اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جنوری 2025ء) تلخ سماجی حقائق اور لاہور کی زندگی کو دلفریب نثر میں پیش کرنے والے مصنف آزاد مہدی 'لاہور کے قصہ گو‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ 'میرے لوگ‘، 'دلال‘، 'اس مسافر خانے میں‘ اور 'ایک دن کی زندگی‘ جیسے ناولوں سے شہرت پانے والے آزاد مہدی کا آخری ناول گزشتہ برس اکتوبر میں 'پِیرُو‘ کے نام سے شائع ہوا۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے آزاد مہدی کہتے ہیں، ”لاہور کے علاقے شاہدرہ میں گزشتہ منگل ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھنے والی تقریباً دو سو خواتین نے میرے گھر پر دھاوا بول دیا۔ دھمکیوں اور گالیوں سے خوفزدہ ہم نے فوراً پولیس کو مدد کے لیے بلایا۔"

وہ کہتے ہیں، ”پریشر کے بعد میں نے چند کاپیاں ہجوم کے حوالے کر دیں، جنہوں نے میرے گھر کے سامنے انہیں آگ لگا دی، یوں کسی حد تک ان کی آتش انتقام ٹھنڈی ہوئی۔

(جاری ہے)

"

آزاد مہدی کہتے ہیں، ”میں شاہدرہ کا جدی پشتی رہائشی ہوں۔ اپنے اردگرد بکھری زندگی کے ریزے جوڑ کر آئینہ تخلیق کرتا ہوں، جو سماج کو اس کی شکل دکھاتا ہے۔ لاہور کی ثقافتی و سماجی زندگی کی ہمیشہ حقیقت سے قریب عکاسی کی کوشش کی۔ ناول میں استعمال کی گئی زبان پر ایک کمیونٹی کو اعتراض تھا۔"

وہ کہتے ہیں، ”مجھے افسوس ہے کہ میری تحریر کی وجہ سے کسی کے جذبات مجروح ہوئے، جس پر میں تحریری اور تقریری طور پر معافی مانگ چکا ہوں۔

مگر ہجوم مصنف سے لکھنے کا حق کیسے چھین سکتا ہے؟" ’بادشاہ ہیرے جواہرات تو ساتھ لے جاتے ہیں لیکن اپنے خد و خال پیچھے چھوڑ جاتے ہیں‘

مصنف حسنین جمیل آزاد لکھتے ہیں کہ ”آزاد مہدی شاہدرہ کا داستان گو ہے، اردو فکشن میں وہ دیہی اور شہری لاہور کی کہانیاں لے کر چلتا ہے۔ وہ رہتا لاہور کے مضافات میں ہے، نوکری شہر کے اندر کرتا ہے، اس طرح اس کو دو مختلف طرز زندگی دیکھنے کو ملتے ہیں، آزاد مہدی کمال مہارت سے ان کرداروں کو اپنے ناولوں کا حصہ بنا لیتا ہے۔

"

پِیرُو کی کہانی بھی شاہدرہ اور قدیم لاہور کے ثقافتی نقش و نگار سے شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ سماجی حقیقت نگاری کا پہلو غالب آنے لگتا ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے آزاد مہدی کہتے ہیں، ”مغل اور سکھوں کا دور بظاہر ختم ہو گیا لیکن وہ موجود ہے، پرانی عمارتوں کی صورت میں اسے سب دیکھتے ہیں مگر ہمارے رویوں اور خون میں بھی ان کی جھلک ہے۔

بادشاہ ہیرے جواہرات تو ساتھ لے جاتے ہیں لیکن اپنے خد و خال پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ میں ان خد و خال اور رویوں کو اپنے فکشن کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔"

’’آج‘‘ کے ذریعے ادب کو عوامی بنانے کی کوشش

وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”ایک خاندان مغل حکمرانوں کے قبروں کا باغبان تھا۔ وہ آج بھی لاہور میں موجود ہے۔

ان میں مغلوں سے تعلقات کی خوشبو اب بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مچھیرے ہیں، وہ خاندان جو تین تین سو سال سے اسی پیشے سے وابستہ ہیں اور ہمارے قریب رہتے ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت دلچسپ لگتا ہے۔ بظاہر 'پِیرُو‘ ایک غریب باپ کی کہانی ہے لیکن وہ اپنے گرد بکھرے مختلف تاریخی پہلوؤں کو اپنی نظر سے دیکھتا اور دکھاتا چلا جاتا ہے۔" ناول متنازع کیوں ہوا اور اب کیا صورتحال ہے؟

ناول کے چند صفحات پر شاہدرہ کی ایک برادری ککے زئی کو تحفظات تھے کہ ان کے خاندان کی غلط منظر کشی کی گئی۔

ادبی و ثقافتی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے مصنف اشفاق عامر کہتے ہیں، ”جب سید نور نے 'چوڑیاں‘ فلم بنائی تو گجر ان کے پیچھے پڑ گئے تھے کہ ہماری برادری کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ 'پیرو‘ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ککے زئی برادری کو اعتراض ہے کہ ان کی معاشرت کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔"

وہ کہتے ہیں، ”مستنصر حسین تارڑ کے ناول 'خش و خاشاک زمانے‘ میں بھی ایک برداری 'سانسی‘ کا ذکر تھا، تب ایسا ردعمل نہ آیا۔

