میرپورخاص: نہریں نکالنے کے خلاف مختلف جماعتوں کا بیداری مارچ
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
میرپورخاص: مختلف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے
میرپورخاص (نمائندہ جسارت) دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے خلاف مختلف جماعتوں کی جانب سے حیدرآباد سے میرپورخاص تک بیداری مارچ اور پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا گیا۔ احتجاج میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی، مسلم لیگ فنگشنل، جی ڈی اے میں شامل جماعتیں، پی ٹی آئی، قومی عوامی تحریک، جماعت اسلامی، وکلاء، تاجروں و دیگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ سے 6 نئی نہریں نکالنے کے فیصلے کے خلاف حیدرآباد سے میرپورخاص پریس کلب تک بیداری مارچ نکالا گیا اور پریس کلب کے سامنے احتجاج اور دھرنا دیا گیا۔ دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی رہنماؤں سید زین شاہ، ڈاکٹر صفدر عباسی، ایاز لطیف پلیجو، حلیم عادل شیخ، فاروق جٹ، میر خادم تالپور، حافظ طاہر نوید، شکیل احمد فہیم و دیگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ دریائے سندھ سے 6 نئی نہریں نکالنے سے پنجاب کی 60 لاکھ زمین آباد ہو گی، سندھ میں پہلے ہی وارہ بندی اور لاکھوں ایکڑ زمین پہلے ہی غیر آباد ہے، 6 نئی نہریں نکالنے کا فیصلہ پاکستان اور سندھ کے خلاف سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کے بعد نئی نہریں نکالنے کا فیصلہ سندھ پر دوسرا وار ہے، پہلے ہم نے کالا باغ ڈیم بنانے کا منصوبہ ناکام بنایا تھا، اب نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ بھی ناکام بنائیں گے۔ سندھ کے عوام کو دیوار سے نہ لگایا جائے، سندھ نے پاکستان بنایا تھا، سندھ اگر تباہ ہوا تو پاکستان کی سالمیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری نے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کی غیر قانونی منظوری دی اور اس کے لیے بجٹ بھی رکھا، دریائے سندھ سے 6 نہریں نکالنے سے سمندر مزید زمینوں کو کھوکھلا کر دے گا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چولستان کینال سسٹم فیز ون کا مطلب ہے کہ دوسرے فیز میں مزید کینال بنائے جائیں گے، تاہم پہلے فیز میں ایک ڈیم بھی بنایا جا رہا ہے جہاں سے پانی لیا جائے گا اور اس ایک سسٹم پر 36 لاکھ ایکڑ زمین آباد ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف کہتے ہیں کہ ان نہروں میں سیلابی پانی چھوڑا جائے گا لیکن دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ کینال بارہ مہینے چلیں گی۔ نئی نہر سے کوٹری بیراج، سکھر بیراج اور گڈو بیراج کی 36 لاکھ ایکڑ رقبہ متاثر ہو گا، پانی کی کمی کے باعث مغربی جانب کے 28 دیہات سمندر میں ڈوب چکے ہیں، مزید زمین سمندر میں ڈوب جائے گی اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ اس موقع پر مبارک مہر، آفتاب قریشی، فاروق لغاری، لالا اظہر پٹھان، نقاش مرہ اور دیگر بھی موجود تھے، بیداری مارچ کے شرکاء مختلف چھوٹے بڑے شہروں سے ہوتے ہوئے عمرکوٹ پہنچے گے جہاں جلسے سے دریائے سندھ بچاؤ تحریک کے مرکزی رہنما خطاب کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نئی نہریں نکالنے نہریں نکالنے کے انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے کے خلاف
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
سنہ1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم پر ایک بڑا تنازعہ سامنے آیا تھا۔ اس تنازعے کو مختلف اوقات میں حل کرنے کوشش کی گئی لیکن وہ حل نہ ہو سکا۔ بالآخر ورلڈ بینک کی ثالثی سے19 ستمبر 1960 کو یہ تنازعہ حل کیا گیا اور ایک معاہدہ طے پایا جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری
معاہدے پر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے دستخط کیے جس کے بعد مشترکہ مفادات کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کہ بھارت اور پاکستان کے کمشنرز پر مشتمل تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 مغربی دریاؤں دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب کے 80 فیصد پانی پر پاکستان اور 20 فیصد پر بھارت جبکہ 3 مشرقی دریاؤں دریائے راوی، دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران بھی اس معاہدے کو قائم رکھا گیا تھا تاہم اب پہلگام میں حملے کے بعد بھارت میں اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
مزید پڑھیے: بھارت کے خلاف حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، منہ توڑ جواب دیں گے، پیپلز پارٹی
سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ چوں کہ مغربی دریاؤں میں سے بیشتر کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا اس وجہ سے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی تھی۔
گزشتہ 3 سال سے پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔ انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022 کو نئی دہلی میں ہوا تھا جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہونا ضروری ہے۔
سابق ایڈیشنل کمشنر سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن کا بھارت کی جانب سے معاہدہ معطل کیے جانے کے اعلان پر کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ گزشتہ 4 سال سے رکا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نہ ہی سندھ طاس معاہدہ کے تحت سالانہ میٹنگ کررہا ہے اور نہ ہی دریائوں سے متعلق ڈیٹا پاکستان کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان ترکی بہ ترکی جواب دے گا، اسحاق ڈار
شیراز میمن نے کہا کہ بھارت اس وقت پاکستان کا پانی روک ہی نہیں سکتا ہے کیوں کہ اس کے لیے بھارت کو بڑے ڈیم بنانے ہوں گے جس میں کئی سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی کے اعلان کے خلاف پاکستان ورلڈ بینک سے بھی رجوع کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو ریلیف مل ہی جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت کے انتہا پسند اقدامات پاکستان سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن