data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شازیہ مری نے واضح کیا ہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔

اپنے بیان میں شازیہ مری نے کہا کہ سرکاری ترقیاتی پروگرام کے فیصلے اگر بند کمروں میں کیے جائیں تو یہ غلط ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی کے ارکان کے بغیر اسمبلی کا کورم بھی مکمل نہیں ہوتا، جس کے باعث اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ شہباز شریف وزیر اعظم بننے کی خواہش لے کر پیپلز پارٹی کے پاس آئے تھے، اور اس موقع پر کچھ معاملات طے پائے تھے۔

شازیہ مری کے مطابق، مجلسِ منتظمہ کے اجلاس میں ارکان نے حکومت کے رویے اور وعدوں پر تحفظات کا اظہار کیا، جس پر صدر آصف علی زرداری نے یقین دہانی کرائی کہ طے شدہ معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا، تاہم بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت سے متعلق کوئی سمجھوتا نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان ڈھائی، ڈھائی سال کی حکومت کے معاہدے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
(ن) لیگ کے بعض ارکان اسمبلی کا دعویٰ تھا کہ انہیں پارٹی قیادت نے اس معاہدے سے آگاہ کیا ہے، مگر پیپلز پارٹی نے ایسے کسی معاہدے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی مکمل پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بلوچستان میں پیپلز پارٹی شازیہ مری

پڑھیں:

سیٹھ ، سیاسی کارکن اور یوتھ کو ساتھ لیں اور میلہ لگائیں

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کو ایک ارب 29 کروڑ ڈالر جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ آئی ایم ایف کا قسط جاری کرنا یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت مستحکم چل رہی ہے۔ ادائیگیوں کا کوئی بحران نہیں ہے۔

قسط کی خبر پاکستانی اسسٹاک مارکیٹ پر بھی ایک مثبت اثر ڈالے گی۔ معاشی استحکام کا جو میسج اس قسط کی منظوری سے ادھر ادھر جاتا ہے۔ اس کا کوئی اثر عوام کی حالت پر نہیں پڑتا۔

عوام کے لیے ابھی کوئی ریلیف دور دور تک نہیں دکھائی دیتا۔ سردار اویس لغاری منسٹر آف پاور ہیں وہ امریکی سفیر سے مدد حاصل کرنے لیے ملے ہیں۔ امریکا کی یہ مدد پاکستان کو آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دوسرے مالیاتی اداروں کے لیے درکار ہے تاکہ پاکستان اپنے پاور سیکٹر کو بہتر کر کے لوگوں کو کوئی ریلیف فراہم کرے۔ محاورے والا دلی تو دور ہی ہوتا، اس صورتحال سے لگتا ہے کہ اسلام آباد والا ریلیف بھی ابھی باقی پاکستان سے خاصا دور ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں افغان طالبان کے خلاف ماحول بنتا جا رہا ہے

حکومت معاشی ہلچل مچانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ پی ٹی آئی ایک مقبول جماعت ہے جس کا کارکن مستقل حالت احتجاج میں کپتان کے خیالی جلسے میں ناچ رہا ہے۔ حکومت کچھ اچھا کرے برا کرے، کچھ نہ کرے بھلے جنگ کرنے ہی نکل کھڑی ہو پی ٹی آئی حکومت مخالفت میں ریاست مخالفت کی حد بھی پار کر جاتی ہے۔ حکومت لوگوں کو انگیج کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔

آبادی کی بڑی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جو قومی مزاج کے عین مطابق شوقن میلے دی والی طبعیت رکھتے ہیں۔ جوانی تفریح مانگتی ہے، اس تفریح پر خرچنے کو پیسہ چاہیے جو بہت نہ بھی ہو اتنا تو ہو تفریح ہو سکے۔ اس یوتھ کو تفریح اور کسی حد تک پیسہ انٹرنیٹ فراہم کرتا ہے۔ نیٹ کی اسپیڈ اور پابندیاں یوتھ کو مزید بیزار کرتی ہیں۔ ویسے مسلم لیگ نون یوتھ کی باقاعدہ ڈسی ہوئی بھی ہے۔

طلبا میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کر کے، بعد میں انہیں مفت ڈیٹا ڈیوائس فراہم کرنا نون لیگ کا ہی آئڈیا تھا۔ تب حوالدار بشیر کا کپتان سے سچا پیار چل رہا تھا۔ یوتھ نے یہی لیپ ٹاپ اور ڈیٹا استعمال کر کے پٹواریوں کی سوشل میڈیا پر اتنی دھلائی کی کہ سارے اتنے گورے ہو گئے کہ فئر اینڈ لولی بھی نہ کرتی۔ اس یوتھ کو انگیج کرنا، تفریح اور روزگار فراہم کر کے حکومت ان کو اپنے مستقل تعاقب سے باز رکھ سکتی ہے۔

سیاسی کارکن وہ دوسری مخلوق ہیں جو اس وقت ویلے پھر رہے ہیں۔ سیاست جب اک تفریح بن کر رہ چکی ہے۔ لوگ اپنے اپنے پہلوان کی مخالف کو جگتوں سے مزہ کشید کرتے ہیں۔ کاروبار حکومت افسران کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ حکومت کے حامی سیاسی کارکن کھسما نوں کھاؤ خود بھگتو کہہ کر سائڈ پر بیٹھے ہیں۔ مخالف سیاسی کارکن نہایت فارغ ہیں اور مستقل مزاجی سے حکومت کے لتے لے رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام اگر موثر اور مستحکم ہوتا تو اپوزیشن اور حکومت دونوں سائیڈ کا ورکر مصروف ہوتا۔

