استنبول مذاکرات: جنوبی ایشیا کا نیا بحران
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بحیرۂ مرمرہ کے کنارے، ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں، جہاں کبھی خلافت ِ عثمانیہ کے فیصلے امت ِ مسلمہ کی تقدیر بدل دیتے تھے، آج ایک نیا فیصلہ لکھا جا رہا ہے۔ مگر اس بار قلم سپہ سالاروں کے نہیں بلکہ سفارت کاروں کے ہاتھ میں ہے۔یہ مذاکرات بظاہر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہیں، مگر حقیقت میں ان کے اثرات جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن تک پھیل چکے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا یہ خطہ کسی نئے امن کی طرف بڑھ رہا ہے یا ایک اور عسکری تصادم کی طرف۔گزشتہ ہفتوں میں پاک – افغان سرحد پر شدید جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو دوحا میں عارضی جنگ بندی طے پائی، جس کے بعد ترکی کی ثالثی میں استنبول میں باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے۔ مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک ایک مستقل سیز فائر، بارڈر میکانزم، اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمت ِ عملی پر متفق ہو سکیں۔ لیکن 28 اکتوبر تک کوئی نمایاں پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ ان مذاکرات نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ افغانستان میں امن کی سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کی داخلی کمزوری اور اقتدار کی کشمکش ہے۔
طالبان حکومت اس وقت تین بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے 1۔ قندھار گروہ: جو امیر المؤمنین ہیبت اللہ اخوندزادہ کے زیر ِ اثر ہے اور سخت مذہبی احکامات، عسکری کنٹرول اور شرعی اجارہ داری پر یقین رکھتا ہے۔2۔ کابل دھڑا: جو نسبتاً شہری، سیاسی اور دنیا سے جڑا ہوا طبقہ ہے، جس کی توجہ معاشی بحران اور بین الاقوامی تعلقات پر مرکوز ہے۔3۔ خوست گروہ: جو سرحدی قبائل، پاکستان سے روابط، اور مقامی سیاست میں اثر رسوخ رکھنے والے عناصر پر مشتمل ہے۔
استنبول مذاکرات کے دوران یہ تقسیم پوری شدت سے نمایاں ہوئی۔ ایک ہی افغان وفد تین مختلف سمتوں میں بٹا ہوا نظر آیا۔ پاکستان نے جب ٹی ٹی پی کے خلاف عملی کارروائی اور سرحد پار حملوں کی روک تھام کے لیے تحریری یقین دہانی مانگی تو قندھار گروہ نے خاموشی سے اس کی تائید کی، مگر کابل دھڑے نے اچانک شرط عائد کر دی کہ امریکا کو ضامن کے طور پر شامل کیا جائے، بصورتِ دیگر کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔ یہ شرط نہ صرف پاکستان بلکہ ترکی اور قطر کے ثالثوں کے لیے بھی حیران کن تھی۔ دراصل اس کے پیچھے سیکورٹی نہیں بلکہ مالی و سیاسی مفاد کارفرما تھا۔ کابل دھڑا سمجھتا ہے کہ اگر امریکا دوبارہ مذاکراتی عمل میں شامل ہو جائے تو بین الاقوامی امداد کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ 2021 کے انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق نصف سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، اور مجموعی پیداوار میں بیس فی صد کمی آئی ہے۔ استنبول مذاکرات کے دوران افغان وفد کا رویہ اسی داخلی انتشار کا آئینہ دار تھا۔ اجلاس بار بار ملتوی ہوتے رہے، وفد کے ارکان کابل سے ہدایات لیتے، واپس آ کر پہلے سے طے شدہ نکات پر اعتراضات اٹھا دیتے۔ ترک اور قطری ثالثوں نے بھی اعتراف کیا کہ اصل مسئلہ پاکستان کے مطالبات نہیں بلکہ طالبان کے باہمی اختلافات ہیں۔
یہ روش نئی نہیں۔ دوحا میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی طالبان نے وقت حاصل کرنے اور مخالف کو تھکانے کی یہی حکمت ِ عملی اپنائی تھی۔ اْس وقت وہ کامیاب ہو گئے کیونکہ امریکا انخلا کے لیے بے تاب تھا۔ مگر پاکستان کے ساتھ اب یہ چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے سرحدی باڑ مکمل کی، انٹیلی جنس تعاون بڑھایا، اور عسکری آپریشنز دوبارہ منظم کیے۔ چین اور روس بھی اس موقف پر متفق ہیں کہ طالبان اگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی جاری رکھتے ہیں تو افغانستان سرمایہ کاری کے قابل نہیں رہے گا۔ طالبان کے اندر یہ غلط فہمی شدت اختیار کر چکی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پاکستان کے خلاف ایک تزویراتی ہتھیار کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ بلکہ خود طالبان کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ حالیہ مہمند، باجوڑ اور خیبر میں ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان کی خاموش حمایت نے دہشت گردی کو نئی زندگی دی ہے۔ پاکستان کا مؤقف دوٹوک ہے، افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اگر طالبان واقعی ریاستی ذمے داریوں کو سمجھتے ہیں تو انہیں اپنی سرزمین سے دہشت گرد نیٹ ورکس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
