نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی میں بڑے لیول پر سرجری کی تیاری
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملک کی مرکزی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں مبینہ طور پر سائبر کرائم مافیا کے سرگرم ہونے کی اطلاعات کے بعد حکومت نے ادارے میں اعلیٰ سطح پر وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کی تیاری شروع کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اقدام کا مقصد ادارے کے اندر موجود کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی جامع جانچ کرنا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، جن کے تحت سینئر پولیس افسر سید خرم علی کو ایک اہم عہدہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ایجنسی کے متعدد افسران کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کی جا رہی ہے، جن پر کرپشن، بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔ بعض افسران کو نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش بھی زیر غور ہے۔
تحقیقات کا دائرہ کار بھرتیوں کے طریقۂ کار، اسامیوں کی غیر قانونی اپ گریڈیشن، اور جعلی ریکارڈ کی بنیاد پر دی گئی ترقیوں تک پھیلایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان افسران کے خلاف سابقہ انکوائریاں اور فوجداری مقدمات بھی دوبارہ کھولے جا رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں ان کے غیر ملکی دوروں، بیرونِ ملک رقوم کی منتقلی، منی لانڈرنگ اور ڈیجیٹل مالی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ خاص طور پر ان افسران کے ممکنہ کرپٹو کرنسی اکاؤنٹس، بٹ کوائنز یا دیگر ڈیجیٹل اثاثوں کی جانچ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ حساس تحقیقات صرف ان اہل افسران کے سپرد کی جائیں جو دیانتداری، غیر جانبداری اور دباؤ سے آزاد رہنے کے حوالے سے معروف ہیں۔ ایک سینئر افسر کے مطابق، اس بار انکوائری ٹیم میں ایسے افسران شامل کیے جا رہے ہیں جن تک بیرونی اثر و رسوخ کی رسائی ممکن نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افسران کے
پڑھیں:
ٹک ٹاکر کیس کی تحقیقات کرنے والے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی لاپتا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251025-08-12
اسلام آباد (نمائندہ جسارت) نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے 10 روز سے لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان تاحال بازیاب نہ ہو سکے۔ رپورٹ کے مطابق این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کا پتا لگانے میں ناکام ہے، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو مغوی کی بازیابی کے لیے مزید ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔ دورانِ سماعت عدالت نے پولیس کو مغوی کا واٹس ایپ ریکارڈ کا ڈیٹا بھی چیک کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس اعظم خان نے ہدایت کی کہ ایک
ہفتے کا وقت دے رہے ہیں پولیس مغوی کو بازیاب کرائے۔ کیس کی سماعت اگلے جمعے 31 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔ اصل مقصد معاملہ حل کرنا ہے صرف تاریخیں دینا نہیں ہوتا۔دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی اہلیہ روزینہ کا بھی پتا نہیں چل سکا ہے۔ وکیل رضوان عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کے بعد درخواست گزار روزینہ بھی لاپتا ہیں۔دوران سماعت جسٹس اعظم خان نے استفسار کیا کہ کیا پیش رفت ہے ، آپ کو 3 روز کا وقت دیا تھا ، جس پر ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر کا سراغ لگانے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