data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب نے اپنی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ ملک کی مشرقی اور مغربی دو سرحدوں پر منڈلاتے خطرات اور داخلی صورت حال کے پیش نظر مسلح افواج کو سپورٹ کرنے کے لیے سرکاری اخراجات میں کمی ناگزیر ہے، ہمیں آمدنی اور اخراجات کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ وفاقی حکومت میں رائٹ سائزنگ کر کے 39 وزارتوں کو باہم صنم کیا جا رہا ہے جب کہ 24 سرکاری اداروں کو بیچنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، پی آئی اے کی نجکاری کا عمل رواں سال کے اختتام تک مکمل ہو جائے گا۔ ریکوڈک کا منصوبہ 2028ء میں باقاعدہ فعال ہو گا اور اس منصوبے سے ملک کی پہلی برآمد کا تخمینہ 2.
8 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ٹیکس اصلاحات میں تاجروں اور سرمایا کاروں کی مشاورت شامل ہو گی ہماری کوشش ہے کہ حکومت کا بینکوں سے قرضوں کا حصول کم کیا جائے۔ البتہ یہ بات تشویشناک ہے کہ نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں کی مقدار کم کیوں ہو رہی ہے۔ ہم گورنر اسٹیٹ ملک اور کمرشل بینکوں سے پبلک پرائیویٹ قرضوں کی سست رفتار فراہمی پر جواب طلب کریں گے۔ دی فیوچر سمٹ کے نویں ایڈیشن کی تقریب اور کراچی چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا معیشت میں نجی شعبے کا کردار بہت اہم ہے، ملک کو پرائیویٹ سیکٹر کو لیڈ کرنا ہے، پیداوار پر مبنی معاشی ترقی ہی پائیدار راستہ ہے، پاکستان کی معیشت درست سمت میں گامزن ہے، پاکستان تھرڈ لارجسٹ فری لانسرز کی فہرست میں شامل ہے، پاکستان کو برآمدات کا مرکز بنانا ہے، بلیو اکانومی میں بھر پور صلاحیت موجود ہے، ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، 9 لاکھ نئے فائلرز شامل ہوئے ہیں، کارپوریٹ منافع 9 فی صد بڑھا ہے، گوگل پاکستان کو ایکسپورٹ ہب بنانے کا منصوبہ بنانا چاہتا ہے، آئی ٹی اور میری ٹائم سیکٹر پر فوکس ہو گا، غیر ملکی کمپنیوں نے پاکستان کو کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مقام قرار دیا ہے۔ نجکاری کے ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے، فرسٹ ویمن بینک کی نجکاری مکمل ہو چکی ہے، خریدار ملٹی ملین ڈالر سرمایہ کاری کریں گے، پی آئی اے اور تین ڈسکوز کی نجکاری پر بھی کام جاری ہے، وزارتوں کے انضمام اور غیر ضروری محکموں کی بندش پر 70 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے، ملازمین کو نجی شعبے کے برابر پیکیجزدیے جا رہے ہیں، پنشن اصلاحات بھی حکومتی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے یہ بات واضح ہو گئی ہے، سرکاری اخراجات اور قرضوں کی ادائیگیاں کی گئیں اور کسی حد تک مالی نظم و ضبط لایا گیا ہے، حکومت کی اپنی ڈیٹ سروسنگ لاگت کم ہے، حکومت نے اپنا قرض اور قرض کا دورانیہ کم کیا ہے، حکومت بینکوں سے قرض لینے کے لیے مجبور نہیں ہے، قرضوں کے سود کو کم کیا ہے۔ ہم پیسہ بچا کر اپنی مسلح افواج کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے ملکی سرحدوں پر منڈلاتے جن خطرات کی جانب اشارہ کیا ہے ان کی حساسیت اور نزاکت سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں درپیش دفاعی صورت حال میں مسلح افواج کی مدد و استعانت یقینا ایک قومی ضرورت ہے اور اس جانب فوری توجہ مبذول کرنا حالات اور وقت کا تقاضا ہے وفاقی وزیر خزانہ نے اس مقصد کے لیے حکومتی اخراجات میں کمی کے جس اقدام کی جانب متوجہ کیا ہے اس سے بھی انکار ممکن نہیں۔ تاہم حکومت کے بنیادی فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ملک نچلے طبقے کے عام آدمی کو پیش آمدہ مسائل و مشکلات کے ازالہ پر بھی توجہ دے اور خصوصاً غربت کا خاتمہ بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اشرافیہ اس وقت قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے۔ ہر محکمے کا وفاقی صوبائی سربراہ تو بہت بڑی چیز ہے مقامی اور ضلعی سربراہ بھی عالی شان دفتر اور مہنگی لش پش کرتی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر عوام پر رعب جمانا اور منہ ٹیڑھا کر کے بات کرنا اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کی گاڑی میں سفر اور کئی کنال کی حکومتی رہائش میں مقیم ہو کر اس کا بجلی، گیس اور پانی وغیرہ کا بل دینے کا بھی مکلف نہیں اور درجنوں خدمت گار اس کے اہل خانہ کی ہر طرح کی آسائشات و خواہشات پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت حاضر رہتے ہیں۔ تھانے کا ایس ایچ او نصف درجن پولیس اہلکاروں کے بغیر تھانے میں قدم رکھنا کسر شان تصور کرتا ہے۔ عدلیہ میں مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کے لیے جج ہی کو خرید لینے کی روایت بھی اب کوئی راز نہیں رہی۔ گویا آوے کا آوا ہی بگاڑ کا شکار اور اصلاح کا طلب گار ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے حکومتی اخراجات میں کمی کی جس ضرورت کا اظہار کیا ہے بلاشبہ یہ اب ناگزیر ہو چکی ہے حکومت اگر وزیر خزانہ کی تجویز کردہ بچت مہم کو واقعی نتیجہ خیز بنانے میں سنجیدہ ہے تو مناسب ہو گا کہ صدر مملکت اور وزیر اعظم اس کا آغاز اپنی ذات، اپنے دفاتر اور اپنے پروٹوکول وغیرہ کے اخراجات میں کمی سے کریں۔ وفاقی و صوبائی کابینائوں کا حجم بھی کم اور سیاسی مصلحتوں کے بجائے حقیقی ملکی ضروریات کے تابع کیا جائے۔ بھاری بھر کم وفود کے ہمراہ بیرونی دوروں اور شاہانہ طرز بودو باش سے بھی گریز کیا جائے سرکاری سطح پر ہر طرح کی تقریبات میں سادگی کو شعار بنایا جائے۔ اصل ضرورت یہ بھی ہے کہ بدعنوانی و بددیانتی، رشوت اور سفارش کے موجودہ نظام میں سطحی اور وقتی تبدیلیوں کے بجائے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ ہر محکمے کی افسر شاہی میں عوام پر حکمرانی کے انداز فکر کو تبدیل کر کے عوام کی حکمرانی اور خدمت میں عظمت کے تصور کو ذہنوں میں جاگزیں کیا جائے اور افسر شاہی کے تربیتی نظام میں امانت و دیانت اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے احساس کو اُجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے اسے حسن اتفاق قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ حکومتی اخراجات میں کمی اور نظام میں تبدیلیوں کے ناگزیر ہونے کا ذکر کر رہے ہیں اسی وقت جماعت اسلامی ’’بدل دو نظام‘‘ تحریک کا ایجنڈا لے کر مینار پاکستان کے قدموں تلے ملک گیر سہ روزہ اجتماع عام منعقد کر رہی ہے۔ حکومتی ارباب اختیار اگر واقعی سنجیدہ ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ نظام کی اصلاح اور افسر شاہی کی تربیت کے لیے جماعت اسلامی کے طریق کار سے استفادہ کا اہتمام کرے یہ عمل یقینا موثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو گا کیونکہ جماعت اسلامی نے اپنی صفوں میں امانت و دیانت اور خدمت کی بہترین مثال قوم کے سامنے پیش کی ہے۔ بقول شاعر:
مانو نہ مانو، جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے اپنی تقریر میں حکومت کی جانب سے نج کاری کے ضمن میں پیش رفت کا ذکر بھی کیا ہے اس سلسلے میں بہتر ہو گا کہ اب تک حکومت نے جو ادارے نجی تحویل میں دیے ہیں ان کی نجکاری سے قومی خزانے میں ہونے والی بچت، مالی مفاد اور نفع و نقصان کے بارے اعداد و شمار قوم کے سامنے پیش کر دیے جائیں تاکہ نج کاری کے عمل سے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو سکے اور قومی اثاثے اونے پونے داموں من پسند افراد کے حوالے کرنے سے متعلق قوم حقائق سے آگاہ ہو سکے۔

اداریہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ:
حکومتی اخراجات میں کمی
وفاقی وزیر خزانہ
کی نجکاری
کیا جائے
کاری کے
کیا جا
کے لیے
کیا ہے
پڑھیں:
کراچی:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے موقع پر تاجر و صنعتکاروںسے خطاب کررہے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251106-08-30

سیف اللہ