ابھرتے ہوئے ہمہ جہت اداکار منیب بٹ کے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ پر کی گئی گفتگو نے مداحوں کو ان کے ایک نئے اور دلنشین پہلو سے روشناس کرا دیا۔

اداکار منیب بٹ نے بتایا کہ ان کا پورا خاندان مذہبی ہے، بالخصوص ان کی والدہ پنج وقتہ نمازی اور تہجد گزار بھی ہیں۔

منیب بٹ نے کہا کہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے تو مجھے ایسی ایمان بھری گود ملی کہ جس نے میری روح تک کو سیراب کر رکھا ہے۔

منیب بٹ نے کہا کہ میں اور میرا خاندان کبھی اپنے مذہبی رجحانات اور نیک اعمال کی تشہیر نہیں کرتے کیوں کہ اللہ تو سب دیکھ رہا ہے اور نیت تک جانتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر میں عبادت یا کسی نیک کام کی ویڈیو اپ لوڈ کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایک بھی شخص اسے دیکھ کر اچھے کام کی جانب مائل ہوگیا تو میرے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔

منیب بٹ نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں اللہ کہاں ہے؟ میں کہتا ہوں اللہ کی مدد تو مشکل آنے سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔

مداحوں نے اپنے پسندیدہ اداکار کے اس کھلے اور صاف گو مؤقف کو بے حد سراہا اور ان کے نیک کاموں کی قبولیت کی دعا کی۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
فیصلہ جب بھی میرے یار کیا جائے گا
ساری بستی کو خبردار کیا جائے گا
نام لیتے ہوئے آئیں گے دوانے میرا
دشتِ وحشت کو اگر پار کیا جائے گا
ہم سے اندھوں کو تری شکل دکھائی دے گی
عام ایسے ترا دیدار کیا جائے گا
بس اسی آس پہ بیٹھے ہیں تری چوکھٹ پر
وقت آئے گا تو اظہار کیا جائے گا
تیرے عالم کی سبھی نظم بدل سکتی ہے
ہم فقیروں کو اگر خوار کیا جائے گا
آتش ہجر میں ہو جائیں گے جب سرخ بدن
تب کہیں آگ کو گلزار کیا جائے گا
(مستحسن جامی۔ خوشاب)

غزل
صبر کرلو کہ بس یہی حل ہے
اور اس کے سوا کوئی حل ہے؟ 
حل ہوئے تب ہی مسئلے سارے
اس نے جب یہ کہا کہ جی حل ہے
ہاں وہی ایک شخص میرے لیے
کبھی مشکل ہے اور کبھی حل ہے 
اس کی جانب رجوع کرتا ہوں 
کچھ مسائل کا ایک ہی حل ہے
ہے جو میرے قلم میں کھاراپن
اس میں کچھ اشک کی نمی حل ہے
اک الگ مسئلہ ہے تربیت
مت سمجھ خوبصورتی حل ہے
دردِ دل، زخمِ مستقل کے لیے
شاعری ایک عارضی حل ہے
سوچتا ہوں کہ میں بھی کر گزوں
وہ جو ہر غم کا آخری حل ہے
جب وہ غصے میں ہو حمید رضاؔ 
چپ بھی حل ہے، کلام بھی حل ہے 
(حمید رضا۔سکردو)

غزل
کس قدر بے بسی سے ہار گئے
ہم تمہاری کمی سے ہار گئے
زندگی ہار دی محبّت میں
اور پھر زندگی سے ہار گئے
کتنے ہی قیس تھے سرِ صحرا
میری آوارگی سے ہار گئے
اک دن ایسا ہوا کہ شہر کے شہر
ایک کچّی گلی سے ہار گئے
وہ کہ جیتا نہ تھا کسی سے کبھی
اور ہم بس اُسی سے ہار گئے
جن کو دعویٰ تھا بادشاہت کا
تیرے اک اردلی سے ہار گئے
(اسیر ہاتف۔سرگودھا)

غزل
منفرد بھی تو انہیں سب سے جدا مانتے ہیں
اپنی تنہائی کو جو لوگ خدا مانتے ہیں
اتنا اتراؤ نہیں ہجر عطا کرنے پر
ہم تو اس کرب کو بس کرب نما مانتے ہیں
زرد پتے کی طرح تنہا پڑا ہوں لیکن
تیری نسبت سے مجھے لوگ ہرا مانتے ہیں
ہوش میں کیسے کسی بات سے انکار کریں
ہم تو وحشت میں بھی بس تیرا کہا مانتے ہیں
کاش یہ دکھ بھی دکھائی نہ سنائی دیتا
اور سب لوگ یہاں دیکھا سنا مانتے ہیں
(وقاص اللہ وقاص۔ خوشاب) 

غزل
اس پہلے کہ کوئی بات بنا لی جائے
کھڑکیاں کھول کے پھر تازہ ہوا لی جائے
شہرِ کم ظرف سے امید نہیں ہے پھر بھی
شہرِ کم ظرف سے یہ ہاتھ نہ خالی جائے 
مر گیا ہے کوئی معذور فُحاشی کرکے
بسترِ مرگ سے یہ لاش اٹھا لی جائے 
حسنِ ظن دیکھ کے معلوم ہوا ہے مجھ کو
چاق چوبند کوئی خانہ نہ خالی جائے
جس طرف سے کوئی انسان گزر کر آگیا
اُس طرف بھی میری تحریر لگا لی جائے
چاہتا ہے کہ محبت میں فنا ہو یہ ندیمؔ
بغض و کینہ کی یہ دیوار گرا لی جائے
(ندیم ملک ۔کنجروڑ، نارووال)

غزل
چمن میں جس کے لئے صف بہ صف بہاریں ہیں 
اکیلا شخص ہے چاروں طرف بہاریں ہیں 
جدھر سے گزرے معطر کرے وہ رستوں کو 
بدن سے اس کے ہوئی جیسے لف بہاریں ہیں 
ہیں نغمہ ریز ہوائیں تو پھول ہیں کھلتے
بجاتی کس کی محبت میں دف بہاریں ہیں 
تمہارا خوف خزاؤں پہ طاری ہے ورنہ 
ہمیں یقین ہے ان کا ہدف بہاریں ہیں
وہ جس کو چُھو لے اسے غیرتِ گلاب کرے
اسی کے لمس سے سب باشرف بہاریں ہیں
ہمارا موسمی معیار ہے الگ اپنی
مدینہ، کرب و بلاو نجف بہاریں ہیں
جمیل ؔمیں نے جو پوچھا یہ گوہر نایاب
زبانِ حال سے بولا صدف بہاریں ہیں 
(صادق جمیل ۔لاہور)

غزل
فلک پہ جیسے تارے اڑتے رہتے ہیں 
آنکھ میں خواب تمہارے اڑتے رہتے ہیں
تجھ بن یوں رہتے ہیں جیسے دریا پر
پنچھی پیاس کے مارے اڑتے رہتے ہیں 
تم جب ہونے کا احساس دلاتے ہو
دل سے خوف ہمارے اڑتے رہتے ہیں
کچھ آہیں تو ایسے اٹھتی ہیں، جیسے
درگاہوں پر نعرے اڑتے رہتے ہیں 
شعروں تک اربابؔ کا کوئی زور نہیں 
اس کی سمت ہی سارے اڑتے رہتے ہیں 
(ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو، گوجرانوالہ)

غزل
آج بھی وہ شخص شامل ہے مرے ایمان میں 
دیکھ کر آتی ہے جس کو جان میری جان میں 
ہے خزاؤں کے دنوں میں بھی بہاروں کا سماں 
پھول کھلنے لگ گئے ہیں عشق کے گلدان میں 
اس طرح یادوں میں تیری دل سلگتا ہے مرا 
جل رہی ہو اک چتا جیسے کسی شمشان میں 
باپ کی دی ہر سہولت تھی میسر کل تلک 
مشکلیں اب بڑھ رہی ہیں حلقۂ آسان میں 
لگ سکیں نہ پار یارو خواہشوں کی کشتیاں 
پھنس گئیں یوں غربت و افلاس کے طوفان میں 
امنؔ اس کے بخت پر تو رشک آتا ہے مجھے 
تُو بنا مانگے ملا ہے جس کو یوں ہی دان میں 
(امن علی امن۔ پاک پتن )

غزل
بغض، کینہ نہ تری ذات کے اندر آئے 
بات تب ہے کہ جو اندر ہے وہ باہر آئے 
حکم مانا نہ پیمبر کا جنہوں نے وہ لوگ 
لوٹ کے آئے بھی تو بن کے وہ بندر آئے
یار آئے جو مرے گھر تو یہ سمجھوں جیسے 
شامِ غربت میں سہارے کو قلندر آئے 
بات کرتے ہیں عداوت کی وہ ہے بعد کی بات 
پہلے دشمن مرے قد کے تو برابر آئے 
جوش وحشت میں بھی بیمار یہی کہتا تھا 
راحتِ دل کے لئے شوخ ستمگر آئے 
خاک ہونا ہی پڑے گا تجھے بھی زعم نہ کر 
ورنہ کیا کیا تھے زمانے میں سکندر آئے 
ایک ہی رات میں سب حال نہ پوچھو شائق ؔ
کیسے ممکن ہے کہ کوزے میں سمندر آئے 
(شائق سعیدی ،رحیم یار خان)

غزل
عجب اب زمانے کو ہم دیکھتے ہیں
تعصب میں ڈوبے قلم دیکھتے ہیں
بہت خود غرض اب ہوئے اہلِ دنیا
نکلتا بھلائی کا دم دیکھتے ہیں
وہ اگلا زمانہ ہی اچھا تھا لوگو
شرافت کے اب سَر قلم دیکھتے ہیں
چلن ہو فقیری، نظر ہو عقابی
ابھی لوگ جاہ و حشم دیکھتے ہیں
کبھی باغ و باغیچہ ہوتا جہاں تھا
وہاں خاک کے اب اٹم دیکھتے ہیں
نبھانے کی تم نے جو کھائی کبھی تھی
چلو آج ہم وہ قسم دیکھتے ہیں
بجھی زندگانی میں قاضی ؔابھی ہم
تیری زلف سے پیچ و خم دیکھتے ہیں
(قاضی محمد آصف۔ کراچی)

غزل
نہیں آئے گا وہ واپس خدارا بھول جاؤ اب
بھنور کی زد میں آئے ہو کنارا بھول جاؤ اب
اگرچہ زندگانی میں خسارے ہی خسارے ہیں
دلاتا وہ دلاسہ ہے خسارا بھول جاؤ اب
وہ مجھ سے آ کے کہتا ہے میں تیرا ہو نہیں سکتا
کیا جو تھا کبھی میں نے اشارا بھول جاؤ اب
کہا یہ خواب میں آ کر کہ میں تو لوٹ آیا ہوں
بناں میرے جو جو لمحہ گزارا بھول جاؤ اب
جو تارا رات کو تم دیکھتے تھے، مسکراتے تھے
وہ راتیں بھول جاؤ اب وہ تارا بھول جاؤ اب
وہ موجِ بیکراں جس میں تھا ساگرؔ کا جنوں شامل
نہیں مچلے گا پھر سے تم وہ دھارا بھول جاؤ اب
(رجب علی ساگر ۔پہاڑ پور، ڈیرہ اسماعیل خان)

غزل
ہے قبا کیسی ادھڑتی ہی چلی جاتی ہے
زندگانی ہے کہ جھڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایسا  کچھ  بھی  تو  کیا  تھا  نہ  بہو   بیٹی   نے
بے سبب ساس جھگڑتی ہی چلی جاتی ہے
صدقے واری بھی کئی بار گئی ہے بیگم
ضد پہ آ جائے تو لڑتی ہی چلی جاتی ہے
یہ جو رہتی ہے تو آباد وفا کے دم سے
دنیا اجڑی تو اجڑتی ہی چلی جاتی ہے
بے حسی چہرے کو بے رنگ بناتی ہے ضرور
گرد احساس پہ پڑتی ہی چلی جاتی ہے
ہم اسے اپنی شرافت سے، شرافت سے ملیں
اور دنیا کہ اکڑتی ہی چلی جاتی ہے
خون انسان کا توقیر گنوا بیٹھا ہے 
انسیت خاک میں گڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایک لڑکی کہ جو کانٹوں سے بچائے دامن
پر چنریا ہے کہ اڑتی ہی چلی جاتی ہے
بات کرتے ہوئے تو اس کو کبھی دیکھ رشیدؔ
جو رتن لفظوں کے جڑتی ہی چلی جاتی ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی بانی ایم کیوایم کے راستے پرتیزی سےگامزن ہیں، وہ جلد اپنے انجام کو پالیں گے، رانا ثنا اللہ
  • اللّٰہ کی مدد ہمیشہ مشکل سے پہلے پہنچ جاتی ہے: منیب بٹ
  • فریش گریجویٹس کے لیے ملازمت کی دنیا میں اینٹری مشکل ترین کام، وجوہات کیا ہیں؟
  • عامر خان کو 60 سال کی عمر میں محبت کرکے کیا ملا؟ ادکار کے انکشافات
  • چین اور پاکستان کا دوستانہ تعلق ہمارا اثاثہ ہے: وفاقی وزیر عطاء تارڑ
  • وزیراعظم کا جہاز جس ملک میں داخل ہوتاسلامی دی جاتی ہے،مریم اورنگزیب
  • کوچۂ سخن
  • ڈیجیٹل جزیروں پر تنہائی کا دور
  • وقت سے پہلے دفتر پہنچنے کی ’عادت‘، اسپین میں خاتون کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ گئے