استنبول مذاکرات میں ترکی نے بطور ثالث ایک دلچسپ تجویز پیش کی جسے غیر رسمی طور پر ’’سیریا ماڈل‘‘ کہا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ، بارڈر سیکورٹی کوآرڈی نیشن، اور مشترکہ انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کا نظام قائم کیا جائے۔ جس میں ترکی اور قطر بطور مبصر شامل ہوں تاکہ غلط فہمیوں کا بروقت ازالہ ہو سکے۔ یہ تجویز اعتماد سازی کی ایک نئی راہ کھول سکتی تھی، مگر طالبان نے اسے اپنی خودمختاری کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس ردعمل نے ثالثی کے عمل کو کمزور کر دیا، اور مذاکرات کے امکانات مزید دھندلا گئے۔ دوسری طرف، عسکری ماہرین کے مطابق طالبان دراصل بھارت کو ایک اسٹرٹیجک واک اوور دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بھارت آنے والے دنوں میں پاکستان پر دو محاذی دباؤ بڑھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک جانب بحیرۂ عرب اور سرکریک میں ممکنہ کارروائیاں، اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر جارحیت۔ ایسے حالات میں طالبان دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ کسی مستقل معاہدے سے پہلوتہی کر رہے ہیں تاکہ پاکستان مغربی سرحد پر مطمئن نہ رہے۔ یہ صورتحال اسلام آباد کے لیے ایک سنگین تزویراتی چیلنج ہے۔ بیک وقت مغربی، مشرقی اور بحری تین محاذوں پر دباؤ کسی بھی ملک کے لیے خطرناک امتحان ہوتا ہے۔ اگر طالبان اپنی موجودہ روش پر قائم رہے تو بھارت اس صورتحال کا سیاسی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ خاص طور پر نریندر مودی، جو ’’پاکستان کو نیچا دکھانے‘‘ کے بیانیے سے اپنی گرتی مقبولیت کو سہارا دینا چاہتا ہے۔ طالبان کی اندرونی تقسیم دراصل ایک گہرا فکری بحران ہے۔ قندھار کی مذہبی شدت، کابل کی سیاسی موقع پرستی، اور خوست کی قبائلی خودمختاری مل کر ایک ایسی حکومت تشکیل دیتے ہیں جو نہ متحد ہے نہ مستحکم۔ امیر المؤمنین کی خاموشی، ملا برادر اور سراج الدین حقانی کے الگ بیانیے، اور وزارتِ خارجہ کے متضاد مؤقف۔ سب مل کر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طالبان حکومت فکری طور پر ایک واضح سمت سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے لیے ہر مذاکراتی میز انتشار کا مظہر بن جاتی ہے۔ وہ ایک طرف اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف عالمی امداد کے حصول کے لیے مغرب کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ یہ دوغلا رویہ انہیں نہ صرف دنیا سے دور کر رہا ہے بلکہ اپنے عوام کے اعتماد سے بھی محروم کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اب دو ہی راستے باقی ہیں یا تو خاموش تماشائی بن کر دہشت گردی کے پھیلاؤ کا انتظار کرے، یا ایک فعال اور مربوط علاقائی حکمت ِ عملی اختیار کرے۔
اسلام آباد کو چین، سعودی عرب، قطر اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر طالبان پر دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں۔ یہی عملی راستہ ہے، کیونکہ افغانستان میں امن کے بغیر نہ سی پیک ممکن ہے، نہ وسط ایشیائی توانائی منصوبے، اور نہ جنوبی ایشیا میں کسی پائیدار معاشی نظام کی بنیاد۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں بلکہ طالبان کی سیاسی ناپختگی کا شاخسانہ ہے۔ اگر طالبان نے اپنی اندرونی اختلافات کو ختم نہ کیا اور دہشت گرد گروہوں کو اقتدار کے تحفظ کا ذریعہ بنائے رکھا، تو افغانستان ایک بار پھر عالمی تنہائی اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو گا۔ ترکی کی ثالثی اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے۔ امن کی باتیں جاری ہیں مگر فضا میں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ طالبان اگر واقعی اسلامی دنیا کے ایک ذمے دار حکمران بننا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی سرپرستی اسلام نہیں سیاسی خودکشی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: استنبول مذاکرات دہشت گرد گروہوں مذاکرات کے کہ طالبان طالبان کے نہیں بلکہ طالبان کی کے مطابق کے خلاف کے ساتھ رہا ہے
پڑھیں:
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 28 October, 2025 سب نیوز
استنبول: (آئی پی ایس) پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ترکیہ کی میزبانی میں استنبول مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے۔
ذرائع کے مطابق استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں، مذاکرات کا یہ دور مصالحت کاروں کی درخواست پر دوبارہ شروع ہوا ہے، مذاکرات کے پہلے تین ادوار کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تین روز سے مذاکرات جاری تھے، تیسرے دن مذاکرات 18 گھنٹے تک جاری رہے، 18 گھنٹوں کے دوران افغان طالبان کے وفد نے متعدد بار پاکستان کے خوارج ٹی ٹی پی اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ اور یقینی کارروائی کے منطقی اور جائز مطالبے سے اتفاق کیا۔
ذرائع کے مطابق میزبانوں کی موجودگی میں بھی افغان وفد نے اس مرکزی مسئلہ کو تسلیم کیا، تاہم ہر مرتبہ کابل سے ملنے والی ہدایات کے باعث افغان طالبان کے وفد کا مؤقف بدل جاتا، مذاکرات کے دوران کابل سے ملنے والے غیر منطقی اور نا جائز مشورے ہی بات چیت کے بے نتیجہ رہنے کے ذمہ دار ہیں۔
ذرائع نے زور دیا کہ پاکستان اور میزبان انتہائی مدبرانہ اور سنجیدہ طریقے سے اب بھی ان پیچیدہ معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں، اب بھی ایک آخری کوشش جاری ہے کہ طالبان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کسی طرح اس معاملے کو منطق اور بات چیت سے حل کر لیا جائے اور مذاکرات ایک آخری دور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
قبل ازیں ذرائع نے بتایا تھا کہ مذاکرات میں پاکستان اپنے پیش کردہ منطقی مطالبات پر قائم رہا تاہم افغان طالبان کا وفد پاکستانی مطالبات کو پوری طرح تسلیم کرنےکو تیار نہیں، پاکستانی وفد کا مؤقف بدستور منطقی، مضبوط اور امن کے لیے ناگزیر ہے، میزبان ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے یہ مطالبات معقول اور جائز ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان طالبان کا وفد خود بھی سمجھتا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا درست ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان کے وفد کو کابل سے کنٹرول کیا جا رہا ہے، افغان طالبان کا وفد بار بار کابل انتظامیہ سے رابطہ کر کے انہی کے احکامات کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے تاہم کابل انتظامیہ سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آ رہا جس سے تعطل پیدا ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ کابل میں کچھ عناصر کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد نے بارہا یہ نکتہ واضح کیا ہےکہ ان مطالبات کو تسلیم کرنا سب کے مفاد میں ہے جبکہ میزبان ممالک نے بھی افغان وفد کو یہ بات سمجھائی ہے۔
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر پر اتفاق کیا گیا تھا، مذاکرات کا دوسرا دور چند روزقبل استنبول میں ہوا تھا جس میں پہلے دور میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغان حکام کو دہشت گردی کی روک تھام کا جامع پلان دیا تھا جبکہ اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ نے کہا تھا کہ افغان طالبان کے پاس دو ہی آپشن ہیں یا تو امن کے ساتھ رہیں یا پھر ہماری ان کے ساتھ کھلی جنگ ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعوامی حقوق کا تحفظ ترجیح،گرانفروشی کی کسی کو اجازت نہیں، شفقت محمود پاکستان کو سیلاب سے بھاری نقصان پہنچا، مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے: عالمی بینک پاکستان اور افغان طالبان کے استنبول میں تین روز سے جاری مذاکرات بے نتیجہ ختم رواں سال کا طاقتور ترین طوفان کیریبین جزائر پر اثر انداز ہونا شروع، اب تک 3 افراد ہلاک “ہیپی برتھ ڈے‘‘ مریم نواز نے زندگی کی 52 بہاریں دیکھ لیں استنبول مذاکرات تاحال بے نتیجہ ، افغان وفد کا پاکستان کے جائز مطالبات ماننے سے انکار شہبازشریف اور سعودی ولی عہد کی ملاقات، توانائی، تجارت اور نئے منصوبوں پر گفتگوCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم