سعودی عرب میں ایران کے سفیر ڈاکٹر علی رضا عنایتی نے کشیدگی کو کم کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے پر مملکت کی تعریف کی ہے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے پیشرفت کو ’ایسی کامیابی قرار دیا جسے حاصل کرنے میں برسوں لگتے ہیں۔‘
علی رضا عنایتی نے سب سے پہلے 1990 میں جدہ میں بطور قونصل خدمات انجام دیں اور بعد میں ریاض میں چارج ڈی افیئرز کے طور پر تعینات رہے۔ مارچ 2023 میں چین کی ثالثی میں کروائے گئے معاہدے کے بعد سفیر کے طور پر واپس آئے۔
ایران کے خلاف حالیہ اسرائیلی حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے عنایتی نے ان حملوں کو ’کھلی جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت ہوئے جب تہران واشنگٹن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں مصروف تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران پر آدھی رات کو حملہ کیا گیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت فیصلہ کن جواب دینا ہمارا حق تھا اور یہ بھی ظاہر کرنا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، لیکن وہ طاقت اور عزم کے ساتھ اپنا دفاع کرے گا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشیدگی میں اضافے پر علاقائی ردعمل نے یکجہتی کے جذبے کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے وزیر خارجہ کو پہلی کال سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی جانب سے موصول ہوئی جس میں حملوں کی مذمت کی گئی، اس کے بعد سعودی وزارت خارجہ کا ایک بیان بھی آیا۔
اس کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے صدر مسعود پیزشکیان کو فون کال کے ذریعے مذمت اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا تھا، اس کے بعد صدر پیزشکیان نے ولی عہد کو واپس فون کیا تھا اور کئی خلیجی ریاستوں کی جانب سے حمایت کے بیانات دیے گئے تھے۔
انہوں نے بحران کو کم کرنے کے لیے ریاض کی کوششوں کو سراہتے ہوئے سعودی عرب کے کردار کو ’باوقار‘ اور ’باعث رحمت‘ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری تمام دو طرفہ بات چیت میں ایران نے مملکت کے تعمیری موقف اور مزید جارحیت کو روکنے کے لیے اس کی کوششوں کو تسلیم کیا ہے۔ ہم اپنے سعودی بھائیوں، خاص طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں، جو ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
سفیر نے میل جول کی علامت کے طور پر سفر اور مذہبی تبادلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف اس سال دو لاکھ ایرانیوں نے عمرہ کیا ہے، اور اگر عازمین حج بھی شامل کیے جائیں تو مملکت میں آنے والے زائرین کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ ایک انتہائی مثبت اشارہ ہے۔
انہوں نے سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے حالیہ دورہ تہران پر بھی روشنی ڈالی اور اسے ایک ’تاریخی موڑ‘ قرار دیا جس نے تعلقات کو معمول سے سٹریٹجک تعلقات کی طرف منتقل کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دورے اور صدر پیزشکیان اور سپریم لیڈر کے ساتھ ملاقاتوں نے ایک مضبوط تاثر چھوڑا کہ ہم علاقائی استحکام کی تعمیر میں شراکت دار ہیں۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو ابھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، ثقافت اور نوجوانوں سے متعلق معاہدوں کی بیجنگ معاہدے میں توثیق کی گئی ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کے بعد

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات جنگ سے ٹھیک ہوں گے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ پاک افغان تعلقات کی بہتری فوری طور پر نا ممکن ہا تا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں ہونے والے ممذاکرات ترکی میں نا کامی سے دوچار ہو چکے ہیں ۔ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔
اس ان مذکرات میں ایک نئی بات یہ بھی ہے پاکستان پر ٹی ٹی پی کے نئے حملے شروع ہو گئے اور شاید بھارت کے کہنے پر وانا اور اسلام آباد پر بھی حملے کیے گئے ہیں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اپنے افغان ہم منصب ملا محمد یعقوب سے 19 اکتوبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے اختتام پر مصافحہ کر رہے ہیں 30 اکتوبر کو ایک امید کی کرن اس وقت نمودار ہوئی جب افغانستان اور پاکستان نے استنبول میں ایک تین نکاتی اعلامیے پر اتفاق کیا، جس کے تحت دونوں ممالک چھ نومبر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ کئی ہفتوں کی غیر معمولی کشیدگی کے بعد طے پائے گئے معاہدے کے نفاذ کے طریقہ کار پر غور کیا جا سکے۔

اس پوری صورتحا کے بعد فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ امن کے قیام کو یقینی بنانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ایک نگرانی اور جائزہ لینے کا نظام قائم کیا جائے گا۔ تاہم یہ مذاکرات بھی بےنتیجہ ختم ہو گئے، جس کے بعد حالات ایک بار پھر بےیقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔
اس سے پہلے پاکستان نے کابل اور افغانستان کے دیگر حصوں میں فضائی حملے کیے جن میں تحریکِ طالبانِ پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کے رہنماو ¿ں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو پاکستان میں سرحد پار دہشت گردی میں ملوث رہی ہیں۔جب طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف عدم کارروائی اور افغان سرزمین پر ان کی موجودگی کو تسلیم نہ کرنے پر پاکستان کی صبر کا پیالہ لبریز ہو گیا تو پاکستان نے کابل میں ضرب لگانے کا بےمثال اقدام اٹھایا۔
طالبان حکومت کے خلاف پاکستانی جارحانہ موقف اور یہ دھمکیاں کہ اگر ٹی ٹی پی کا مسئلہ اطمینان بخش طور پر حل نہ ہوا تو کھلی جنگ کا اعلان بھی کیا جائے گا، پالیسی ساز حلقوں میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں۔افغانستان کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان حکومت کو یہ واضح اشارہ بھیج دیا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حفاظت اور حمایت کرے گی تو اسے قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ پاکستان اب مزید حملے برداشت نہیں کرے گا، بلکہ جلد اور مناسب انداز میں جواب دے گا۔ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ امکان کم ہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان اپنے تعلقات کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی سطح پر واپس لا سکیں، خواہ دونوں ممالک 30 اکتوبر کے سمجھوتے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اتفاق بھی کر لیں۔

سرحدی کشیدگی کے دوران، افغانستان پاکستان سرحد کے تمام گزرگاہیں بند رہتی ہیں، جس سے تجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نتیجہ خواہ مثبت ہو یا منفی، اگر طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات نہ کیے تو کشیدگی برقرار رہنے کا امکان ہے۔پاکستان طالبان حکومت کے لیے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور حمایت کی قیمت بڑھاتا رہے گا۔
تسلسل سے جاری حالیہ کشیدگی کے دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو صورت حال سامنے آئی ہے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے حوالے سے کشیدگی اور مذاکرات کابل، اسلام آباد اور بیجنگ میں ہو چکے ہیں۔ تاہم، ان سب کے باوجود طالبان کے ٹی ٹی پی سے متعلق سٹریٹجک مو ¿قف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اکتوبر میں دیکھی گئی کشیدگی اور دوحہ و استنبول میں ہونے والی بات چیت کے درمیان واحد فرق یہ ہے کہ اگر پہلے حالات سلگ رہے تھے تو اب وہ بھڑک اٹھے ہیں۔

اس لیے ترک اور قطری سفارت کاری حالات کا درجہ حرارت تو کم کر سکتی ہے، لیکن وقت کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی صورت حال تک واپس نہیں لے جا سکتی۔اب ایک مرتبہ بھر ترکیہ کی حکومت مذاکرات کو جاری رکھنے کی تیاری کر رہی ہءاس کی وجہ یہ ہے کہ پاک افغان مذاکرات کی ناکامی سے چین کے مفادات کو خطرہ ہے اور اس خطرے کو کم کر نے کی ضرورت ہے
یہ کارروائی طالبان حکومت کو یہ واضح پیغام دینے کے لیے کی گئی ہے کہ اگر اس نے ٹی ٹی پی کے خلاف قدم نہ اٹھایا تو پاکستان خود کارروائی کرے گا، چاہے وہ افغانستان پاکستان سرحدی علاقوں میں ہوں یا افغانستان کے اندر گہرائی میں۔اسی کے ساتھ پاکستان نے طالبان حکومت کو دوٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ پاکستان طالبان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ 2020 کے دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

مزید یہ کہ پاکستان کے نزدیک افغانستان پاکستان سرحد ایک طے شدہ معاملہ ہے اور طالبان قیادت کی کوئی بھی بیانیہ بازی پاکستانی ریاست پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ افغان شہری ایران یا وسطی ایشیائی ممالک میں بغیر ویزا داخلے کا مطالبہ نہیں کرتے، لیکن پاکستان کے معاملے میں ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے۔پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، اور کوئی بھی غیر ملکی ویزا حاصل کیے بغیر اس کی سرزمین میں داخل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ طالبان کو تحریکِ طالبان پاکستان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں کئی طرح کی عملی اور نظریاتی مشکلات کا سامنا ہے۔ طالبان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف سخت عسکری کارروائی کی گئی تو اس کے ناراض عناصر داعش خراسان میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان طالبان کے نظریاتی حساسیتوں اور اس خطرے کو بھی سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بڑے کریک ڈاو ¿ن سے تحریک کے اندرونی دھڑوں میں اختلافات اور کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔

اس پوری صورتحا میں یہ بات ہم، ٹی ٹی پی کی موجودگی سے مکمل انکار نے پاکستان کے صبر کو آزما دیا ہے۔ اگر طالبان حکومت اخلاص کے ساتھ پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھے اور ان کی قدر کرے تو اسلام آباد کابل کے ساتھ تعاون کرنے اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔مخلصانہ اور دیانت دارانہ مکالمے کی صورت میں سفارتی، سیاسی اور عسکری اقدامات کا ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی برقرار رہی تو امن کے یہ دشمن اور دہشت گرد نیٹ ورکس جیسے ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور القاعدہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کشیدگیوں سے پیدا ہونے والا انتشار کئی نئی دراڑیں کھول دے گا، جن کے ذریعے یہ گروہ بھرتی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

چونکہ افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، اس لیے وہاں کے حالات کے اثرات اس کی سرحدوں سے کہیں آگے تک پہنچتے ہیں۔اسلام آباد اور کابل دونوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کریں اور ایک باہمی قابلِ قبول فریم ورک کے تحت ٹی ٹی پی کے مسئلے سے خلوصِ نیت کے ساتھ نمٹیں۔ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔دوسرے لفظوں میں، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی کا راستہ کابل کی اس آمادگی سے گزرتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کرے۔پاکستان اور افغان کے درمیاں بھارت ایک بڑی رکاوٹ ہے اور بھارت کو اس بات کا بھی علم ہے وہ پاکستان سے جنگ کر گا اس صورت امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک بھارت کا کھل کر ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ دناہی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو بڑا ملک تسلم کر نے کو تیار ہے افغانستان کو اس حقیقت کو تسلم کرنا چاہیے کہ بھارت نہیں پاکستان اس کا دوست ہے۔

مسرت خلیل گلزار

متعلقہ مضامین

  • نو مسلم بھارتی خاتون کا پولیس پر شادی ختم کرنے کیلیے دباؤ ڈالنے کا الزام
  • ابراہم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فلسطین کا دو ریاستی حل یقینی بنانا ہوگا، سعودی ولی عہد
  • کراچی چڑیاگھر‘سفاری پارک‘لانڈھی چڑیاگھر کے ٹینڈر روکنے کاحکم
  • ایران کی منصفانہ تصویر پیش کریں، صدر پزشکیان کی آسٹریا کے سفیر سے گفتگو
  • ولی عہد اور ٹرمپ کی ملاقات: سعودی عرب ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننے کے لئے تیار
  • فعال خارجہ پالیسی، سعودی عرب کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدہ بڑی کامیابی ہے: وزیر اطلاعات
  • مسجد میں ڈرامے کی شوٹنگ پر دیپک پروانی نے اپنا تجربہ بیان کردیا
  • روس نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر دی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی، روس نے ثالثی کی پیشکش کر دی
  • پاک افغان تعلقات جنگ سے ٹھیک ہوں گے؟