سٹی 42 : صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نواز دیا۔ 

ایوانِ صدر میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دینے کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے ۔ 

تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف ، فیلڈ مارشل عاصم منیر  نے شرکت کی۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ، چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی، چئیر مین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو ، ائیر چیف اور نیول چیف سمیت اعلی عسکری وسول حکام بھی تقریب میں موجود تھے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے تناسب سے رد و بدل ہو گیا

ایوانِ صدر میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو اعلی ترین سول ایوارڈ دے دیا گیا۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے شاہ عبداللہ دوم کو اعلی ترین ایوارڈ نشانِ پاکستان سے نوازا۔ شاہ عبداللہ دوم نے صدر آصف علی زرداری کوبھی اردن کا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا ۔ 

شاہ عبداللہ دوم کو دو طرفہ تعلقات مضبوط بنانے ، عالمی و علاقائی امن کے لیے خدمات کے اعتراف میں اعزاز دیا گیا۔ 

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: شاہ عبداللہ دوم کو ترین سول ایوارڈ کو اعلی

پڑھیں:

اعلیٰ عدلیہ اور 27 ویں آئینی ترمیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251114-03-2

 

مجلس شوریٰ کے ایوان بالا سینیٹ کے بعد ایوان زیریں قومی اسمبلی نے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء میں اتفاق رائے سے منظور شدہ آئین میں 27 ویں ترمیم کی منظوری دے دی۔ اس ترمیم میں ترامیم کا سلسلہ بھی آخری دم تک جاری رہا اور ابھی شاید اگلے مرحلہ میں جلد بازی میں منظوری کی تھی اس ترمیم کو قابل عمل اور قابل قبول بنانے کے لیے مزید ترامیم کے لیے 28 ترمیم لانا بھی ضروری ہو جائے۔ بدھ کے روز مجلس شوریٰ کے ایوان زیریں میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان بالا سے منظور شدہ 27 ویں ترمیم کا بل، چار شقیں منہا کرنے اور چار مزید شقیں شامل کرنے کی ترامیم کے ساتھ پیش کیا۔ ان نئی ترامیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جلد بازی میں تیار کیے گئے ترمیم کے مسودہ میں بہت سے ابہام رہ گئے تھے جس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مسودہ کو ایوان بالا میں پیش کرنے سے قبل اس بات کا شدت سے اہتمام کیا گیا کہ کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہونے پائے چنانچہ جب ایوان بالا سے منظوری کے بعد ترمیم کی تفصیلات سامنے آئیں تو خود حکومت کے حامی ماہرین آئین و قانون اور غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے اس میں موجود بہت سے سقم اُجاگر کیے گئے اور ان کی وجہ سے ترمیم کی منظوری کے بعد پیش آمدہ ممکنہ آئینی و قانونی اور عملی پیچیدگیوں کی نشاندہی کی گئی جس کے بعد ایوانِ زیریں، قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل ہنگامی طور پر بل میں ترامیم کرنا پڑیں۔ قومی اسمبلی نے حزب اختلاف کے شدید احتجاج اور واک آئوٹ کے باوجود ستائیسویں آئینی ترمیم کے اس بل کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی ترمیم کے حق میں 234 ووٹ اور مخالفت میں صرف جمعیت علماء اسلام کے چار ووٹ ڈالے گئے حزب اختلاف کے دیگر ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ ایوان بالا اگرچہ پہلے سے 27 ترمیم کی منظوری دے چکا ہے مگر ترمیم میں کی گئی ترامیم کے باعث اب اسے ایک بار پھر سے ایوان بالا میں پیش کیا گیا ہے جہاں حکومت کو دوبارہ دو تہائی اکثریت کی ضرورت پیش آئے گی جسے قبل ازیں جمعیت علماء اسلام (ف) اور تحریک انصاف کے ایک ایک رکن کو پارٹی پالیسی سے انحراف کروا کر پورا کیا گیا تھا اور آئین کی رو سے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے سبب یہ دونوں ارکان سینیٹ کی رکنیت سے محروم ہو سکتے تھے اس لیے تحریک انصاف کے منحرف رکن نے حکومت کی جانب سے دوبارہ منتخب کروانے اور بعض دیگر یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہوئے 27 ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے فوری بعد ایوان بالا سے استعفا دے دیا تھا مگر قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل میں آٹھ نئی ترامیم کی وجہ سے پیدا شدہ نئی صورت حال میں حکومت کو ایک بار پھر ان کے ووٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے کیونکہ عین ایوان بالا میں 27 ترمیم پیش کیے جانے کے روز حکومت کو اپنے ایک سینیٹر عرفان صدیقی کی وفات سے بھی دھچکا اور عددی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ تازہ ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے تحریک انصاف کے منحرف اور مستعفی رکن سیف اللہ ابڑو کے استعفے پر کارروائی روک دی ہے، چیئرمین سینیٹ نے ان کے استعفے پر دستخط بھی نہیں کیے اور آئین کی دفعہ 63۔ الف کے تحت ان کے خلاف ریفرنس بھی نہیں بھجوایا جا سکا۔ اس طرح حکومت ان کا ووٹ ایک بار پھر اپنے حق میں استعمال کر سکے گی۔ غالب امکان ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک حکومت دوبارہ ایوان بالا سے 27 ویں ترمیم کے حق میں دو تہائی ارکان کی رائے سے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی اور اس کا حلیہ بگاڑنے کا اپنا مشن مکمل کر چکی ہو گی۔

ستائیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بجا طور پر عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ عدلیہ کو بے دست و پا کرنے کی کوشش ہے جیسا کہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بھی لاہور بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور پھر ملتان بار ایسوسی ایشن اور اسلامک لائرز موومنٹ کے ارکان اور عہدیداران سے خطابات کے دوران کہا ہے کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں 27 ویں ترمیم سے عدلیہ اقلیت اور حکومت اکثریت میں آ گئی ہے اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو سرنگوں رکھنے کا پورا بندوبست کیا گیا ہے یہ لوگ پہلے بھی عدلیہ کو نہیں مانتے تھے، اب بے توقیر کر کے عدلیہ کے مکمل خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے ہیں۔ صدر، چیف آف اسٹاف یا کوئی بھی بڑا محاسبے سے مستثنیٰ نہیں۔ یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے اور کسی صورت بھی قابل قبول نہیں، ہماری تاریخ روشن اور تابناک ہے، محاسبہ کا نظام اس قدر ضروری ہے کہ خود نبی اکرمؐ نے بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا۔ نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جائے گا، پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ غریبوں کو پکڑ لیتے اور امیروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس ضمن میں مفتی تقی عثمانی بھی فتویٰ دے چکے ہیں کہ اسلام میں کوئی بھی احتساب سے بالاتر اور مستثنیٰ نہیں حتیٰ کہ خلفائے راشدین خلیفہ ہوتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے عدالتوں کے روبرو پیش کرتے رہے۔ بلاشبہ اس ترمیم کے ذریعے ملک کے عدالتی نظام کو تباہی سے دو چار کرنے کا پورا سامان کیا گیا ہے اسے واضح طور پر انتظامیہ کے تابع کر دیا گیا ہے اور ملک کی عدالت عظمیٰ سے بالا تر ایک اور عدالتی نظام بٹھا دیا گیا ہے سوال یہ ہے ایک بالاتر عدالت کے ہوتے ہوئے عدالت عظمیٰ ’’سپریم‘‘ کیسے رہے گی ؟؟ یہ امر قدرے اطمینان بخش ہے کہ ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد حزب اختلاف نے بھی کروٹ لی ہے اور بدھ کے روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں حزب اختلاف کے اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ اس ترمیم کی بنیاد پر جمعہ سے حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا، ہم حکومت کا جینا دوبھر کر دیں گے اور تمام غیر ملکی سفیروں کو خطوط لکھیں گے کہ اس حکومت سے جو بھی معاہدے کیے ہیں وہ ختم کر دیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر خاں اور حزب اختلاف کے ارکان کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں نامزد قائد حزب اختلاف محمود خاں اچکزئی نے حکومت کو خبردار کیا کہ دنیا کے خطرناک ممالک ہمیں لڑانا چاہتے ہیں، ہمیں جنگ کا راستہ روکنا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا آئین بالادست ہو گا، طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہو گی، تمام صوبوں کی معدنیات پر پہلا حق اس صوبے کا ہو گا۔ اسپیکر کی جانب سے حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت کے جواب میں محمود خاں اچکزئی کا کہنا تھا کہ جو بھی مذاکرات کرنا ہیں ہم تیار ہیں، مذاکرات اس بات پر ہوں گے کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ انہوں نے عدلیہ کے ججوں سے درخواست کی کہ آپ اپنے قلم سے ترامیم کی اس تمام کارروائی کو فارغ کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ ذکر نا مناسب اور بے جا نا ہوگا کہ عدالت عظمیٰ کے بعد عدالت عالیہ لاہور میں بدھ کے روز 27 آئینی ترمیم کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ درخواست میں ٹھوس دلائل کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم آئین کی بنیادی روح سے متصادم ہے۔ دیکھنا یہ ہے ملک کی اعلیٰ عدالتیں اس ضمن میں کب اور کیا فیصلہ سناتی ہیں؟

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت نے اردون کے شاہ عبداللہ کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نواز دیا
  • اردن کے شاہ عبدللہ دوم کواعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشان پاکستان عطا
  • اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو اعلی ترین سول ایوارڈ نشانِ پاکستان سے نوازا گیا
  • اردن کے شاہ عبداللّٰہ دوم کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشانِ پاکستان سے نوازا گیا
  • اردن کے شاہ عبداللّٰہ دوم کے اعزاز میں ایوان صدرمیں ظہرانہ،اعلیٰ شخصیات شریک
  • پاکستان نے اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نواز دیا
  • ہاشمیہ مملکت اردن کے بادشاہ آج سے پاکستان کا 2 روزہ دورہ کریں گے
  • اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کی 15 اور 16 نومبر کو پاکستان آمد، اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا شیڈول جاری
  • اعلیٰ عدلیہ اور 27 ویں آئینی ترمیم