جسٹس اطہر من اللہ کا نظامِ عدل میں سچائی کی کمی پر دوٹوک مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے 8 نومبر کو لکھے گئے خط میں کہا کہ سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی ہے، عوام کے ساتھ نہیں، اور ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابل معافی جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، جبکہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی اس جبر کے تسلسل کا حصہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے خط میں مزید لکھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو عوامی اعتماد حاصل کرنے پر نشانہ بنایا گیا، اور بہادر ججز کے خطوط اور اعترافات سپریم کورٹ کے ضمیر پر بوجھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ سچ جانتی ہے مگر اکثر یہ معلومات صرف چائے خانوں میں سرگوشیوں تک محدود رہ جاتی ہیں۔
خط میں جسٹس نے بیرونی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب کوئی راز نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو جج سچ بولتا ہے اسے انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ جو جج نہیں جھکتا اس کے خلاف احتساب کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے گزشتہ روز جسٹس منصور علی شاہ نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔ اس خط میں انہوں نے عدلیہ کو متحد رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ اگر عدلیہ متحد نہ ہوئی تو اس کی آزادی اور فیصلوں پر اثر پڑے گا، لہذا آئینی ترمیم پر عدلیہ سے باضابطہ مشاورت کی جائے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل جسٹس اطہر من اللہ کہا کہ
پڑھیں:
آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کو ربڑ اسٹمپ بنایا گیا ، عوامی تحریک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251110-2-15
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف سندھیانی تحریک اور عوامی تحریک کی جانب سے اعلان کردہ‘‘سندھ کا وجود اور وسائل بچاؤ مارچ’’کے سلسلے میں عوامی تحریک کراچی ڈویژن کی تیاری کمیٹی کا اجلاس ڈویژن کے سیکریٹری ایڈووکیٹ عبداللہ بپڑ کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری نے خصوصی شرکت کی۔ اجلاس میں 16 نومبر کو حیدرآباد میں سندھیانی تحریک کی جانب سے اعلان کردہ ریلی میں کراچی سے بھرپور شرکت کی منصوبہ بندی کی گئی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اور عوامی پریس کلب ملیر کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے۔وفاقی آئینی عدالت قائم کرکے سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کیا جا رہا ہے۔ اب تک کوئی بھی آئینی بینچ حکومت کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو قید کرکے پاکستان میں عوام کے بنیادی آئینی اور جمہوری حقوق معطل کر دیے گئے ہیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم قائدِاعظم محمد علی جناح کے پاکستان کا قتل ہے۔رہنماؤں نے کہا کہ یہ ترمیم بدترین جمہوریت کا چہرہ بے نقاب کر چکی ہے اور ننگی آمریت کو آئینی شکل دے دی گئی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے حکمرانوں کو احتساب سے بالاتر کر کے بادشاہی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ بادشاہ صفت حکمران جتنی بھی کرپشن کریں، ان کا کوئی احتساب نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ آئین کا تحفظ کرے۔ وکلا کو چاہیے کہ وہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف جدوجہد کر کے عدلیہ کو بچائیں۔ تاریخ نے سپریم کورٹ کو عدلیہ پر لگے داغ دھونے کا موقع دیا ہے، اور ایک بار پھر عدلیہ بحالی تحریک کی ضرورت ہے۔رہنماؤں نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم زبردستی مسلط کی جا رہی ہے۔ فارم 47 والے اسمبلی ممبران ترمیم کا مسودہ پڑھے بغیر ہی اسے منظور کر لیں گے، کیونکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اسی مقصد کے تحت اقتدار میں لایا گیا ہے تاکہ بدترین مارشل لا کو اسمبلیوں کے ذریعے قانونی شکل دی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم دراصل مارشل لا کو اسمبلی سے منظور کروانے کے مترادف ہے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی تاریخ میں بدترین مارشل لا حکمرانی کی مثال قائم کر دی ہے۔ ان دونوں کی بدترین حکومت نے ملک میں مارشل لا کو قانونی شکل دے دی ہے۔عوامی تحریک کے مرکزی میڈیا سیکریٹری کاشف ملاح، مرکزی رہنما پرہ سومرو، علی محمد کلمتی، سندھی شاگرد تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ نوید عباس کلھوڑو، اقبال جروار، ڈاکٹر رحمت اللہ بروہی، جبران جروار، امر مگسی، ایڈووکیٹ رائے چند، راجا مہیشوری، میر نوروز کلمتی، محمد علی ساہڑ، یوسف نوحا?ی، جبار پلیجو، اختر لنڈ، منور جروار، عزیز لانگاہ، غلام اللہ بگھیو، خورشید قریشی، کھجو مل، طارق چانڈیو، علی رضا چانڈیو، عنایت عاربانی اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