پاکستان ریلوے، نظام الاوقات
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
پاکستان کے کئی ریلوے اسٹیشنوں اورکئی مقامات پر انگریزوں نے اپنے دور میں بھاری بھرکم گھڑیاں لگا دی تھیں۔ اسٹیشنوں پر لگی گھڑیاں محض لوہے کا ایک پرزہ نہیں بلکہ اپنی گول مٹول جسامت کے ساتھ وہ آہنی آنکھ ہے جو شاید ایک صدی سے مسافروں کو دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ انگریزوں نے یہ گھڑیاں اس لیے لگا رکھی تھیں کہ ٹرین وقت پر آئے، وقت پر جائے اور ان گھڑیوں کو دیکھ کر قوم بھی وقت کی پابندی سیکھ لے، لیکن ریلوے نے قوم کو ایسا سبق سکھایا کہ بار بار لیٹ آنا اور لیٹ جانا۔ اب یہ گھڑیاں وقت تو صحیح بتاتی ہیں لیکن ٹرین وقت کا مذاق اڑاتی ہے اور جب ٹرین لیٹ سے لیٹ ہو کر اسٹیشن پر پہنچتی ہوگی تو شاید یہ گھڑی مخاطب ہوتی ہو کہ میں تو ہر لمحہ آگے بڑھتی ہوں، صحیح وقت بتاتی ہوں، تم کیوں لیٹ ہو جاتے ہو؟ تمہاری بوگیوں میں بچے روتے ہیں۔
عورتیں تھکی ہاری انتظار میں رہتی ہیں کہ ایک اسٹیشن آئے گا، مزدور کے کندھے کا درد بڑھ جاتا ہے جب تم لیٹ ہو جاتے ہو اور وہ بوڑھا مسافر اپنی جھکی ہوئی کمر کے ساتھ لاٹھی ٹیکتے ہوئے سوچتا ہوگا شاید کہ انگریز سرکار کے دور میں جب میں جوان تھا، ٹرین تو ایک سیکنڈ بھی لیٹ نہیں ہوتی تھی۔ شاید اس کی یاد داشت میں یہ بات بھی ہو کہ جب ٹرین پہنچتی تو ہم اپنی گھڑیاں درست کر لیتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی گھڑیوں پر اعتماد نہ تھا جتنا کہ ٹرین کے رائٹ ٹائم پر پہنچنے کا۔ ٹرین کے انجن نے یہ جواب دیا ہو کہ میرا قصور نہیں ہے، یہ نظام کی خرابی ہے۔
ریلوے نظام کی اصلاح کی باتیں تو کئی دہائیوں سے ہو رہی تھیں لیکن اب وزیر اعظم نے زور دے کر کہا ہے کہ ریلوے نظام کسی ملک کی معیشت اور مواصلات کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اصلاح اور اپ گریڈیشن بہت ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ بین الاقوامی معیار کے قانونی اور معاشی ماہرین کی خدمات لی جائیں۔ ریلوے سے متعلق منصوبہ بندی میں بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ ٹرین میں سفر کے دوران بہت ہی چھوٹے چھوٹے مسئلے بھی ہوتے ہیں جن کے حل کے لیے بین الاقوامی ماہرین کیا کر سکتے ہیں۔
ٹوائلٹ ہے پانی نہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان ریلوے کی 65 فی صد ٹرینوں میں پانی کی فراہمی کے لیے کئی ارب روپے مختص کیے ہیں مگر پانی پھر بھی نہیں آتا۔ ایک مسافر ٹکٹ دکھا کر عملے کے کسی رکن سے پوچھتا ہے کہ اس ٹکٹ پر سیٹ نمبر بھی ہے اور بوگی نمبر بھی لکھا ہے لیکن پوری ٹرین میں بوگی موجود نہیں۔ جواب ملتا ہے کہ گارڈ سے پوچھیں، یعنی جو شخص صحیح جواب دے سکتا ہے، بوگی کے ساتھ ساتھ وہ بھی غائب، وہ بھی دستیاب نہیں۔ اب ریلوے کے اس نظام کا باہر والے آ کرکیا کریں گے؟ جہاں ریلوے کے افسران اور ملازمین کو ہی احساس نہ ہو۔ وہ اے سی روم میں بیٹھے ہوتے ہیں اور عوام رُل رہی ہوتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان ریلوے تقریباً 40 فی صد تاخیر کا شکار رہتی ہے جب کہ میرا اپنا مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ جب بھی ٹرین سے سفر کیا ہمیشہ لیٹ ہی لیٹ اور کسی کو لینے گئے جب بھی ٹرین کئی کئی گھنٹے لیٹ آتی ہے۔ ریلوے پاکستان کے غریب عوام کی سواری ہے، اگر یہ درست ہو جائے تو قوم کا بھی نظام الاوقات درست ہو جائے۔ حکومت بین الاقوامی ماہرین کو فوراً بلانے کا بندوبست کرے۔ اس کے ساتھ ایران کے ٹرین سسٹم کا مطالعہ بھی کر لیا جائے۔
بہت سی باتیں ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں ریلوے کا ایک بڑا نظام بھارت چلا رہا ہے، پورا یورپ ریلوے کے نظام سے جڑا ہوا ہے، اس کے ساتھ مال گاڑیوں کا نظام الاوقات درست ہونا چاہیے۔ٹرین کے سفر کے دوران یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر کئی بوڑھے تھکے ماندے زنگ آلود انجن بھی کھڑے ہوتے ہیں۔
وہیں کہیں وہ بوگی بھی چھپ کر کھڑی ہوتی ہے جسے ٹرین کے ساتھ جوڑنا تھا جس کا بوگی نمبر، سیٹ نمبر برتھ کا بھی ٹکٹ بک کر لیا گیا ہوگا۔ مگر حکام نے سوچا ہوگا یہ بوگی تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، مرمت کی طلب گار ہے، اس کے پہیوں میں جان ہی نہیں، اس کا رنگ اکھڑا ہوا ہے، بہتر یہ ہے کہ اس بوگی کو ہی روک لیتے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے وہ تو ٹوائلٹ کے سامنے بیٹھ کر بھی اپنی منزل تک پہنچ ہی جائیں گے۔
وزیر اعظم کے بلانے پر بین الاقوامی ماہرین بھی آ جائیں گے، اپنا لائحہ عمل بھی دے جائیں گے، منصوبہ بندی بھی کر جائیں گے، ٹرینوں کی حالت بھی درست کروا جائیں گے اور بہت کچھ ہو جائے گا لیکن آخر میں ٹرینیں چلانے کی ذمے داری یہیں کے حکام، افسران، ملازمین کی ہوگی۔ اگر سب کو اپنی ڈیوٹی، اپنی ذمے داری کا احساس ہو جائے تو پاکستان ریلوے کا آدھا نظام ویسے ہی درست ہو جائے اور مسافروں کو بھی شکایات نہ ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان ریلوے بین الاقوامی جائیں گے کے ساتھ ہو جائے ٹرین کے درست ہو
پڑھیں:
سہ روزہ بستی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251125-03-6
ہم پہنچے تو مینارِ پاکستان سبز روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے دودھیا سفید رنگ کی چادر اوڑھ لی۔ یہ پرچم کے رنگ ہیں۔ وہی پرچم جس کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ہم ایک ہیں۔ نہایت بلند اسٹیج پر لفٹ اور سیڑھیوں کا انتظام تھا اور اسٹیج بھی روشنیوں میں جگمگ کرتا تھا۔ پنڈال تاحد نظر تک پھیلا ہوا تھا‘ اور گریٹر اقبال پارک میں رات گئے بھی بہت چہل پہل تھی۔ جہاں ہزاروں لوگ جمع ہو جائیں‘ وہاں میلے کا سماں ہو جاتا ہے اور میلے کے اطراف اور اس کے اندر کھانے پینے کے اسٹال اور خوانچے تو لگ ہی جاتے ہیں۔ یہ تین دن کی بستی بسائی گئی تھی اور بستی بسنا کھیل نہیں ہے۔
21 نومبر کو اسٹیج پر بیٹھا میں پنڈال میں ان لوگوں کو دیکھتا تھا جو کراچی سے گلگت تک کے مختلف علاقوں سے دور دراز کا سفر کرکے اس سہ روزہ بستی میں پہنچے تھے۔ اکثر وہ تھے جنہیں اسٹیج پر نہیں‘ پنڈال میں بیٹھنا تھا۔ اَن گنت مرد اور خواتین اپنے الگ الگ مخصوص پنڈالوں میں بیٹھے تھے اور صبح سے تقاریر اور بیانات سن رہے تھے۔ لیکن ان پر تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے۔ نومبر کے آخری دنوں کی میں لاہور کی راتیں اچھی خاصی سرد ہوا کرتی ہیں‘ اور لاکھوں لوگوں کا انتظام بہت مشکل ہے لیکن یہ سب انتظام موجود تھا۔ پنڈال میں طے شدہ جماعتیں تمام تر انتظام کر رہی تھیں اور اسٹیج پر کارکنوں اور منتظمین کی الگ ایک جماعت موجود تھی۔ یہ بنیادی طور پر سیاسی اجتماع نہیں تھا۔ یہ سالانہ اجتماع تھا جو دعوتی رخ رکھتا تھا اور اس کی اجازت بھی حکومت سے اسی شرط کے ساتھ ملی تھی۔ اس کا عنوان ’’بدل دو نظام‘‘ جماعت کے سیاسی رخ کی غمازی کرتے ہوئے بھی غیر سیاسی تھا۔ یہ نظام معاشرتی بھی ہے‘ سیاسی بھی‘ انتظامی بھی۔ نظام بدلنے کا یہ نعرہ اور یہ عزم نیا تو نہیں لیکن بہت اہم ہے۔ جس گلے سڑے فرسودہ نظام کو ہم سب روز بھگتتے اور روز اس کے نئے سے نئے عذاب سے گزرتے ہیں‘ اسے بدلنے کا نعرہ پرانا ہو بھی کیسے سکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے حامی تو ایک طرف‘ کچھ باتوں سے جماعت اسلامی کے مخالفین بھی انکار نہیں کر سکتے۔ اس کا جماعتی نظم وضبط‘ اس کی برصغیر میں سیاسی اہمیت‘ اس کی اپنے حامیوں کو جمع کرنے کی طاقت۔ ضروری سمجھا جائے تو سڑکوں پر بڑی تعداد میں نکلنے کی قوت اور آزمائش کے وقت مار کھانے اور قربانیاں دینے کی صلاحیت۔ میں ان صلاحیتوں میں جماعت کی فلاحی‘ ادبی اور قلمی تاریخ کو بھی شامل کرتا ہوں۔ یہ سب بار بار آزمودہ‘ مسلمہ طاقتیں ہیں۔ مخالفین جماعت اسلامی پر کتنے ہی جملے اچھالیں‘ اس کے نظریاتی مخالف جتنا بھی تمسخر اڑانے کی کوشش کریں‘ اس میں کیا شک ہے کہ سیاسی جماعتوں میں‘ جو کرپشن کے کیچڑ سے لت پت ہیں‘ یہ وہ بڑی سیاسی جماعت ہے جس کے دامن پر بدعنوانی کا داغ نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ نظریاتی مخالف کس ڈھٹائی سے جماعت پر فقرے کستے ہیں۔ خیر یہ اپنا اپنا موقف ہے۔ آپ نظریات اور راہِ عمل سے متفق ہوں یا اختلاف رکھتے ہوں لیکن جب بے بنیاد الزامات اور جملے بازی کے ذریعے مخالف کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو خود آپ کا قد چھوٹا ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو ہر بار پس پردہ طاقتوں اور طے شدہ بندوبست کے ذریعے کسی طرح کرسی پر آ بیٹھتے ہیں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے کہ عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے اور انہیں اقتدار کے قابل نہیں سمجھتے‘ تو واقفانِ حال ان کی باتوں پر مسکراتے ہیں۔ یہ الگ موضوع ہے کہ مذہبی جماعتیں‘ جن میں جماعت اسلامی موثر ترین جماعتوں میں ہے‘ کیونکر انتخابی نظام میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ یہ زمانہ سیاسی شعور کا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ کون کتنا شفاف اور پاک ہے‘ کون کس طرح کرسی پر بیٹھا ہے اور اسے کن طاقتوں کی مدد ملتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس سے یہ ملک بار بار گزرتا ہے اور یہ آواز ہر دل کی ہے کہ بدل دو نظام۔ جب تک یہ نظام نہیں بدلے گا‘ یہ عذاب بھی نہیں بدل سکتے۔ پھر جماعت کے فلاحی بازوئوں نے وہ بے مثال کار کردگی دکھائی ہے جس کے اعتراف کے لیے بہت کچھ لکھا جانا چاہیے۔ ایک اور بات جس کی طرف توجہ کم کم کی گئی ہے‘ جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور عام کارکنوں کا ادبی رخ ہے۔ میرے خیال میں یہ موضوع کئی تحقیقی مقالوں کا محتاج ہے۔ بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رواں اور خوبصورت نثر اپنی مثال آپ ہے جو دل میں اترتی ہے۔ یہ دلّی کی وہ ٹکسالی نثر ہے جسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور جس کی تحسیب بڑے بڑے ادیبوں نے کی ہے۔ یہ بات بھی کم لوگوں کے علم میں ہے کہ مودودی صاحب عمدہ شاعر تھے اور ابتدا میں ’’طالب‘‘ تخلص کرتے تھے۔ ان کے دو شعر سن لیجیے:
فطرت کی کانِ سنگ کا حاصل نہیں ہوں میں
پگھلوں نہ غم سے کیوں کہ ترا دل نہیں ہوں میں
ساقی کے تغافل سے مایوس نہ ہو رندو
خود طالبِ گردش ہے اب فطرتِ پیمانہ
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو میں نے اپنے سمن آباد موڑ والے گھر میں کئی بار دیکھا۔ یہ میرے بچپن کی بات ہے۔ ان کے لباس اور شخصیت کی نفاست کا تاثر اب تک حافظے میں ہے۔ اْس زمانے میں 1970ء کے انتخابات کا غلغلہ تھا۔ ہمارے گھر کے مستقل مہمان مولانا ظفر احمد انصاری کا جماعت کے عمائدین سے قریبی رابطہ تھا۔ میرے والد گرامی جناب محمد زکی کیفی بھی دینی جماعتوں کے اتحاد کے داعی تھے۔ ہمارا گھر ان مشوروں اور مجلسوں کا مرکز تھا اور ان سب عمائدین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ ہمارے گھر جو رسالے آتے تھے ان میں ’’سیارہ‘‘ بھی شامل تھا جو جماعت سے وابستہ معروف شاعر اور ادیب جناب نعیم صدیقی کی زیر ادارت شائع ہوتا تھا۔ نعیم صدیقی صاحب سے جناب زکی کیفی کے دوستانہ مراسم تھے اور سیارہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ وہ اعلیٰ پائے کے شاعر تھے اور ان کی
نعت ’’میں ایک نعت لکھوں‘ سوچتا ہوں کیسے لکھوں‘‘ اب تک میرے حافظے میں ہے۔ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمیشہ ہوتا رہا ہے‘ نظریاتی مخالفوں نے اسلامی پس منظر رکھنے والے شاعروں ادیبو ں کو ان کی مقدار اور معیار کے باوجود کبھی تسلیم نہیں کیا۔ مولانا مودودی‘ نعیم صدیقی اور نسیم حجازی کو بھی ان کا ادبی مقام اور مرتبہ نہیں دیا گیا۔ حالانکہ ان میں بہت سے نام بڑے بڑے مخالف ناموں سے کہیں بلند تھے۔ جماعت سے وابستہ مولانا ماہر القادری بھی ہمارے گھر کے مستقل مہمان ہوا کرتے تھے اور جب بھی لاہور آتے جماعت اور جمعیت کے نوجوان ان سے ملنے یا کسی تقریب میں لے جانے کے لیے ہمارے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ ان سب کا ادبی ذوق اور خوش مزاجی متاثر کن تھی اور یہ سلسلہ نسل در نسل اب تک چلا آتا ہے۔
میں پچھلے دنوں غزالی پبلک اسکول پھالیہ کے برادرم ضیغم مغیرہ کی دعوت پر اس اجتماع میں شریک ہوا جو ملک بھر کے ہم مزاج اہلِ قلم کو یکجا کرنے اور انہیں اپنے قلم کی طاقت کا بہترین استعمال کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ یہاں بھی ملک بھر کے اہم قلم موجود تھے اور ان سے ملنا خود ایک خوشگوار موقع تھا۔ نوواردان ادب کی تربیت کے لیے بیانات بھی بہت عمدہ تھے‘ اور ان میں سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ اصلاحی تحریکوں کا یہ ادبی رخ بیشتر دینی جماعتوں میں مفقود ہے۔ حالانکہ اہلِ قلم کو ساتھ لے کر چلنا فی زمانہ نہایت اہم ہے۔
اْس دن مینار پاکستان کی سبز وسفید روشنیوں کے سائے میں بیٹھا وقاص جعفری‘ سید عامر محمود جعفری‘ شعیب ہاشمی‘ ضیغم مغیرہ اور دیگر خوش ذوق دوستوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے میں سوچ رہا تھا کہ مینار پاکستان کے سائے تلے اس سہ روزہ بستی میں ایک کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کرکے عمائدین جماعت نے اپنے اس تاریخی ورثے کا احیا کیا ہے جو ناقابلِ تردید بھی ہے اور ناقابلِ فراموش بھی۔ نظام بدلنے کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور اپنے تاریخی ورثے کو سینے سے لگائے رکھنے کی اہمیت اپنی جگہ۔ سہ روزہ بستی کو دونوں مبارک! (بشکریہ: روز نامہ دنیا)