پروازیں بحال، مگر پی آئی اے کے دشمن محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251029-03-3
عبید مغل
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
بالآخر وہ لمحہ آ ہی گیا جس کا انتظار ہزاروں برطانوی پاکستانیوں نے برسوں تک کیا۔ پانچ سال بعد جب پی آئی اے کی مانچسٹر کے لیے پرواز اٹھی تو جذبات اور خوشی کے ساتھ ایک تلخ احساس بھی دل میں جاگا، وہ احساس جو یاد دلاتا ہے کہ ایک وزیر کے چند غیر ذمے دارانہ جملوں نے پوری قوم کے وقار کو خاک میں ملا دیا تھا۔ یہ کہانی محض پروازوں کی معطلی کی نہیں، بلکہ ریاستی ناپختگی، سیاسی نادانی، اور بین الاقوامی گٹھ جوڑ کی ایک افسوسناک داستان ہے۔ یہ آغاز ہوا 24 مئی 2020 کو، جب پی آئی اے کی فلائٹ PK-8303 کراچی میں گر کر تباہ ہوئی۔ قوم ابھی سوگ میں تھی کہ 25 جون کو اْس وقت کے وفاقی وزیر ِ ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اعلان کیا: ’’ہمارے ملک کے تقریباً 262 پائلٹوں کے لائسنس جعلی یا مشکوک ہیں‘‘۔ یہ جملہ پاکستان کے لیے کسی بم سے کم نہ تھا۔ بولنے والا وفاقی وزیر تھا، لہٰذا دنیا بھر کے ہوابازی اداروں نے اسے حکومت ِ پاکستان کی باضابطہ تصدیق سمجھا۔ چند گھنٹوں میں پاکستان کا ہوا بازی نظام مشکوک ٹھیر گیا۔
یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگا دی، برطانیہ اور امریکا نے پاکستانی پائلٹس کے لائسنس مسترد کر دیے، اور خلیجی ممالک نے ازسرِنو جانچ شروع کر دی۔ چند منٹ کے غیر محتاط الفاظ نے اْس ادارے کو زمین پر گرا دیا جو کبھی ایشیا کی فخر ِ ائرلائن کہلاتی تھی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ چند درجن لائسنسوں میں انتظامی نوعیت کی بے ضابطگیاں تھیں، مگر نقصان قومی وقار کو ہوا۔ پی آئی اے اربوں کے خسارے میں چلی گئی، اور قوم کا اعتماد بین الاقوامی سطح پر مجروح ہوا۔ دنیا کے باشعور ممالک اپنے اداروں کے قصور چھپاتے نہیں، مگر عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہیں۔ امریکا میں بوئنگ 737 میکس کے حادثات میں سیکڑوں جانیں گئیں، مگر حکومت نے خاموشی سے اصلاحات کیں، کسی وزیر نے ایوان میں قوم کی عزت نیلام نہیں کی۔ بھارت میں ’’ائر انڈیا‘‘ اور ’’انڈی گو‘‘ کے درجنوں حادثات ہوئے، مگر وہاں کے وزراء نے ذمے داری سے بات کی؟ ملائشیا کے MH370 سانحے کے بعد بھی ریاست نے وقار بچایا۔ مگر پاکستان میں؟
یہاں پی ٹی آئی کے وزیر نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اپنے ہی ہوابازوں کو مجرم ٹھیرا دیا۔ یہ محض نااہلی نہیں، قومی خودکشی تھی۔ چار سال بعد، نومبر 2024 میں یورپ نے بالآخر پابندی ختم کی۔ اور 25 اکتوبر 2025 کو پہلی براہِ راست پرواز مانچسٹر پہنچی مگر سوال وہیں کا وہیں رہا: کیا غلام سرور خان سے بازپرس ہوئی؟ کیا کسی نے پوچھا کہ ایک بیان نے ملک کو اربوں کا نقصان کیوں پہنچایا؟ جواب ہے: نہیں۔ نہ احتساب ہوا، نہ شرمندگی۔ کیوں کہ اْنہیں روزِ اوّل سے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری میسر ہے، وہی چھتری جس کے سائے تلے ہر قومی مجرم کو تحفظ حاصل رہا ہے۔ غلام سرور خان، جن کے غیر ذمے دارانہ بیان نے پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (PIA) کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا، ان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔
ایک کسان سے کونسلر اور کونسلر سے وزیر بننے تک کا سفر طے کرنے والے غلام سرور خان نے بی اے تو کیا، مگر نہ وہ کبھی اسٹوڈنٹس پولیٹکس کا حصہ رہے، نہ کسی فکری یا سیاسی تربیت سے گزرے۔ پھر قسمت کا دروازہ اسٹیبلشمنٹ کی نرسری سے کھلا۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑی اور سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کے ذریعے پنجاب اسمبلی میں داخل ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ِ اقتدار میں وہ اسمبلی کی زینت بنے رہے، اور ضیاء کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی میں جا پہنچے۔ مگر وہاں بھی قرار نہ آیا۔ سو بدلتے موسموں کے ساتھ وفاداریاں بدلتے رہے، ق لیگ کی چھاؤں میں اقتدار کے مزے لوٹے، پھر پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے ملک و قوم کے حصے میں پی آئی اے کی بربادی لکھی، اور جب تحریک ِ انصاف کا ستارہ غروب ہوا تو موصوف بڑی صفائی سے جہانگیر ترین کی اسٹیبلشمنٹ نواز نئی چھتری کے نیچے جا بیٹھے۔ درحقیقت یہ صرف ایک شخص کی نادانی نہیں، بلکہ اْس قومی پالیسی کا شاخسانہ ہے جس نے طلبہ سیاست، ٹریڈ یونین اور فکری تربیت کا گلا گھونٹ دیا۔ ایک وقت تھا جب جامعات قیادت کی نرسریاں تھیں، جہاں سے مکالمہ، برداشت اور سیاسی شعور رکھنے والے رہنما پیدا ہوتے تھے۔ مگر جب یہ نرسریاں بند کی گئیں تو قیادت کے بیج اسٹیبلشمنٹ کے لان میں بو دیے گئے۔ اب قیادت کی نرسری راولپنڈی کے گیٹ نمبر 4 پر ہے، جہاں سے وفادار مگر ناتجربہ کار سیاستدان برآمد ہوتے ہیں، جو اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں، اپنی وفاداری عوام سے نہیں بلکہ طاقت کے مراکز سے جوڑتے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جس کے باعث آج سرحدوں پر ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں اور شہروں میں عوام دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ چونکہ فیصلے کرنے والے عوامی راہنما نہیں، بلکہ وہ سیاسی جوکر ہیں جن کی وفاداریاں عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے گیٹ نمبر چار سے بندھی ہیں۔
سوال صرف حکومتوں یا پارٹیوں پر نہیں، بلکہ عوامی شعور پر بھی ہے۔ برطانیہ میں پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی پی ٹی آئی کی حامی ہے، مگر افسوس کہ اپنی حکومت کی نااہلی، پانچ سالہ تکالیف اور اربوں کے نقصان کے باوجود وہ آج بھی اپنی کلٹ قیادت پر سوال اٹھانے سے قاصر ہیں۔ یہی اندھی عقیدت قوموں کو تباہ کرتی ہے، جہاں سوال جرم اور شعور بغاوت بن جاتا ہے۔ آج جب پی آئی اے کی پروازیں ایک بار پھر مانچسٹر کی فضاؤں میں محو ِ پرواز ہیں، تو ہمیں خوشی کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پانچ سالہ پابندی صرف ایک حادثہ نہیں تھی، یہ ہمارے نظام، سیاست اور اجتماعی شعور کی ناکامی کا نوحہ ہے۔ جب تک پاکستان میں طلبہ سیاست کے دروازے نہیں کھلیں گے، غلام سرور خان جیسے ناتجربہ کار سیاستدان اسمبلیوں میں آتے رہیں گے، اور پاکستان کو وقار، معیشت اور عزت، تینوں محاذوں پر نقصان ہوتا رہے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: غلام سرور خان پی ا ئی اے کی
پڑھیں:
مودی سرکار کھیل میں کھلواڑسے باز نہیں آئی ، بھارت غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے غیر محفوظ نکلا
اندورمیں آسٹریلین ویمن کرکٹرز کیساتھ موٹر سائیکل سوار کی چھیڑ چھاڑ، ملزم گرفتار
واقعہ 23 اکتوبر کو پیش آیا جب کرکٹرز کیفے ٹیریا جانے کے لیے ہوٹل سے نکلی تھیں
کرکٹ میں دوسرے ممالک پر غیر محفوظ ہونے کا بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے والا بھارت خود غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے غیر محفوظ نکلا۔بھارت میں آئی سی سی ویمنز ورلڈکپ کے لیے موجود آسٹریلین کرکٹرز کے ساتھ جنسی ہراسانی کا شرمناک واقعہ پیش آیا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی شہر اندور میں آسٹریلیا کی دو ویمن کرکٹرز ہوٹل سے کیفے ٹیریا جانے کے لیے نکلی تھیں، اس دوران موٹر سائیکل سوار شخص نے ایک آسٹریلوی کرکٹرز کو انتہائی نازیبا طریقے سے چھوا اور فرار ہو گیا۔رپورٹس کے مطابق مذکورہ واقعہ 23 اکتوبر کو پیش آیا۔ایڈیشنل ڈی سی پی کرائم برانچ راجیش ڈنڈوتیا نے میڈیا کو واقعے سے متعلق تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آسٹریلوی ویمن کرکٹ ٹیم کے سیکیورٹی افسر نے واقعے کی شکایت درج کروائی تھی۔راجیش ڈنڈوتیا نے مزید کہا کہ مبینہ ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ملزم کا نام عقیل اور آزاد نگر کا رہائشی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کی بھاری نفری سیکیورٹی پر مامور تھی، کمی کہاں رہ گئی اس کا جائزہ لیا رہا ہے۔