Jasarat News:
2025-12-14@11:58:27 GMT

استنبول مذاکرات: جنوبی ایشیا کا نیا بحران

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بحیرۂ مرمرہ کے کنارے، ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں، جہاں کبھی خلافت ِ عثمانیہ کے فیصلے امت ِ مسلمہ کی تقدیر بدل دیتے تھے، آج ایک نیا فیصلہ لکھا جا رہا ہے۔ مگر اس بار قلم سپہ سالاروں کے نہیں بلکہ سفارت کاروں کے ہاتھ میں ہے۔یہ مذاکرات بظاہر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہیں، مگر حقیقت میں ان کے اثرات جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن تک پھیل چکے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا یہ خطہ کسی نئے امن کی طرف بڑھ رہا ہے یا ایک اور عسکری تصادم کی طرف۔گزشتہ ہفتوں میں پاک – افغان سرحد پر شدید جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو دوحا میں عارضی جنگ بندی طے پائی، جس کے بعد ترکی کی ثالثی میں استنبول میں باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے۔ مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک ایک مستقل سیز فائر، بارڈر میکانزم، اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمت ِ عملی پر متفق ہو سکیں۔ لیکن 28 اکتوبر تک کوئی نمایاں پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ ان مذاکرات نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ افغانستان میں امن کی سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کی داخلی کمزوری اور اقتدار کی کشمکش ہے۔
طالبان حکومت اس وقت تین بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے 1۔ قندھار گروہ: جو امیر المؤمنین ہیبت اللہ اخوندزادہ کے زیر ِ اثر ہے اور سخت مذہبی احکامات، عسکری کنٹرول اور شرعی اجارہ داری پر یقین رکھتا ہے۔2۔ کابل دھڑا: جو نسبتاً شہری، سیاسی اور دنیا سے جڑا ہوا طبقہ ہے، جس کی توجہ معاشی بحران اور بین الاقوامی تعلقات پر مرکوز ہے۔3۔ خوست گروہ: جو سرحدی قبائل، پاکستان سے روابط، اور مقامی سیاست میں اثر رسوخ رکھنے والے عناصر پر مشتمل ہے۔
استنبول مذاکرات کے دوران یہ تقسیم پوری شدت سے نمایاں ہوئی۔ ایک ہی افغان وفد تین مختلف سمتوں میں بٹا ہوا نظر آیا۔ پاکستان نے جب ٹی ٹی پی کے خلاف عملی کارروائی اور سرحد پار حملوں کی روک تھام کے لیے تحریری یقین دہانی مانگی تو قندھار گروہ نے خاموشی سے اس کی تائید کی، مگر کابل دھڑے نے اچانک شرط عائد کر دی کہ امریکا کو ضامن کے طور پر شامل کیا جائے، بصورتِ دیگر کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔ یہ شرط نہ صرف پاکستان بلکہ ترکی اور قطر کے ثالثوں کے لیے بھی حیران کن تھی۔ دراصل اس کے پیچھے سیکورٹی نہیں بلکہ مالی و سیاسی مفاد کارفرما تھا۔ کابل دھڑا سمجھتا ہے کہ اگر امریکا دوبارہ مذاکراتی عمل میں شامل ہو جائے تو بین الاقوامی امداد کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ 2021 کے انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق نصف سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، اور مجموعی پیداوار میں بیس فی صد کمی آئی ہے۔ استنبول مذاکرات کے دوران افغان وفد کا رویہ اسی داخلی انتشار کا آئینہ دار تھا۔ اجلاس بار بار ملتوی ہوتے رہے، وفد کے ارکان کابل سے ہدایات لیتے، واپس آ کر پہلے سے طے شدہ نکات پر اعتراضات اٹھا دیتے۔ ترک اور قطری ثالثوں نے بھی اعتراف کیا کہ اصل مسئلہ پاکستان کے مطالبات نہیں بلکہ طالبان کے باہمی اختلافات ہیں۔
یہ روش نئی نہیں۔ دوحا میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی طالبان نے وقت حاصل کرنے اور مخالف کو تھکانے کی یہی حکمت ِ عملی اپنائی تھی۔ اْس وقت وہ کامیاب ہو گئے کیونکہ امریکا انخلا کے لیے بے تاب تھا۔ مگر پاکستان کے ساتھ اب یہ چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے سرحدی باڑ مکمل کی، انٹیلی جنس تعاون بڑھایا، اور عسکری آپریشنز دوبارہ منظم کیے۔ چین اور روس بھی اس موقف پر متفق ہیں کہ طالبان اگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی جاری رکھتے ہیں تو افغانستان سرمایہ کاری کے قابل نہیں رہے گا۔ طالبان کے اندر یہ غلط فہمی شدت اختیار کر چکی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پاکستان کے خلاف ایک تزویراتی ہتھیار کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ بلکہ خود طالبان کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ حالیہ مہمند، باجوڑ اور خیبر میں ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان کی خاموش حمایت نے دہشت گردی کو نئی زندگی دی ہے۔ پاکستان کا مؤقف دوٹوک ہے، افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اگر طالبان واقعی ریاستی ذمے داریوں کو سمجھتے ہیں تو انہیں اپنی سرزمین سے دہشت گرد نیٹ ورکس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
