طارق روڈ کراچی کے لبرٹی چوک پر جیسے ہی میں بینک میں جانے کے لیے مڑی، درمیانی عمر کی ایک عورت نے میرا راستہ روک لیا، یہ عورت لمبی سی گھیردار فراک اور سوسی کی رنگین شلوار پہنے ہوئے تھی اور گود میں تقریباً سات آٹھ ماہ کا بچہ تھا، جس کا ماتھا زخمی تھا اور دائیں ہاتھ پر ٹنکچر پایوڈین میں ڈوبی پٹیاں تھیں، سر پہ بھی کوئی پیلے رنگ کی دوا لگی ہوئی تھی، بچہ بے خبر سو رہا تھا۔
میں نے اس کے بغیر مانگے سو روپے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا، چند دن بعد اپنی کولیگ کے ساتھ صدر بوہری بازار جانا ہوا، تو مجھے وہی عورت نظر آئی، بچہ اس وقت بھی سو رہا تھا اور اسی طرح اس کے سر پہ پیلی دوا سے لپی ہوئی پٹیاں بندھی تھیں، اب ٹانگ اور پیٹ بھی زخمی تھے۔ وہ تو مجھے نہیں پہچانی لیکن مجھے وہ یاد تھی۔ وہ جیسے ہی میری طرف بڑھی دکاندار نے اسے جھڑک کر پیچھے ہٹایا۔ وہ کچھ دور جا کر کھڑی ہوگئی، میں نے اپنی ساتھی سے کہا کہ جب یہ طارق روڈ پہ نظر آئی تھی تو سر پہ اور ہاتھ پہ پٹی بندھی تھی اور آج۔۔۔۔
’’باجی! یہ عورت مکار ہے، بچہ زخمی بالکل نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی جھوٹے زخموں کی پٹیاں باندھ کر بھیک مانگتی ہے۔‘‘ دکاندار نے بتایا۔ مجھے کچھ تجسس ہوا، میں نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اس عورت کی طرف بڑھی اور اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ وہ تو جیسے منتظر تھی، فوراً میری طرف لپکی تو میں نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔
’’ یہ چوٹ کیسے لگی اور تم اسے ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں لے کر گئیں؟‘‘’’ باجی! اس کا پیٹ اور ٹانگ بلی نے پنجہ مار کر زخمی کر دیے، ڈاکٹر روز دو سو روپے پٹی بدلنے کے لیتا ہے۔‘‘’’ذرا پٹی کھول کر تو دکھاؤ، میرے ساتھ جو باجی ہیں، وہ ڈاکٹر ہیں۔ (میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا)۔ ’’تم ہمارے ساتھ کلینک چلو، ہم علاج کریں گے اور تمہیں آنے جانے کا کرایہ بھی دیں گے۔‘‘ بس اتنا سننا تھا کہ وہ یک دم وہاں سے چلی گئی اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔
ایک شخص کو سڑک کے کنارے اکڑ کر بیٹھے دیکھا اور آپ نے بھی کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا ہوگا۔ ایک ٹانگ نارمل اور دوسری ہاتھی کی ٹانگ کی طرح موٹی تازی جس پر کوئی دوا لگی ہوئی تھی، نظر بھر دیکھنے کے بعد ہر کوئی سامنے رکھے ہوئے برتن میں نوٹ ڈالتا جا رہا تھا۔ اس بیماری کو ’’فیل پا‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ہاتھی کی ٹانگ۔ تحقیق پر پتا چلا کہ کچھ ادویات اور کیمیکل ایسے ہوتے ہیں جن کو لگانے سے جسم وقتی طور پر سوج جاتا ہے۔
ملیر سے نرسری آتے ہوئے ناتھا خان گوٹھ پر نو دس سالہ لڑکی ایک تیرہ سالہ لڑکے کے ساتھ بھیک مانگتی نظر آتی تھی، جیسے ہی گاڑی رکتی وہ لپک کر مانگنے کے لیے آگے بڑھتی، میں ذاتی طور پر بھیک دینے کے خلاف ہوں کہ اس طرح گداگری میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اس لڑکی کی ایک آنکھ باہر نکلی ہوئی تھی۔
یہ منظر بڑا تکلیف دہ لگتا تھا، اسی لیے نہ چاہتے ہوئے بھی میں اور میری دوست اسے کچھ نہ کچھ ضرور تھما دیتے۔ اس کا آدھا چہرہ جلا ہوا تھا، آنکھ باہر نکلی ہوئی تھی، چیچک نے اسے اور بھیانک بنا دیا تھا، وہ ہر گاڑی اور ہر شخص کے پیچھے دوڑتی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد میرا ٹرانسفر دوسرے کالج میں ہو گیا، وہ راستہ ختم ہو گیا، ایک دفعہ گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج کراچی میں ایک فنکشن میں شرکت کے لیے گئی تو واپسی میں مجھے بے اختیار وہ لڑکی یاد آگئی، میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ناتھا خان پُل کے پاس گاڑی ذرا آہستہ کر دے۔
اس نے ایسا ہی کیا، میں نے نظر دوڑائی تو وہ فٹ پاتھ پہ بیٹھی تھی، میں نے اسے قریب بلایا اور اس سے پوچھا کیا تم ہمیں پہچانتی ہو؟ وہ کرب سے بولی۔ ’’نہیں جی‘‘ میں نے اسے یاد دلایا کہ ہم لوگ تمہیں پیسے بھی دیتے تھے اور ہماری ایک ساتھی تمہارے لیے چاکلیٹ اور ٹافیاں بھی لاتی تھیں۔ یہ سنتے ہی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’باجی! آپ لوگ کدھر چلے گئے تھے؟‘‘ وہ بولی۔ میں نے اسے گاڑی میں بٹھا لیا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری آنکھ کیسے خراب ہوئی اور کسی نے تمہارا علاج کیوں نہیں کروایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ پہلے تو وہ چپ ہوگئی، جب میں نے سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں دیا تو اس کی آنکھ سے آنسو ٹپک پڑا اور وہ بولی۔’’میرے سوتیلے باپ نے تیزاب پھینک دیا تھا سوتے میں، تاکہ مجھے بھیک زیادہ ملے۔‘‘ میں لرز گئی۔ ’’اور تمہاری ماں نے کچھ نہیں کیا؟‘‘ اس کی پلکوں پہ آنسو ٹھہر گئے۔’’میری ماں کسی دوسرے فقیر کے ساتھ چلی گئی، کیونکہ میرا سوتیلا باپ اسے مارتا بہت تھا۔‘‘ اس نے بتایا۔’’نہیں، وہ جس کے ساتھ گئی اس نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘
’’تم میرے ساتھ چلو، میں تمہارا علاج بھی کراؤں گی اور تمہیں اپنے پاس رکھوں گی بھی۔‘‘ میں نے کہا۔ یہ سنتے ہی وہ تیزی سے گاڑی سے نیچے اتر گئی۔ اترنے کے بعد اس نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ اس کا سوتیلا باپ ہے، جو ادھر ہی دیکھ رہا ہے۔آئے دن اخبارات میں خبریں چھپ رہی ہیں کہ عمرے کے ویزے پر بھکاری بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آنے جانے کا کرایہ نکال کر انھیں ٹھیک ٹھاک بھیک مل جاتی ہے۔
جانے والے افراد بتاتے ہیں کہ ہر مسجد کے باہر گداگر موجود ہوتے ہیں جس سے پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ کئی بار مسافروں میں سے ایسے لوگوں کو آف لوڈ کیا گیا جو عمرے کی آڑ میں دراصل بھیک مانگنے جا رہے تھے۔ ان گداگروں کی اکثریت سرائیکی پٹی سے جاتی ہے۔ رحیم یار خان اور دوسرے علاقوں سے اکثریت عمرے کے ویزے حاصل کرتی ہے۔
ایجنٹ ان کو ویزا دلاتے ہیں اور یہ پوری شان سے پاکستان کو بدنام کرتے ہیں۔ پاکستان میں گداگری کی لعنت اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب لوگ یہ تہیہ کر لیں کہ وہ اب کسی کو بھیک نہیں دیں گے۔ لوگ ثواب کمانے کی خاطر بھکاریوں کو پیسے دیتے ہیں۔
وہ یہ نہیں سوچتے کہ بھکاری کو رقم دینے کے بجائے ایسے محنت کش سے ضرور کچھ خرید لیں جو محنت سے اپنی روزی کما رہا ہے۔ مکئی اور چنے بیچنے والے، پھول اور گجرے بیچنے والے سرفہرست ہیں جو گلی گلی اور سڑک سڑک پھر کر روزی کماتے ہیں بلاشبہ یہ صحیح حق دار ہیں انھیں دیجیے نہ کہ پیشہ ور بھکاری کو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ سو روپے اور اس اور تم
پڑھیں:
Self Sabotage
ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔
سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔
وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔
اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔
کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔
کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔
کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔
میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔
ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔
تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔
آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔
سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔
ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