ہمارا خطہ ایک اور طوفان کی زد میں ہے۔ گزشتہ 3-4 دہائیوں کے دوران بھی یہاں طوفان آتے رہے ہیں، لیکن پاکستان ان طوفانوں کا ہدف بالواسطہ طور پر بنا، لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے۔ شیطان کے کان بہرے، خطرہ یہی ہے کہ اس بار ہم دشمن کا کہیں براہِ راست نشانہ نہ بن جائیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب کا جرم یہی ہے کہ انہوں نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس بار کوئی غلطی سرزد ہوئی تو آئندہ 2-3 صدیوں تک اس کی سزا بھگتنی پڑے گی۔
سوال یہ ہے کہ آج ہمیں کس خطرے کا سامنا ہے؟ سیاست کی عالمی بساط پر بہت سے کھیل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ ہمہ وقت زیر زمین ہلچل مچی رہتی ہے۔ کبھی کبھی اس کے کچھ مظاہر سامنے آ جاتے ہیں، لیکن ان کا معاملہ کسی غوطہ خور کی طرح ہوتا جس نے ڈبکی تو غزہ میں لگائی لیکن برآمد وہ شام میں ہوا۔ شام کے واقعے کے بعد اسرائیل کے راستے کی بہت سی رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں یا وہ اتنی کمزور ہو چکی ہیں کہ اب ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ کیا فلسطین میں پھٹنے والے آتش فشاں کی منزل صرف دمشق تھی؟ کون یقین سے کچھ کہہ سکتا ہے، لیکن دیکھنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں، پھر مطالعہ بہت سے راز اور پیچیدہ گرہیں کھول دیتا ہے۔ یوں انہیں بہت کچھ معلوم ہو ہی جاتا ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب یا ان جیسے بزرگ کوئی بات کہیں تو ضرور اس پر کان دھرنے چاہییں۔
یہ بھی پڑھیں:وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی
سیاست کے عالمی پیچ و خم کے رازدانوں اور تجزیے اور بصیرت کے زور پر حالات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس بار جس خرابی کا آغاز ہوا ہے، اس کا سلسلہ مشرق وسطیٰ تک رکنے والا نہیں۔ یہ ایران تک پہنچے گا لیکن ایران بھی اس کی آخری منزل نہیں ہوگی۔ اس کی حتمی منزل ایران کا پڑوس یعنی پاکستان ہے۔ سرسری انداز سے بھی دیکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ شام میں رونما ہونے والی تبدیلی نے ترکیہ میں ہیجان بپا رکھنے والے کردوں کی کمر توڑ دی ہے اور اب ان میں پہلے جیسا دم خم باقی نہیں رہا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایک محاذ تو ٹھنڈا ہو گیا لیکن ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک اندازہ ہے۔ اگر اس کے الٹ ہوتا ہے تو اس کے اثرات بلوچستان تک محسوس کیے جائیں گے۔ پہلے سے بے چین بلوچستان کے لیے یہ ایک نیا خطرہ ہو گا۔ اس خطرے کے کچھ پہلو اور بھی ہیں۔
اب تک تو دنیا یہی سمجھتی آئی ہے کہ امریکا طالبان کا مخالف ہے، اس کی حکومت کو بھی اس نے تسلیم نہیں کیا، لیکن امریکی امداد پھر بھی اسے مل رہی ہے۔ صرف امریکی امداد نہیں مل رہی، امریکی اتحادیوں کے ساتھ بھی ان کے راز و نیاز بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت دبئی سے میسر آیا ہے جہاں بھارتی سیکریٹری خارجہ اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ملاقات کئی اعتبار سے اہم ہے۔ کیا یہ بات توجہ طلب نہیں ہے کہ طالبان بھارت کی ترجیحات میں بہت نیچے تھے۔ اس کے ذمے داران سے اگر بھارتی ملتے بھی تھے تو بہت نچلی سطح پر۔ اب یہ سطح یک دم بلند ہوئی ہے۔ صرف بلند نہیں ہوئی بھارت نے طالبان حکومت کو بھاری مالی امداد بہم پہنچانے کا وعدہ بھی کیا ہے اور افغانستان نے چاہ بہار کی بندرگاہ کے سلسلے میں بھارت سے تعاون بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ باتیں تو وہ ہیں جو علانیہ ہیں۔ غیر علانیہ کیا کیا کچھ ہے؟ اس کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ سامنے آ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟
اب ایک اور معاملے پر توجہ کیجیے۔ کچھ دن ہوتے ہیں، ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ایک بات کہی تھی۔ انہوں نے اپنی گفتگو کی ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے چونکا دینے والی ایک بات کہی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک قوم پرست گروہ نے پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں ایک جرگہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ الطاف حسین نے اپنی گفتگو میں دونوں طرف کے قوم پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ تمہارا اصل دشمن کون ہے، لہٰذا اس جرگے میں جوق در جوق شرکت کی جائے۔ یہ جرگہ ہو جاتا تو ایک بہت بڑا دھماکا ہوتا، لیکن اس وقت بہت سے متعلقہ لوگ حرکت میں آئے یوں یہ سرگرمی بے اثر ہو گئی۔ یہ سرگرمی بے اثر ضرور ہوئی لیکن ختم نہیں ہوئی۔ سازش نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس پر کام بھی جاری ہے، جس کے اثرات کرم سمیت پورے خیبر پختونخواہ میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔
ان اثرات کے 2 پہلو تو ہمارے قومی منظر پر صاف نظر آتے ہیں، جن کا ایک پہلو سیاسی ہے اور دوسرا غیر سیاسی۔ غیر سیاسی منظرنامہ کرم میں ہمارے سامنے ہے جہاں صرف چند دنوں کے دوران ہی سینکڑوں افراد کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسی طرح صوبے میں دہشتگردی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ یہ معاملہ کثیر پہلو ہے۔ یہ صرف فرقہ واریت اور دہشتگردی نہیں ہے۔ اس قضیے میں بہ ظاہر 2 فریق ہی سامنے ہیں، لیکن بات ان 2 تک محدود نہیں۔ اگر چند سوالوں پر غور کر لیا جائے تو مزید فریق بھی بے نقاب ہو جائیں گے۔
اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ کرم میں جب خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، صوبائی حکومت اس سے لاتعلق کیوں رہی؟ وہ صرف لاتعلق نہیں تھی بلکہ اس نے دوسرا محاذ بھی گرم کر رکھا تھا۔ اس سیاسی گروہ کی طرف سے اسلام آباد پر بار بار یلغار کا مقصد کیا صرف سیاسی تھا؟ اب یہ حقیقت تو واضح ہو چکی کہ اسلام آباد میں لاشیں مطلوب تھیں۔ یہ لاشیں مل جاتیں تو پورا منظر نامہ ہی بدل جاتا۔ کرم صرف کرم تک محدود نہ رہتا، اس کی تباہ کاری کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بھی پی ٹی آئی کا غیر ذمے دارانہ طرز عمل اسی وجہ سے ہے۔ بہت سی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کو معاشی اور انتظامی طور پر ناکام بنا دیا جائے جس کے نتیجے میں صرف حکومت ہی نہیں ریاست کے غیر مؤثر ہونے کا تاثر بھی پختہ ہو جائے۔ 2018 سے اب تک ملک کو دیوالیہ کرنے کی عملی کوششوں کا تعلق بھی اسی منصوبے کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اب جو کچھ دن قبل عمران خان نے یہ کہا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، یہ ان کی طرف سے خوشی کا اظہار نہیں تھا بلکہ اپنے لوگوں کو ان کی طرف سے ڈانٹ تھی کہ نالائقو! یہ تم نے کیسے ہونے دیا؟
یہ بھی پڑھیں:صدیق الفاروق: جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے
اس گورکھ دھندے کے مقاصد بڑے خوف ناک ہیں، ان کا تعلق پاکستان کے ساتھ براہ راست ہے۔ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت سیاسی حدت اور دہشتگردی و خون ریزی میں مسلسل اضافے کا مقصد پاکستان میں اقوام متحدہ کی مداخلت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ ایسی صورت میں یہ بات کہے بغیر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ خانہ جنگی میں مبتلا ملک کے پاس ایٹمی اثاثے کوئی رہنے نہیں دیتا۔ ملک کو بہ تدریج اسی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ اس سازش کا دوسرا نکتہ ملک کو آئین سے محروم کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالیہ بحران 2 شاخہ ہے۔ آئین سے محرومی کا مقصد ملک کے اتحاد کا خاتمہ ہے تاکہ ملک کو اپنی نظریاتی شناخت سے محروم کر دیا جائے۔ پاکستان کے موجودہ بحران کی اصل کہانی یہی ہے۔
ایسی خطرناک فضا میں ملک کی دفاعی فورس کو متنازع بنانا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ فوج کے ہیڈکوارٹر اور دیگر اہم تنصیبات پر حملوں اور اس کے ذمے داران کی کردار کشی کا تعلق بھی اسی صورت حال سے ہے۔ یہ معاملہ صرف پی ٹی آئی تک محدود نہیں بلکہ اس کی شاخیں دور دور تک یعنی بیرون ملک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ جو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کا تخریبی پروپیگنڈا تھمنے میں نہیں آ رہا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے کون ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:راضی بہ رضا امین احسن اصلاحی
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر 1971 جیسے حالات سے دوچار ہے۔ اس قسم کے حالات میں فوج کی پالیسیوں سے اگر اختلاف بھی ہو تو اسے کمزور کرنا دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ غامدی صاحب نے ہمیں یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی مخالفت اور کردار کشی کرنے والے دشمن کے آلہ کار ہیں اور اس کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ ان کے حرف نصیحت کو ان کا جرم بنا دینے والے کتنا بڑا جرم کر رہے ہیں، یہ بات ان کی سمجھ میں آ جائے تو وہ پچھتائیں اور سینہ کوبی کریں لیکن سردست تو وہ قاتلینِ حسین کی طرح تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔
1971 ایران جاوید احمد غامدی دہشتگردی شام غزہ کرم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران جاوید احمد غامدی دہشتگردی کے ساتھ رہے ہیں بھی اس یہ بات ملک کو
پڑھیں:
مہمان خصوصی کاحشرنشر
یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔
اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل
پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول
چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔
مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔
یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔
بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔
اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔
کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں
آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔
وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔
ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