Express News:
2025-11-04@06:13:11 GMT

گداگر مافیا

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

طارق روڈ کراچی کے لبرٹی چوک پر جیسے ہی میں بینک میں جانے کے لیے مڑی، درمیانی عمر کی ایک عورت نے میرا راستہ روک لیا، یہ عورت لمبی سی گھیردار فراک اور سوسی کی رنگین شلوار پہنے ہوئے تھی اور گود میں تقریباً سات آٹھ ماہ کا بچہ تھا، جس کا ماتھا زخمی تھا اور دائیں ہاتھ پر ٹنکچر پایوڈین میں ڈوبی پٹیاں تھیں، سر پہ بھی کوئی پیلے رنگ کی دوا لگی ہوئی تھی، بچہ بے خبر سو رہا تھا۔

 میں نے اس کے بغیر مانگے سو روپے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا، چند دن بعد اپنی کولیگ کے ساتھ صدر بوہری بازار جانا ہوا، تو مجھے وہی عورت نظر آئی، بچہ اس وقت بھی سو رہا تھا اور اسی طرح اس کے سر پہ پیلی دوا سے لپی ہوئی پٹیاں بندھی تھیں، اب ٹانگ اور پیٹ بھی زخمی تھے۔ وہ تو مجھے نہیں پہچانی لیکن مجھے وہ یاد تھی۔ وہ جیسے ہی میری طرف بڑھی دکاندار نے اسے جھڑک کر پیچھے ہٹایا۔ وہ کچھ دور جا کر کھڑی ہوگئی، میں نے اپنی ساتھی سے کہا کہ جب یہ طارق روڈ پہ نظر آئی تھی تو سر پہ اور ہاتھ پہ پٹی بندھی تھی اور آج۔۔۔۔

’’باجی! یہ عورت مکار ہے، بچہ زخمی بالکل نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی جھوٹے زخموں کی پٹیاں باندھ کر بھیک مانگتی ہے۔‘‘ دکاندار نے بتایا۔ مجھے کچھ تجسس ہوا، میں نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اس عورت کی طرف بڑھی اور اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ وہ تو جیسے منتظر تھی، فوراً میری طرف لپکی تو میں نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔

’’ یہ چوٹ کیسے لگی اور تم اسے ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں لے کر گئیں؟‘‘’’ باجی! اس کا پیٹ اور ٹانگ بلی نے پنجہ مار کر زخمی کر دیے، ڈاکٹر روز دو سو روپے پٹی بدلنے کے لیتا ہے۔‘‘’’ذرا پٹی کھول کر تو دکھاؤ، میرے ساتھ جو باجی ہیں، وہ ڈاکٹر ہیں۔ (میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا)۔ ’’تم ہمارے ساتھ کلینک چلو، ہم علاج کریں گے اور تمہیں آنے جانے کا کرایہ بھی دیں گے۔‘‘ بس اتنا سننا تھا کہ وہ یک دم وہاں سے چلی گئی اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔

ایک شخص کو سڑک کے کنارے اکڑ کر بیٹھے دیکھا اور آپ نے بھی کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا ہوگا۔ ایک ٹانگ نارمل اور دوسری ہاتھی کی ٹانگ کی طرح موٹی تازی جس پر کوئی دوا لگی ہوئی تھی، نظر بھر دیکھنے کے بعد ہر کوئی سامنے رکھے ہوئے برتن میں نوٹ ڈالتا جا رہا تھا۔ اس بیماری کو ’’فیل پا‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ہاتھی کی ٹانگ۔ تحقیق پر پتا چلا کہ کچھ ادویات اور کیمیکل ایسے ہوتے ہیں جن کو لگانے سے جسم وقتی طور پر سوج جاتا ہے۔

ملیر سے نرسری آتے ہوئے ناتھا خان گوٹھ پر نو دس سالہ لڑکی ایک تیرہ سالہ لڑکے کے ساتھ بھیک مانگتی نظر آتی تھی، جیسے ہی گاڑی رکتی وہ لپک کر مانگنے کے لیے آگے بڑھتی، میں ذاتی طور پر بھیک دینے کے خلاف ہوں کہ اس طرح گداگری میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اس لڑکی کی ایک آنکھ باہر نکلی ہوئی تھی۔

یہ منظر بڑا تکلیف دہ لگتا تھا، اسی لیے نہ چاہتے ہوئے بھی میں اور میری دوست اسے کچھ نہ کچھ ضرور تھما دیتے۔ اس کا آدھا چہرہ جلا ہوا تھا، آنکھ باہر نکلی ہوئی تھی، چیچک نے اسے اور بھیانک بنا دیا تھا، وہ ہر گاڑی اور ہر شخص کے پیچھے دوڑتی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد میرا ٹرانسفر دوسرے کالج میں ہو گیا، وہ راستہ ختم ہو گیا، ایک دفعہ گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج کراچی میں ایک فنکشن میں شرکت کے لیے گئی تو واپسی میں مجھے بے اختیار وہ لڑکی یاد آگئی، میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ناتھا خان پُل کے پاس گاڑی ذرا آہستہ کر دے۔

اس نے ایسا ہی کیا، میں نے نظر دوڑائی تو وہ فٹ پاتھ پہ بیٹھی تھی، میں نے اسے قریب بلایا اور اس سے پوچھا کیا تم ہمیں پہچانتی ہو؟ وہ کرب سے بولی۔ ’’نہیں جی‘‘ میں نے اسے یاد دلایا کہ ہم لوگ تمہیں پیسے بھی دیتے تھے اور ہماری ایک ساتھی تمہارے لیے چاکلیٹ اور ٹافیاں بھی لاتی تھیں۔ یہ سنتے ہی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’باجی! آپ لوگ کدھر چلے گئے تھے؟‘‘ وہ بولی۔ میں نے اسے گاڑی میں بٹھا لیا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری آنکھ کیسے خراب ہوئی اور کسی نے تمہارا علاج کیوں نہیں کروایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ پہلے تو وہ چپ ہوگئی، جب میں نے سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں دیا تو اس کی آنکھ سے آنسو ٹپک پڑا اور وہ بولی۔’’میرے سوتیلے باپ نے تیزاب پھینک دیا تھا سوتے میں، تاکہ مجھے بھیک زیادہ ملے۔‘‘ میں لرز گئی۔ ’’اور تمہاری ماں نے کچھ نہیں کیا؟‘‘ اس کی پلکوں پہ آنسو ٹھہر گئے۔’’میری ماں کسی دوسرے فقیر کے ساتھ چلی گئی، کیونکہ میرا سوتیلا باپ اسے مارتا بہت تھا۔‘‘ اس نے بتایا۔’’نہیں، وہ جس کے ساتھ گئی اس نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘

’’تم میرے ساتھ چلو، میں تمہارا علاج بھی کراؤں گی اور تمہیں اپنے پاس رکھوں گی بھی۔‘‘ میں نے کہا۔ یہ سنتے ہی وہ تیزی سے گاڑی سے نیچے اتر گئی۔ اترنے کے بعد اس نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ اس کا سوتیلا باپ ہے، جو ادھر ہی دیکھ رہا ہے۔آئے دن اخبارات میں خبریں چھپ رہی ہیں کہ عمرے کے ویزے پر بھکاری بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آنے جانے کا کرایہ نکال کر انھیں ٹھیک ٹھاک بھیک مل جاتی ہے۔

جانے والے افراد بتاتے ہیں کہ ہر مسجد کے باہر گداگر موجود ہوتے ہیں جس سے پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ کئی بار مسافروں میں سے ایسے لوگوں کو آف لوڈ کیا گیا جو عمرے کی آڑ میں دراصل بھیک مانگنے جا رہے تھے۔ ان گداگروں کی اکثریت سرائیکی پٹی سے جاتی ہے۔ رحیم یار خان اور دوسرے علاقوں سے اکثریت عمرے کے ویزے حاصل کرتی ہے۔

ایجنٹ ان کو ویزا دلاتے ہیں اور یہ پوری شان سے پاکستان کو بدنام کرتے ہیں۔ پاکستان میں گداگری کی لعنت اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب لوگ یہ تہیہ کر لیں کہ وہ اب کسی کو بھیک نہیں دیں گے۔ لوگ ثواب کمانے کی خاطر بھکاریوں کو پیسے دیتے ہیں۔

وہ یہ نہیں سوچتے کہ بھکاری کو رقم دینے کے بجائے ایسے محنت کش سے ضرور کچھ خرید لیں جو محنت سے اپنی روزی کما رہا ہے۔ مکئی اور چنے بیچنے والے، پھول اور گجرے بیچنے والے سرفہرست ہیں جو گلی گلی اور سڑک سڑک پھر کر روزی کماتے ہیں بلاشبہ یہ صحیح حق دار ہیں انھیں دیجیے نہ کہ پیشہ ور بھکاری کو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ساتھ سو روپے اور اس اور تم

پڑھیں:

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں لاہور سے ہوں، اس شہر سے جو دنیا بھر میں زندہ دلوں کے شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے:”جنّے لاہور نئیں ویکھیا، اوہ جمیا نئیں”— جس نے لاہور نہیں دیکھا، گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور صرف ایک شہر نہیں، ایک احساس ہے، ایک ترنگ ہے، ایک دھڑکن ہے جو کبھی نہیں رُکتی۔ یہاں کی زندگی دریا کی طرح رواں دواں ہے، جو دن رات بہتی رہتی ہے، رنگوں، گرمیِ جذبات اور توانائی سے لبریز۔ لاہوری لوگ حیرت انگیز طور پر ہر حالت میں خود کو ڈھالنے اور مطمن رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسرت پاتے ہیں، تہواروں، شادیوں یہاں تک کہ کرکٹ کی کامیابیوں کو بھی بے پناہ جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ وہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ لاہور کے لوگ مہمان نواز، کشادہ دل اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ باغوں، پارکوں اور خوشگوار محفلوں سے محبت کرتے ہیں۔ مالی حیثیت چاہے جیسی بھی ہو، لاہوری لوگ اچھے کھانوں، صاف ستھرے لباس اور کشادہ دلی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔


مگر دل کی گہرائیوں سے ایک دکھ بھری بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ وہ لاہور جس میں میں پلا بڑھا — پھولوں اور خوشبوؤں کا شہر —اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹیں تشویش ناک ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور اکثر 300 سے تجاوز کر جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے ”انتہائی خطرناک” درجے میں آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لاہور میں سانس لینا خود ایک خطرہ بن چکا ہے۔ وہ ”سموگ” جو کبھی لاہوریوں کے لیے اجنبی لفظ تھا، اب ہر سال اکتوبر سے فروری تک شہر کو سیاہ چادر کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، پروازیں ملتوی ہو جاتی ہیں، اور اسپتالوں میں سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کے مریضوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔


مگر لاہور ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب لاہور کی صبحیں دھند سے روشن ہوتی تھیں، سموگ سے نہیں۔ جب شالامار باغ، جہانگیر کا مقبرہ، مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سورج کی کرنوں میں چمک اٹھتے تھے، نہ کہ گرد آلود دھوئیں کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ کبھی لاہور اور اس کے نواحی علاقے سرسبز و شاداب ہوا کرتے تھے۔ شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ، رائے ونڈ اور جلو اور برکی کے ارد گرد کھیت لہلہاتے تھے، درختوں کی چھاؤں تھی، اور ہوا میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو بستی تھی۔ راوی کا پانی اگرچہ کم تھا، مگر شہر کے لیے زندگی کا پیغام لاتا تھا۔ ان دنوں جب کسان فصل کٹنے کے بعد بھوسہ جلاتے بھی تھے تو شہر کی فضا پھر بھی صاف رہتی تھی۔ دھواں ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا، کیونکہ فضا میں سبزہ اور درخت اس کا بوجھ جذب کر لیتے تھے۔


پھر کیا بدلا؟ بدلاو? آیا بے لگام شہری توسیع اور غیر ذمہ دارانہ منصوبہ بندی کے ساتھ۔ پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی اور اب ایک کروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو شہر کبھی کوٹ لکھپت اور مغلپورہ پر ختم ہو جاتا تھا، وہ اب بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس فیز ٨ اور اس سے بھی آگے تک پھیل چکا ہے۔ زرعی زمینیں رہائشی اسکیموں میں تبدیل ہو گئیں۔ ہر نئی اسکیم کے ساتھ سڑکیں، گاڑیاں اور پلازے تو بڑھ گئے مگر درخت، کھیت اور کھلی جگہیں کم ہوتی گئیں۔ منافع کے لالچ میں منصوبہ سازوں نے ماحولیاتی توازن کا خیال نہیں رکھا۔ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا کوئی مؤثر نظام نہ بن سکا، صنعتوں کو بغیر کسی اخراجی کنٹرول کے چلنے کی اجازت دی گئی، اور شہر کے ”سبز پھیپھڑوں” کو آہستہ آہستہ بند کر دیا گیا۔


ہمارے ترقی کے مظاہر جیسے میٹرو بس یا اورنج لائن ٹرین عام شہری کی نقل و حمل کے لیے سہولت تو ہیں، مگر ان کی قیمت ماحول نے ادا کی۔ کنکریٹ کے بڑے ڈھانچے تو تعمیر ہوئے مگر ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ سڑکوں کی توسیع کے لیے درخت کاٹے گئے مگر دوبارہ لگائے نہیں گئے۔ ماہرین کے مطابق راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ، اگرچہ بلند نظر منصوبہ ہے، مگر اس نے لاہور کے قدرتی ماحولیاتی توازن کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ پانی کے قدرتی راستے سکڑنے سے ہوا کی گردش متاثر ہوئی اور سموگ میں اضافہ ہوا۔


