Jasarat News:
2025-12-14@01:43:39 GMT

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنوبی ایشیا ہمیشہ تہذیبوں کے ملاپ، ثقافتی تنوع اور مذہبی ہم آہنگی کی پہچان رہا ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت میں ہندوتوا نظریے کے بڑھتے ہوئے اثرات نے خطے کی اس تاریخی شناخت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ دلوں میں خوف اور آنکھوں میں بے یقینی کے سائے تب گہرے ہوتے ہیں جب کوئی سیاسی نظریہ ریاستی طاقت، عدالتی ڈھانچے، انتخابی سیاست اور سفارتی پالیسی کو اس طرح اپنے تابع کر لے کہ اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگیں اور ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی سلامتی کے بارے میں نئے خدشات گھیر لیں۔ یہی صورتحال آج کے بھارت میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں ہندوتوا کا نظریہ صرف سیاسی مقاصد تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک توسیع پسندانہ سوچ کی صورت اختیار کر چکا ہے جو خطے کے امن، بقا اور معاشرتی استحکام کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ہندوتوا کا دعویٰ ہے کہ برصغیر صرف ہندو قوم کا خطہ ہے، اور باقی تمام مذاہب یا تو اس کے تابع ہیں یا پھر انہیں ثانوی حیثیت میں رہنا ہوگا۔ یہی سوچ بھارت کے داخلی ڈھانچے میں گہری سرایت کر چکی ہے جہاں شہریت قوانین سے لے کر تعلیم، میڈیا اور ثقافت تک ہر جگہ مذہبی قوم پرستی کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون نے پہلی بار مذہب کو شہریت کے تعین کا پیمانہ بنا کر نہ صرف آئینی مساوات کو مجروح کیا ہے بلکہ ملک گیر این آر سی کے خدشے کے ساتھ یہ اندیشہ بھی گہرا ہو گیا ہے کہ لاکھوں مسلمان محض کاغذی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے شہریت کے پیچیدہ جال میں الجھ سکتے ہیں۔ اسی نظریے کی علامت ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مساجد کے انہدام، تاریخی ناموں کی تبدیلی، مسلم محلوں پر حملوں اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی نے بھارتی سماج کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ جب ایک ملک کے اندر عدم برداشت بڑھے تو اس کے اثرات لازماً سرحدوں سے باہر بھی محسوس ہوتے ہیں، اور یہی بات خطے کے امن کے لیے تشویشناک ہے۔

خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان، بنگلا دیش، نیپال اور سری لنکا اس خطے کی جغرافیائی و تہذیبی حقیقتوں کا حصہ ہیں، لیکن ہندوتوا کے نظریہ ساز انہیں ایک ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے غیر اعلانیہ تصور کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اس سوچ کو بھارتی سیاست میں جس طرح پذیرائی مل رہی ہے، وہ مستقبل میں علاقائی تنازعات کے خدشات کو بڑھاتی ہے۔ سرحدی جھڑپیں، سفارتی تناؤ، اور خطے میں اسلحے کی دوڑ کا بڑھنا اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ بیانات، بالاکوٹ واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا کا جنگی جنون، اور لداخ میں چین کے ساتھ محاذ آرائی کا ماحول اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ مذہبی قوم پرستی جب سیاسی فیصلوں پر غالب آ جائے تو امن کی راہیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کا ایک اہم پہلو بھارت کی عسکری حکمت عملی میں بھی جھلکتا ہے۔ دفاعی بجٹ میں سالانہ مسلسل اضافہ، جدید میزائل سسٹمز کی خریداری، اور خطے میں اسٹرٹیجک برتری کے دعوے ایک ایسے ملک کی تصویر دکھاتے ہیں جو دفاع کے نام پر جارحانہ طاقت کو ترجیح دے رہا ہے۔ سال 2025–26 کے لیے بھارت کی حکومت نے دفاع کے لیے کل بجٹ چھے لاکھ اکیاسی ہزار کروڑ روپے مقرر کیا ہے، جو موجودہ تبادلے کی شرح کے مطابق تقریباً 78.

