسا ہے؟ یعنی بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ بنانی چاہیے یا بولنگ کے لیے؟ اسپن وکٹ ہو یا باؤنسی؟ ہاں کچھ میچوں کے لیے آپ میچ میں 3 یا 4 اسپنرز کھلا سکتے ہیں اور میچ جیت بھی سکتے ہیں مگر ہر بار اور بار بار یہ فارمولہ چلانا نہ ہی ٹھیک ہے اور نہ ہی یہ ہر بار کام کرسکتا ہے۔
وکٹیں بناتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ جن وکٹوں پر ہم مخالف ٹیم کو پکڑنا چاہ رہے ہیں کیا ہمارے بیٹسمین انہی وکٹوں پر کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم نے جنوری میں پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے خلاف ہمارے بلے بازوں کا حال یہ رہا کہ 4 اننگز میں صرف ایک بار 200 سے زیادہ رنز بنائے، مگر اس کارکردگی کے باوجود ہم نے ایک میچ جیت لیا۔
ابھی جنوبی افریقہ کے خلاف صورتحال اگرچہ نسبتاً بہتر رہی مگر پھر بھی 4 میں سے 2 اننگز میں ہم 200 سے کم رنز پر آؤٹ ہوگئے، اب اس موقع پر کیا یہ نہیں کہنا چاہیے کہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے پر ہم خود ہی بار بار اس میں گر رہے ہیں؟
ماہرین اس بار پر متفق ہیں کہ راولپنڈی ٹیسٹ میں پاکستان کو پہلی اننگز میں 500 رنز کرنے چاہیے تھے اور کیے جاسکتے تھے، لیکن ہم اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور یہی وہ غلطی رہی جس کا جنوبی افریقہ نے فائدہ اٹھالیا۔
چلیں ہمارے لیے 333 بھی کافی ہوسکتے تھے اگر ہم جنوبی افریقہ کو آخری 2 وکٹوں پر 169 رنز بنانے کی اجازت نہ دیتے، یہ کام بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ابتدائی 8 وکٹیں 235 رنز گرادیں اور ٹیل اینڈز 169 رنز بناکر آپ سے میچ ہی چھین لیں؟
یعنی ہمارے بلے باز بھی ناکام رہے، بولرز بھی اور کپتان بھی، یعنی کسی نے مایوس نہیں کیا اور سب نے بالکل ویسا ہی کھیلا جیسا ہم کئی عرصے سے انہیں دیکھتے آرہے ہیں۔
جب میچ کی پہلی اننگز میں آصف آفریدی نے مشکل وقت میں 6 وکٹیں لیں تو خیال آیا کہ میچ میں ہر بار قصور صرف بلے بازوں یا بولرز کا نہیں ہوتا، نظام کی خرابیاں بھی شکست کا بڑا سبب بن سکتی ہے۔
یہ کیسا نظام ہے کہ کسی بولر کو آپ 39 سال تک موقع نہیں دیں؟ پھر ایک اور تلخ بات بھی دیکھیے کہ 39 سال میں کسی بولر کو موقع دیکر ایک اور نوجوان بولر کے کیریئر کو آپ تاخیر کا شکار کررہے ہیں، میں یہاں ہرگز آصف آفریدی کو کھلانے کی مخالفت نہیں کررہا بلکہ بات صرف یہ ہے کہ کھلاڑی کو وقت پر موقع دینے کا میکینزم ہم کب بنائیں گے؟ ہم لانگ ٹرم پالیسی کب بنائیں گے؟ کب سوچیں گے کہ ہمیں ایسے کھلاڑی تیار کرنے ہیں جو اگلے 2، 4 سالوں میں اس قدر پالش ہوجائیں کہ ٹیم کی فتوحات میں ان کا کردار اہم ہوجائے۔
ہماری ٹیم میں نہ مستقل کوچ ہے، نہ مستقل کپتان ہوتا ہے، بولرز 39 برس کی عمر میں ڈیبیو کرتے ہیں اور بلے بازوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر 2 میچوں میں پرفارم نہ کیا تو ٹیم سے باہر ہوجائیں گے، جب حالات یہ ہوں اور ہر چیز غیر یقینی کی شکار ہو تو ان حالات میں حیران کن نتائج کی توقع کرنا دراصل ہماری اپنی ہی غلطی ہے اور اس ہر ہم پوری ٹیم سے معذرت خواہ ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: گھر میں رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
ڈی جی آئی ایس پی آر نے محتاط زبان استعمال کی، ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا آتا ہے: وفاقی وزرا
سیالکوٹ+ اسلام آباد+لاہور (نمائندہ خصوصی+نامہ نگار+ کامرس رپورٹر) وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے محتاط زبان استعمال کی ہے لیکن مجھے پتہ ہے اینٹ کا جواب پتھر سے کیسے دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈر کی غیر سیاسی ہمشیرہ نے بھارتی میڈیا کے ساتھ جو گفتگو کی ہے کیا وہ کوئی بھی پاکستانی ایسی گفتگو کر سکتا ہے؟ کیا کوئی بھی محب وطن پاکستانی اپنے ازلی اور ابدی دشمن کے ساتھ ایسی گفتگو کر سکتا ہے۔ یہ کس طرح اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں کس طرح اپنے آپ کو محب وطن قرار دے سکتے ہیں۔ ان کا ایمان ان کا نظریہ صرف اور صرف اقتدار ہے۔ اس مٹی کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ نہیں۔ ہمارے دوست ملکوں نے ہماری شہادتوں پر افسوس اور یکجہتی کااظہار کیا۔ جنگ کے دوران ہمارے دوست ملک ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے جبکہ پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی نے وہ کردار ادا نہ کیا جو کہ ایک پاکستانی کو کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت محتاط الفاظ کے پیچھے چھپ کر کھیل رہے ہیں یہ رویہ نہ صرف عوام بلکہ اداروں کے بھی خلاف ہے۔ دہشت گردوں اور طالبال کی حمایت قابل مذمت ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ فوج پر تنقید ہم نے بھی کی لیکن کبھی ریڈ لائن کراس نہیں کی۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ابھی تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے نرمی برتی ہے، میں ہوتا تو اس سے بھی سخت الفاظ استعمال کرتا۔ نارووال میں گفتگو کرتے ہوئے میں احسن اقبال نے کہا کہ مجھے اسی سیل میں جھوٹے مقدمے میں ڈالا، مگر ہم نے بیرون ملک جا کر پاکستان کے خلاف بات نہیں کی، پاکستان ایک خاندان ہے ہم کبھی اپنے جھگڑوں کو گھر سے باہر جا کر حل نہیں کرتے۔ہم سب کو ذمے داری کا ثبوت دینا چاہیے، پاکستان کے اداروں اور مسلح افواج کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی کرے گا تو اس سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔ دریں اثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور سینیٹر رانا ثناء اللہ نے واضح کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے اب مذاکرات کے امکانات نہیں، بانی پی ٹی آئی جو باتیں کرتے ہیں ان کی تائید بھارتی اور افغان میڈیا کرتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی باتوں کی تائید صرف حکومت نہیں بلکہ ہر پاکستانی کر رہا ہے۔ حساس ادارے کے خلاف مہم جوئی کریں گے تو یہ قابل قبول نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ٹوئٹ کے بعد پیدا صورتِ حال سے لگتا ہے کہ حالات مزید پیچیدہ ہوگئے۔ بانی صورتِ حال کو مزید خرابی کی طرف لے گئے۔ علاوہ ازیں وزیر اطلات و ثقافت پنجاب عظمٰی زاہد بخاری نے کہا ہے کہ ترجمان پاک فوج نے ذہنی مریض بانی تحریک انصاف کا ملک دشمن ایجنڈہ بے نقاب کر دیا۔ بھارتی میڈیا کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف بیانیے کی چال چلنے والے ذہنی مریض کو قوم نے پہچان لیا ہے- ذہنی مفلوج بانی تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے لیے ہمارے بچوں کے قاتل طالبان اور بھارت کی سپورٹ حاصل کر رہا ہے۔ بنیان مرصوص کے سپہ سلار پر فضول گوئی دراصل بانی تحریک انصاف کے ذہنی و اخلاقی مفلوج ہونے کا ثبوت ہے- پاکستان کے خلاف کام کرنے والے یہ چند چہرے ریاستی استحکام کیلئے واضح خطرہ ہیں۔ دشمن ایجنڈے پر چلنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ ریاست ان کی ہر سازش ناکام بنائے گی۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پی کے سہیل آفریدی کو پہلے ناکے سے ہی واپس بھیج دیا جائے گا۔ سہیل آفریدی کو اڈیالہ کے باہر انتظار کرنے کا مینڈیٹ نہیں ملا وہ امن وا مان کی صورتحال پر توجہ دیں۔ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں آئیں تو ان کی گرفتاری کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملاقات اس لئے کرائی گئی کہ وہ ٹویٹ نہیں کرائیں گی۔ عظمیٰ خان کی ملاقات اس لئے کرائی گئی کہ وہ سیاسی گفتگو نہیں کریں گی، اب اڈیالہ جیل کے باہر مجمع لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