استنبول مذاکرات میں ترکی نے بطور ثالث ایک دلچسپ تجویز پیش کی جسے غیر رسمی طور پر ’’سیریا ماڈل‘‘ کہا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ، بارڈر سیکورٹی کوآرڈی نیشن، اور مشترکہ انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کا نظام قائم کیا جائے۔ جس میں ترکی اور قطر بطور مبصر شامل ہوں تاکہ غلط فہمیوں کا بروقت ازالہ ہو سکے۔ یہ تجویز اعتماد سازی کی ایک نئی راہ کھول سکتی تھی، مگر طالبان نے اسے اپنی خودمختاری کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس ردعمل نے ثالثی کے عمل کو کمزور کر دیا، اور مذاکرات کے امکانات مزید دھندلا گئے۔ دوسری طرف، عسکری ماہرین کے مطابق طالبان دراصل بھارت کو ایک اسٹرٹیجک واک اوور دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بھارت آنے والے دنوں میں پاکستان پر دو محاذی دباؤ بڑھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک جانب بحیرۂ عرب اور سرکریک میں ممکنہ کارروائیاں، اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر جارحیت۔ ایسے حالات میں طالبان دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ کسی مستقل معاہدے سے پہلوتہی کر رہے ہیں تاکہ پاکستان مغربی سرحد پر مطمئن نہ رہے۔ یہ صورتحال اسلام آباد کے لیے ایک سنگین تزویراتی چیلنج ہے۔ بیک وقت مغربی، مشرقی اور بحری تین محاذوں پر دباؤ کسی بھی ملک کے لیے خطرناک امتحان ہوتا ہے۔ اگر طالبان اپنی موجودہ روش پر قائم رہے تو بھارت اس صورتحال کا سیاسی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ خاص طور پر نریندر مودی، جو ’’پاکستان کو نیچا دکھانے‘‘ کے بیانیے سے اپنی گرتی مقبولیت کو سہارا دینا چاہتا ہے۔ طالبان کی اندرونی تقسیم دراصل ایک گہرا فکری بحران ہے۔ قندھار کی مذہبی شدت، کابل کی سیاسی موقع پرستی، اور خوست کی قبائلی خودمختاری مل کر ایک ایسی حکومت تشکیل دیتے ہیں جو نہ متحد ہے نہ مستحکم۔ امیر المؤمنین کی خاموشی، ملا برادر اور سراج الدین حقانی کے الگ بیانیے، اور وزارتِ خارجہ کے متضاد مؤقف۔ سب مل کر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طالبان حکومت فکری طور پر ایک واضح سمت سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے لیے ہر مذاکراتی میز انتشار کا مظہر بن جاتی ہے۔ وہ ایک طرف اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف عالمی امداد کے حصول کے لیے مغرب کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ یہ دوغلا رویہ انہیں نہ صرف دنیا سے دور کر رہا ہے بلکہ اپنے عوام کے اعتماد سے بھی محروم کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اب دو ہی راستے باقی ہیں یا تو خاموش تماشائی بن کر دہشت گردی کے پھیلاؤ کا انتظار کرے، یا ایک فعال اور مربوط علاقائی حکمت ِ عملی اختیار کرے۔
اسلام آباد کو چین، سعودی عرب، قطر اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر طالبان پر دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں۔ یہی عملی راستہ ہے، کیونکہ افغانستان میں امن کے بغیر نہ سی پیک ممکن ہے، نہ وسط ایشیائی توانائی منصوبے، اور نہ جنوبی ایشیا میں کسی پائیدار معاشی نظام کی بنیاد۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں بلکہ طالبان کی سیاسی ناپختگی کا شاخسانہ ہے۔ اگر طالبان نے اپنی اندرونی اختلافات کو ختم نہ کیا اور دہشت گرد گروہوں کو اقتدار کے تحفظ کا ذریعہ بنائے رکھا، تو افغانستان ایک بار پھر عالمی تنہائی اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو گا۔ ترکی کی ثالثی اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے۔ امن کی باتیں جاری ہیں مگر فضا میں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ طالبان اگر واقعی اسلامی دنیا کے ایک ذمے دار حکمران بننا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی سرپرستی اسلام نہیں سیاسی خودکشی ہے۔