3 بلین امریکی ڈالر بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف سرکاری طور پر باوثوق ہیں بلکہ معتبر تجزیاتی رپورٹوں سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔

دفاعی ماہرین کے مطابق یہ بجٹ حقیقت پسندانہ انداز میں بھارت کی عسکری ضروریات اور خطے میں اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کو مستحکم رکھنے کی نیت کے مطابق ہے، اور یہ کہنا کہ بھارتی دفاعی بجٹ تقریباً 78–79 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ جب ایک ملک اس حد تک عسکری طاقت پر انحصار بڑھے اور اس کے فیصلے مذہبی قوم پرستی کے زیر ِ اثر ہوں تو یہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر بیانات، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں اور کنٹرول لائن پر مسلسل اشتعال انگیزی خطے میں غیر یقینی کو بڑھاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ہندوتوا سیاست کا مرکزی محور بن چکا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیریوں کو مسلسل عسکری محاصرے، میڈیا بلیک آؤٹ، گرفتاریاں اور نقل و حرکت کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ہندوتوا نظریہ مقبوضہ کشمیر کو صرف جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مذہبی اور سیاسی علامت کے طور پر دیکھتا ہے، اور اسی لیے اس کے حل میں طاقت کے استعمال کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ مگر طاقت سے حل ہونے کے بجائے مسائل مزید پیچیدہ شکل اختیار کرتے ہیں، اور یہ صورتحال پاکستان سمیت پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ خطے کے امن کے لیے ایک اور بڑا خطرہ بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی ہے جسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ گائے کے نام پر قتل، مساجد پر حملے، مسلم کاروباروں کا بائیکاٹ، اور میڈیا میں مسلسل نفرت انگیز پروپیگنڈہ اقلیتوں کے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کر رہا ہے۔ جب ایک ملک اپنا سماجی توازن کھو بیٹھے تو اس کی خارجہ پالیسی بھی شدت پسندی کی طرف جھکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سفارتی زبان میں بھی سختی، الزام تراشی اور جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے کردار پر بھی سوالات اٹھا رہا ہے۔ خطے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہندوتوا کا سیاسی ماڈل ہندوستان کے آئین، جمہوریت اور سیکولر ریاست کے دعوے سے براہِ راست متصادم ہے۔ اگر اس نظریے کو لگام نہ دی گئی تو جنوبی ایشیا کی یہ بڑی ریاست اپنے اندر بھی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے اور بیرونی سطح پر بھی غیر ضروری تصادم کو جنم دے سکتی ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتصادی مفادات کے باوجود مذہبی قوم پرستی کو سیاسی سرپرستی دینا خطے کے امن کے ساتھ سنگین کھلواڑ ہے۔

امن کی راہ اسی وقت ہموار ہو سکتی ہے جب بھارت کے اندر آفاقی برابری، مذہبی آزادی اور آئینی اصولوں کی بحالی کو ترجیح دی جائے۔ خطے کے ممالک سفارتی سطح پر مکالمے کو مضبوط کریں، انتہاپسندانہ بیانیوں کو چیلنج کیا جائے، اقوامِ متحدہ کو مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے منصفانہ حل میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا، اور جنوبی ایشیا کی قیادت کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ امن، ترقی اور انسانی حقوق کے بغیر کوئی بھی نظریہ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، مستقل استحکام نہیں لا سکتا۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کو محدود کرنے اور خطے کے مستقبل کو محفوظ سمت میں لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں۔

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مذہبی قوم پرستی خطے کے امن بھارت کی کے ساتھ اور خطے کے لیے امن کے رہا ہے رہی ہے

پڑھیں:

افغانستان سے دہشت گردی کا نیا خطرہ اٹھ رہا ہے، وزیراعظم،پیوٹن اور اردوان سے ملاقات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251213-01-28

 

 