مزید پڑھیے: این اے 18 ہری پور سے ہار پی ٹی آئی کو لے کر بیٹھ سکتی ہے

مقامی حکومتوں کے پاس جتنا زیادہ اختیار ہوگا۔ مقامی لوگ اتنا ہی زیادہ اپنی مقامی حکومتوں کا گلا پکڑیں گے اور اپنے روزمرہ کام ان سے کرائیں گے۔ وفاقی صوبائی حکومتوں کو کوئی سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ ایک شہری کو جتنے انتظامی مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ سارے مقامی سطح پر حل ہو جائیں تو کوئی کیوں لمبے سفری اخراجات کر کے اور وقت برباد کر کے وفاقی صوبائی دارلحکومت پہنچے گا۔

ہمارے سیٹھ یعنی کاروباری طبقہ اک بڑا مسئلہ ہیں۔ یہ مایوسی کا پورا ایٹم بم بنے پھر رہے ہیں۔ کروبار کرنے کو آسان بنانے کی طرف حکومت کا کوئی دھیان خیال نہیں ہے۔ ٹیکس کا نظام پیچیدہ ہے، اب ادائیگیوں کا سسٹم بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ قوانین اور کاروباری رولز نہ تو آسان ہیں نہ شفاف نہ لانگ ٹرم بنیاد پر ترتیب دیے گئے ہیں۔ ریگولیٹری اتھارٹی سیٹھ کے لیے ولن ہیں۔ کمانے والے بندے کا تاثر روزگار فراہم کرنے کی بجائے منہ کالا کرپٹوں والا ہے۔

اگر کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ اسے خرچ کرتے گھبراتا ہے۔ اپنے اسٹیٹس سے کم پر رہتا ہے، سیکیورٹی کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار رہتا ہے۔ سرکاری اہلکار مستقل سیٹھ کی جیب کا تعاقب کرتے ہیں اور وہ مستحقین زکواۃ و صدقات والا حلیہ بنائے آگے بھاگ رہا ہوتا۔

مقامی حکومتوں کو اگر ایکٹیو کر لیا جائے۔ ان حکومتوں میں سیٹھ لوگ کو نگرانی کا کوئی کردار دے دیا جائے۔ شہری انفراسٹرکچر کو ان کی ضرورت مطابق ترتیب دینے میں ان کی سن لی جائے۔ ان سے یہ کہا جائے کہ آپ اس سال دفاتر میں کمیشن دے کر کام نہ کرائیں وہ پیسے فنڈ کی صورت انفراسٹرکچر پر لگائیں اور کوالٹی کی نگرانی بھی کریں تو مقامی سطح پر لوگوں کی باقاعدہ شمولیت ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں: پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟

معاشی ہلہ گلہ شروع ہوتا دکھانے کے لیے بسنت اور اس جیسے دوسرے ثقافتی میلے پاکستان بھر میں کرائیں۔ سب پر چھائی آلکسی اور سستی دور ہو گی۔ اس تحریر میں بہت سے طبقات کا ذکر رہ گیا ہے۔ وہ سب جو لاتعلق ہیں اور یہی وہ سب ہیں جو اگر سرگرم ہوں تو میلہ لگے گا۔ یہ میلہ لگانا کیسے ہے یہ بتانا سوچنا اس کو عملی شکل میں لانا ماہرین کا کام ہے۔ اپنا کام بس دھیان ڈلوانا تھا کہ سب اک تھک گئے ہیں، آپ کے آئیڈیاز کدھر برف میں لگے پڑے ہیں سرکار، یوتھ کو، سیاسی کارکن کو اور اپنے سیٹھ کو ساتھ لیں اور میلے لگائیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ آئی ایم ایف آئی ایم ایف قرضہ عالمی مالیاتی ادارہ

متعلقہ مضامین

  • سیٹھ ، سیاسی کارکن اور یوتھ کو ساتھ لیں اور میلہ لگائیں
  •  خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی تھی، مصدق ملک کا دعویٰ
  • الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے بذریعہ خورشید شاہ و ندیم چن پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی آفر کی تھی: مصدق ملک
  • پیپلز پارٹی نے خورشید شاہ اور ندیم افضل چن کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی، مصدق ملک
  • پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی میں پھوٹ! اعلامیے پر ارکان کے سنگین اعتراضات
  • آج کوئی ورکر بانی کی بہنوں، وکلاء کے ساتھ اڈیالہ نہیں جائے گا: اپوزیشن
  • سندھ حکومت نے تمام کاموں کی ای ٹینڈرنگ کا فیصلہ کیا ہے، شرجیل میمن
  • شازیہ مری کا پی ٹی آئی کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ
  • حادثات و گٹروں کے سانحات پر سیاست
  • پیپلز پارٹی کی 17 سال کی کرپشن نے شہر کو تباہ حال کر دیا: منعم ظفر