آج لاہور کے لوگ — خصوصاً بچے اور بزرگ — اس بگاڑ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، برونکائٹس اور الرجی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ میو، سروسز اور جناح اسپتالوں کے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سردیوں میں فضائی آلودگی سے متعلق مریضوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ طلبہ ”سموگ ڈیز” پر گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ وہ شامیں جو کبھی فوڈ اسٹریٹ، گلشنِ اقبال یا ریس کورس پارک میں ہنسی خوشی گزرتی تھیں، اب گھروں کے اندر بند کھڑکیوں کے پیچھے گزر رہی ہیں تاکہ آلودہ فضا سے بچا جا سکے۔
یہ درست ہے کہ ترقی اور جدیدیت بڑھتی آبادی کے لیے ضروری ہیں، مگر بے منصوبہ ترقی ایک سست زہر ہے۔ دنیا میں لاہور سے کہیں پرانے اور زیادہ آباد شہر جیسے لندن، پیرس اور بیجنگ کبھی شدید آلودگی کا شکار تھے مگر انہوں نے نظم و ضبط اور بصیرت سے حالات بدل دیے۔ مثال کے طور پر بیجنگ نے صنعتوں پر سخت قوانین لاگو کیے، فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا اور برقی ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا۔ نتیجتاً وہاں کی فضا میں نمایاں بہتری آئی۔ سنگاپور اور سیول نے بھی شہری منصوبہ بندی میں فطری سبزے کو شامل کیا، تاکہ ہر نئی تعمیر کے ساتھ پارک اور سبز علاقے بھی قائم ہوں۔


لاہور بھی ایسا کر سکتا ہے۔ شہر کو ایک جامع ماحولیاتی حکمتِ عملی درکار ہے — جو عملی، مستقل اور قابلِ عمل ہو۔ سال میں ایک بار درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی، اسے شہری عادت بنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دے، صنعتی اخراج کے لیے سخت قوانین بنائے، اور شہر کے قریب کھیتوں میں بھوسہ جلانے پر مکمل پابندی لگائے۔ صنعتی علاقے رہائشی آبادیوں سے دور منتقل کیے جائیں۔ راوی اور دیگر آبی گزرگاہوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ فطری توازن بحال ہو۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا — کوڑا کم پیدا کریں، توانائی بچائیں، اور صفائی کو شعار بنائیں۔


لاہور محض ایک جگہ نہیں، تاریخ کا ایک زندہ باب ہے۔ اس نے مغلوں کی شان، صوفیوں کی دانش اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں دیکھی ہیں۔ یہ پاکستان کا ثقافتی دل ہے جہاں شاعری، فن، اور مہمان نوازی ایک ہی روح میں ڈھل جاتے ہیں۔ مگر آج وہ روح سانس لینے کو ترس رہی ہے۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ لاہور زندہ دلوں کا شہر بنا رہے تو سب سے پہلے اسے صاف ہوا اور کھلے آسمانوں کا شہر بنانا ہوگا۔ لاہور کے باغوں کی خوشبو، گلیوں کی لے اور لوگوں کی مسکراہٹیں دھوئیں کے پردوں میں گم نہیں ہونی چاہیئں۔ عمل کا وقت آ چکا ہے — نہ کل، نہ اگلے سال، بلکہ ابھی — تاکہ آنے والی نسل فخر سے کہہ سکے:
”ہاں، ہم نے لاہور دیکھا ہے، اور یہ اب بھی وہی شہر ہے جو کبھی مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔”

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کیلئے عرب اور مسلم ممالک کا اجلاس پیر کو ہوگا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • کراچی کے فٹ پاتھوں پر قبضے،کے ایم سی افسران کا دھندا جاری
  • کوہسار زون میں لینڈ مافیا سرکاری زمین پر قبضے میں مصروف
  • پنجاب میں قبضہ مافیا، دھوکا دہی اور جعلسازوں کو سخت سزائیں کیلیے قوانین تیار
  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • ہر کیس کا فیصلہ 90 روز میں، قبضہ مافیا کا مستقل خاتمہ کر دیا: عظمیٰ بخاری
  • کراچی، مجبوری نے عورت کو مرد بنا دیا، مگر غیرت نے بھیک مانگنے نہیں دی
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس کی منظوری سے مریم نواز نے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا ہے: عظمیٰ بخاری
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس سے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا: عظمیٰ بخاری
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا