اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاک فوج کی پہلی لیفٹیننٹ جنرل خاتون نگار جوہر کا کہنا ہے کہ خواتین کی تعلیم میرے دل کے قریب ہے۔اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ایسے معاشرے میں بڑی ہوئی جہاں صنفی تفریق ہے، یہاں لڑکیوں کی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جاتا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کا کہنا ہے کہ تعلیم کے ہنر کے باعث آج میں یہاں آپ کے سامنے موجود ہوں، بطور فوجی میں نے ملک کی خدمت کی، خواتین کی تعلیم کے لیے چیلنجز بہت ہیں لیکن ساتھ ہی مواقع بہت زیادہ ہیں۔نگار جوہر نے کہا کہ خواتین کی تعلیم قومی بجٹ اور قومی پالیسی میں ترجیح ہونی چاہیے، ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے معاشرے کے رویے کو چیلنج کرنا ہو گا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں فیصلہ اور پالیسی سازی میں خواتین کو شامل کرنا ہوگا۔

بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کے گھپلوں کا انکشاف

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: خواتین کی تعلیم نگار جوہر

پڑھیں:

بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی

حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟

جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔

سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟

بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔

اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟

یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔

بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔

کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
  • بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)
  • اسلام آباد میں پہلی بار ڈرون کیمروں، عرق گلاب اور فنائل سے صفائی آپریشن، 2500 سے زائد عملہ سرگرم
  • بلوچستان کی پہلی خاتون ڈسٹرکٹ اسپورٹس آفیسر نے تاریخ رقم کردی
  • وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہوکر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے: عمر ایوب
  • وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہو کر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے، عمر ایوب
  • اُزبکستان اور اُردن نے پہلی بار فیفا ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کرلیا
  • فلسطینی اس وقت آزمائش میں ہیں، عالم اسلام خاموش ہے، خواجہ آصف
  • سسرال میں پہلی عید الاضحیٰ؛ ماورا حسین کی قربانی کے بکروں کیساتھ تصاویر وائرل
  • ساحل کے سائے میں محرومیوں کی داستان