بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایک تکنیکی وفد ملک کے پبلک فنانس مینجمنٹ اور بجٹ اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا تکنیکی وفد مالیاتی پالیسیوں، آڈٹ کے طریقوں اور اخراجات میں شفافیت کو بہتر بنانے کے اقدامات پر سرکاری حکام کے ساتھ تفصیلی بات چیت کرے گا۔

تکنیکی وفد کو پبلک فنانس منیجمنٹ پلان کی نگرانی کیلئے کمیٹی کی تشکیل سے آگاہ کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم نے گزشتہ دس سال کے دوران جاری کردہ ضمنی گرانٹس کا آڈٹ کرانے مطالبہ کررکھا ہے جس میں فنڈز کے استعمال کے بارے میں جوابدہی اور وضاحت طلب کی گئی ہے، جبکہ ٹیم نے وفاقی حکومت کے اخراجات کو محدود کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

آئی ایم ایف وفد بجٹ پریکٹس میں تبدیلی  اور اہداف پرعملدرآمد کا جائزہ لے گا۔ آئی ایم ایف نے مالی نظم وضبط کی پالیسی پرعملدرآمد پر زوردیا جبکہ اس کے علاوہ حکومت سے توانائی اورآپریشنل نقصانات کم کرنیکا مطالبہ کیا۔

آئی ایم ایف نے قرضوں کے بہتر استعمال اور اخراجات میں شفافیت پر بھی زور دیا اور ٹیکس وصولیوں میں بہتری اور سبسڈی کے درست استعمال کی ہدایت کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آئی ایم ایف

پڑھیں:

حکومت کا گورننس کے نام پر ایک ارب ڈالر کا قرض لینے کا فیصلہ

اسلام آباد:

پاکستان نے ٹیکس نظام کی کارکردگی بہتر بنانے،اخراجات میں شفافیت لانے اورسرکاری اداروںکے قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے نام پر ایک ارب ڈالرکے 2 غیرملکی قرضے حاصل کرنے کافیصلہ کیاہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق حکومت 60 کروڑ ڈالرکاقرض "پاکستان پبلک ریسورسزفار اِنکلیوسِوڈیولپمنٹ پروگرام" کے تحت ورلڈ بینک سے،جبکہ 40 کروڑ ڈالر کاقرض "ایکسلیریٹنگ اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائز ٹرانسفارمیشن پروگرام" کے تحت ایشیائی ترقیاتی بینک سے حاصل کریگی۔

موجودہ زرمبادلہ کے نرخ کے مطابق ایک ارب ڈالر تقریباً281 ارب روپے کے برابر بنتے ہیں،جو نیاہوائی اڈہ تعمیرکرنے یاسیکڑوں اسکول بنانے کیلیے کافی رقم ہے،تاہم یہ قرضہ جات بجٹ سپورٹ کے طور پر حاصل کیے جائیں گے اور ان سے کوئی نیااثاثہ نہیں بنایاجائیگا۔

وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق قرضے زرمبادلہ ذخائرکوسہارادینے کیلیے لیے جارہے ہیں،جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے ابھی تک بڑے غیر ملکی قرضوں کی راہ ہموار نہیں ہوسکی۔

دستاویزات کے مطابق ورلڈ بینک کا 60 کروڑ ڈالرکا پروگرام وزارتِ خزانہ، ایف بی آر، بیورو آف اسٹیٹسٹکس، وزارتِ تجارت، پاور ڈویژن، آئی ٹی وزارت، پی پی آر اے اورآڈیٹر جنرل کے محکمے میں اصلاحات کیلیے ہوگا۔

پروگرام کے تحت ایف بی آرکے ٹیکس اصلاحاتی اقدامات، اخراجات میں شفافیت اور درست اعداد و شمار فراہم کرنیوالے نظام کو مضبوط کرنے کاہدف مقررکیاگیا۔

ذرائع کے مطابق وزارتِ منصوبہ بندی نے نئے قرضے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر اوآڈیٹر جنرل کیلیے پہلے ہی اسی نوعیت کے قرضے جاری ہیں،جیسے کہ "پاکستان ریز ریونیو پروگرام" اور "آن لائن بلنگ سسٹم"۔ دوسری جانب، حکومت ایشیائی ترقیاتی بینک سے 40 کروڑ ڈالرکاقرض 40 بڑے سرکاری اداروں کی کارکردگی اور مالی پائیداری بہتر بنانے کیلیے حاصل کرناچاہتی ہے۔

ماہرین کاکہناہے کہ پاکستان کیلیے گورننس اور شفافیت میں بہتری لانے کیلیے "سیاسی عزم اور اصلاحی ارادے" زیادہ اہم ہیں،محض قرضوں سے اصلاحات ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس کی زیرصدارت اجلاس، عدالتی نظام کو شفاف اور عوام دوست بنانے کے لیے امور کا جائزہ
  • سندھ پولیس گیمز کے انتظامات کا جائزہ لینے کیلیے اجلاس
  • اپوزیشن کا 27ویں آئینی ترمیم کےلیے ووٹنگ کےعمل میں حصہ نہ لینے کااعلان
  • میرٹ کے نظام میں بڑی اصلاحات؛ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا اہم فیصلہ
  • پنجاب پبلک سروس کمیشن کا میرٹ کے نظام میں اصلاحات کا اعلان
  • پاکستان سرکاری اصلاحات کے لیے ایک ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کرے گا
  • 27ویں ترمیم، شہبازشریف نے وزیراعظم  کے استثنیٰ کی شق واپس لینے کی ہدایت کردی
  • جعفر ایکسپریس اور بولان میل تکنیکی وجوہات پر منسوخ
  • حکومت کا گورننس کے نام پر ایک ارب ڈالر کا قرض لینے کا فیصلہ