اشک آباد (خبر ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے، عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلیے دبائو ڈالے۔ترکمانستان کی مستقل غیر جانبداری کی 30 سالہ سالگرہ پر منعقدہ عالمی فورم سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ قطر، ترکیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران کے جنگ بندی کیلیے تعاون پر ممنون ہیں، تنازعات کا پر امن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی

ستون ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حمایت سے غزہ امن منصوبہ منظور ہوا، سلامتی کونسل کی قرارداد پاکستان کے وژن کی تائید ہے، آٹھ عرب اسلامی ممالک کے رکن کی حیثیت سے پاکستان کا امن مشن میں کردار ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دیرپا جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی ضروری ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ترکمانستان کو اسکی غیر جانبداری کی سالگرہ کے 30 سال مکمل ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں، اشک آباد کے شاندار شہر میں ہونا میرے لیے باعث مسرت ہے، سفید سنگ مرمر کی خوبصورتی اور ترکمان عوام کی گرمجوشی قابل تعریف ہے۔قبل ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کی صبح عالمی رہنمائوں کے ساتھ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت ’’یادگار غیرجانبداری‘‘ کا دورہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں یادگار غیرجانبداری پر پھول چڑھائے۔ اس موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان اور ترکمانستان کے صدر بردی محمدوف سمیت متعدد عالمی رہنما بھی موجود تھے جن سے وزیراعظم کا خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ ’’یادگار غیرجانبداری‘‘ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت ہے۔ فورم کے موقع پر وزیراعظم نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان، ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پیزشکیان،تاجک صدر امام علی رحمان اور کرغیزستان کے صدر سادر جپاروف سے غیر رسمی اور خوشگوار ملاقاتیں کیں۔اشک آباد میں منعقدہ فورم کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان اہم ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی تعاون اور سرمایہ کاری پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم نے پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور توانائی، پیٹرولیم، معدنیات، سیاسی و دفاعی تعاون اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں بڑھتی ہوئی شراکت داری کو سراہا۔وزیراعظم نے پاکستان میں بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری میں ترکی کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ظاہر کی جبکہ دونوں رہنماؤں نے جلد وزارتی سطح کے تبادلوں پر اتفاق کیا۔اس کے علاوہ ملاقات میں اسلام آباد، تہران، استنبول ریل نیٹ ورک کی بحالی پر بھی گفتگو ہوئی۔وزیراعظم نے غزہ میں امن کی کوششوں کیلئے صدر اردوان کی جرات مندانہ قیادت کو خراجِ تحسین پیش کیا اور افغانستان سے پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خدشات پر بھی بات چیت کی۔صدر ایردوان نے پاکستان کے ساتھ تعاون مزید بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ایرانی صدرپیزشکیان نے کہا کہ ایران پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ملاقات پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی اور برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتی ہے جو ان کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور عقیدے سے جڑے ہوئے ہیں۔دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے باقاعدہ اعلیٰ سطحی ملاقاتیں اور مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم نے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے لیے تہہ دل سے تہنیتی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی برادری کو درپیش بڑے چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی، غربت اور عدم مساوات دنیا کے بڑے خطرات ہیں۔پاکستان عالمی امن و سلامتی کے فروغ کیلیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔

 

 

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  • امریکی پالیسی میں صرف چین خطرہ ؟
  • رانا تنویر: نواز شریف کا نظریہ آج بھی سویلین سپرمیسی کا عکاس ہے
  • نواز شریف کا نظریہ آج بھی سویلین سپر میسی کا ہے: رانا تنویر
  • شدید گرمی بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے سنگین خطرہ بننے لگی: تحقیق
  • افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم
  • افغانستان سے دہشت گردی کا نیا خطرہ اٹھ رہا ہے، وزیراعظم،پیوٹن اور اردوان سے ملاقات
  • روس کی طرف سے یورپ پر حملے کا خطرہ، برطانیہ کا انتباہ جاری
  • افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہے‘ پاکستان
  • افغان سرزمین سے دہشتگردی ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے، پاکستان