سید نور کا بھی کسی نے گھیراؤ نہیں کیا۔ اب یہ بھی حساس معاملہ بن چکا، جس پر زیادہ بات نہ کرنا بہتر ہے۔"

آزاد مہدی کہتے ہیں، ”میں نے آفر کی تھی کہ یہ صفحات آئندہ ایڈیشن سے نکال دیے جائیں گے۔ پولیس اور کچھ دوستوں کی مدد سے معاملہ کافی حد تک حل ہو گیا۔ مگر میں اپنے گھر میں محصور ہوں۔ خاص طور پر اپنی بیٹی کے حوالے سے خوفزدہ ہو گیا ہوں کہ انتقام لینے کی خاطر اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی جائے۔

"

موپاساں اور منٹو کا ‍‍‍‍‍‍‍’ایک مکالمہ‘

انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اس حملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لاہور پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد مہدی کے ”خاندان کو تحفظ فراہم کرے اور حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔"

یہ واقعہ بڑھتے سماجی عدم برداشت کے حوالے سے کیا بتاتا ہے؟

یہ ہماری جدید ادبی دنیا کا پہلا واقعہ ہے، جب کسی مصنف کے گھر پر ہجوم نے دھاوا بولا اور ناول کے نسخے جلا دیے گئے۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکریٹری جنرل مقصود خالق ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ہمارا معاشرے سے ڈائیلاگ ختم ہو گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کوئی مسئلہ بات چیت سے حل نہیں ہوتا۔ جس نے اپنی بات منوانی ہو، وہ ہجوم جمع کرتا ہے۔ یہ رویہ سیاست سے لے کر سماجی زندگی تک ہر جگہ نظر آتا ہے۔"

ضیا محی الدین: تالیاں بج رہی ہیں، آنسو بہہ رہے ہیں

اشفاق عامر کہتے ہیں، ”ایک وقت تھا، جب لیفٹ اور رائیٹ کی تقسیم عروج پر تھی، لیکن نظریاتی اختلاف جلاؤ گھیراؤ تک نہیں پہنچتا تھا۔

اب اختلاف بعد میں لیکن ڈنڈا پہلے نکلتا ہے۔"

پِیرُو کی ایک لائن ہے، ”آوازیں سڑکوں اور پٹڑیوں پر تھک کر گرتی جا رہی ہیں، کان اور سماعت یکجا نہیں ہو رہے، یہی قحط ہے۔"

ایسا لگتا ہے آزاد مہدی کا 'پِیرُو‘ اسی قحط کا شکار ہوا ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کرتے ہوئے لاہور کے کی کوشش ہو گیا

پڑھیں:

پوپ فرانسس کی میت کو کھلے تابوت میں منظرِعام پر لایا گیا؛ تصاویر وائرل

کیتھولک چرچ کے سربراہ کی آخری رسومات عام طور پر 6 دن تک چلتی ہیں۔ پوپ فرانسس کی آخری رسومات ابھی جاری ہیں جن کی تصاویر منظر عام پر آگئیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق رومن کیتھولک چرچ کے 266 ویں سربراہ پوپ فرانسس کو سرخ رنگ کے روایتی لباس میں تابوت کے اندر رکھا گیا۔

سادگی اختیار کرنے کے پوپ فرانسس کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ان کے لیے تابوت صنوبر، سیسہ اور بلوط کے بجائے سادہ لکڑی کا تیار کیا گیا تھا۔

پوپ فرنسس کے ہاتھ میں ان کی تسبیح بھی موجود تھی جب کہ ان کے سر پر روایتی تاج ٹوپی بھی پہنائی گئی تھی۔

ان کی آخری رسومات کی سب سے بڑی تقریب کل منعقد کی جائے گی جس میں عالمی رہنماؤں سمیت سیاست دان اور اہم شخصیات بھی شرکت کریں گے۔

پوپ فرانسس کو پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور موت سے قبل انھیں فالج ہوا اور پھر وہ کومے میں چلے گئے تھے۔

بعد ازاں 21 اپریل کو ان کے دل نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کی موت کی تصدیق ای سی جی کے ذریعے کی گئی تھی۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • انٹرنیٹ صارفین نے بھارتی دھمکیوں پر دلچسپ میمز بنا ڈالیں
  • پوپ فرانسس کی میت کو کھلے تابوت میں منظرِعام پر لایا گیا؛ تصاویر وائرل
  • لاہور: پنجاب حکومت کی طرف سے گلوبل ویلج میں 3 روزہ ثقافتی نمائنش
  • غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے پر اسپین کی تاکید!
  • ’جنگ ہو نہ ہو فلموں کے آئیڈیاز تو ملے‘، سوشل میڈیا پر پاک بھارت میمز وار
  • لاہور: بندوق کی نوک پر نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی، ویڈیوز بناکر بلیک میل کرنے والا رشتے دار گرفتار
  • ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘، پاکستان کے انڈیا کے خلاف اقدامات پر صارفین کے تبصرے
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • لوگ ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ میں ماہرہ خان جیسی دکھتی ہوں، سنیتا مارشل
  • اداکارہ عفت عمر نے ثقافتی مشیر بننے کی پیشکش ٹھکرا دی