میر بابر مشتاق سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: استنبول مذاکرات دہشت گرد گروہوں مذاکرات کے کہ طالبان طالبان کے نہیں بلکہ طالبان کی کے مطابق کے خلاف کے ساتھ رہا ہے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات میں نرمی؟ افغان علما کا بیان ’حوصلہ افزا مگر ناکافی‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سفارتی کشیدگی کے بعد کابل میں افغان علما و مشائخ کے بڑے اجتماع سے جاری ہونے والا بیان دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک مثبت اشارہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت ابھی زبانی یقین دہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

وی نیوز ایکسکلوسیومیں گفتگو کرتے ہوئے انڈیپنڈنٹ اردو کے منیجنگ ایڈیٹر اور سینیئر صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 سے 3 ماہ میں تعلقات میں جو تناؤ بڑھا تھا، اس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی مثبت بات سامنے آئی ہے۔

افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی

ہارون رشید کا کہنا تھا کہ کابل میں ایک ہزار سے زائد افغان علما کے اجلاس میں یہ مؤقف سامنے آیا کہ افغانستان کی سرزمین نہ پاکستان اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے دی جائے گی، اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے بھی اپنے خطاب میں اسی مؤقف کو دہرایا-

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم ساتھ ہی تحریری ضمانت کا مطالبہ بھی دہرایا ہے۔

’زبانی یقین دہانیاں طالبان کئی سال سے دے رہے ہیں، لیکن ریاستوں کے تعلقات میں اصل اہمیت تحریری معاہدوں کی ہوتی ہے۔‘

تحریری ضمانت طالبان کے لیے مشکل

تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان کے لیے تحریری یقین دہانی دینا اس لیے مشکل ہے کہ اس سے ان کی اپنی صفوں میں تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔

ہارون رشید کا کہنا تھا کہ اگر طالبان تحریری طور پر ضمانت دیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے، تو ان کی اپنی صفوں سے اس پر شدید ردِعمل آسکتا ہے۔

ان کے مطابق طالبان کا کچھ حصہ نظریاتی طور پر پاکستانی طالبان کے قریب سمجھا جاتا ہے، اور ایسی کارروائیاں اندرونی اختلافات کو ہوا دے سکتی ہیں۔

افغان علما کا اجلاس اہم، مگر فیصلہ کن نہیں

افغانستان میں مذہبی طبقے کا اثر پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اور اس سطح کے اجلاس کو اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ یہ اجلاس دراصل اندرونی مشاورت تھا، جس کی قراردادیں منظرِ عام پر نہیں آنا تھیں لیکن خبر لیک ہونے کے بعد اسے سیاسی رنگ مل گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ علما کی حمایت طالبان حکومت کے لیے دباؤ ضرور پیدا کرتی ہے، مگر حتمی فیصلے طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ہی کرنا ہوتے ہیں۔

ماضی میں بھی یقین دہانیاں، مگر عملدرآمد ندارد

ہارون رشید کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان ماضی میں بھی کئی بار ایسی یقین دہانیاں دی گئیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث اعتماد کا فقدان بڑھتا چلا گیا۔

انہوں نے سابق پاکستانی سفارتکار آصف درانی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2 افغان وزرا نے انہیں آن ریکارڈ کہا تھا کہ طالبان سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

سرحدی کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں

ہارون رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت معاشی دباؤ کا شکار ہیں، اور سرحدی کشیدگی سے نہ صرف تجارت بلکہ خطے کی مجموعی استحکام متاثر ہو رہا ہے۔

’اسٹیٹس کو زیادہ دیر چل نہیں سکتا، تجارت، روزگار اور علاقائی رابطے پر اس کے اثرات ہیں، اس لیے فریقین پر دباؤ تھا کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان ٹی ٹی پی طالبان علما و مشائخ ہارون رشید

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کا افغان طالبان رجیم کو دو ٹوک انتباہ
  • افغانستان اور دہشت گردی
  • نواز شریف جدید پاکستان کے معمار ہیں، جنوبی ایشیا میں پہلی موٹروے انہی نے بنوائی: وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ
  • اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کا افغان طالبان رجیم کو دوٹوک انتباہ
  • پاک افغان تعلقات میں نرمی؟ افغان علما کا بیان ’حوصلہ افزا مگر ناکافی‘
  • طالبان اور افغان اولمپک کمیٹی مذاکرات؛ خواتین کھلاڑیوں کیلیے ممکنہ پیش رفت کی امید
  • پاکستان اور افغانستان سفارت کاری سے مسائل حل کریں‘روسی سفیر
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • عمران خان نے مذاکرات کا اختیار محمود اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس کو دیا ہے، سہیل آفریدی
  • پاکستان کا افغان طالبان سے تحریری ضمانتوں کا مطالبہ—بھارت کی ریاستی دہشت گردی بے نقاب، دفترِ خارجہ کا دوٹوک اعلان!