Jasarat News:
2025-10-21@21:58:08 GMT

سندھ کے اسکولز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں،شفیع سٹھیو

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

ٹنڈومحمدخان(نمائندہ جسارت) سندھ میں ہزاروں نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کے باوجود بند اسکول تاحال غیر فعال ہیں اسکولوں میں طلبہ وطالبات بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ بات پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے مرکزی شفیع سٹھیو نے ڈسڑکٹ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بند غیر فعال اسکولوں میں کو فوری طور پر تدریسی عمل شروع کرے تاکہ لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے ا ساتذہ کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جارہا ہے سروس اسٹرکچر اور پہلے روز کی سروس سے اساتذہ کو مستقل کرنے کا بنیادی مطالبہ ہے جسے نافذ کرنے میں مسلسل ٹال مٹو ل کی جارہی ہے جو کہ حکومت بے حسی کا بین ثبوت ہے جبکہ ریٹائرڈ ہونے والے اساتذہ کی مراعات بغیر رشوت کے نہیں ملتی محکمہ ایجوکیشن اور فنانس کے افسران و ملازمین نے ایجنٹ مقرر کیے ہوئے ہیں ان کے بغیر کیس پاس نہیں ہوتا جو ان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے اساتذہ کے مسائل کے حل کے لئے ہم نے سندھ حکومت کے صوبائی وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم سے بارہا ملاقاتیں کیں اور انہوں نے ہمارے مطالبات کو تسلیم بھی کیا تاہم نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بجائے ٹال مٹول کی جارہی ہے ہم نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ 10 فروری کو کراچی پریس کلب پر ہزاروں اساتذہ اپنے مطالبات کے حل کے لئے احتجاج کریں گے اور جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

سرکاری جامعات میں عارضی اساتذہ و ملازمین، کچرے کے بھاؤ سونا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آج میں کراچی کے مزدور کے جس مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اس کو چھاپنے کی جسارت سوائے روزنامہ جسارت کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ استاد کی عظمت پر بڑے بڑے سیمینار تو منعقد ہوتے ہیں لیکن کسی بھی سرکاری ادارے نے آج تک اپنی وزیٹنگ فیکلٹی کے لیے کوئی پروگرام تک منعقد کرنا ضروری نہیں سمجھا اور توجہ دلانے پر یہ کہہ کر ٹال دیا اگیا کہ ’’ہمارے پاس غیر ضروری کاموں کے لیے بجٹ نہیں‘‘ جبکہ بڑے بڑے مفتی و علماء و اسکالرز سرکاری اداروں میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کراچی جیسے عالمی شہرت و حیثیت رکھنے والے شہر کی سرکاری جامعات اپنے مستقبل کے شاہینوں کو تیار کرنے والے عارضی ملازمین و اساتذہ کے ساتھ سوتیلے بچوں جیسا سلوک کررہی ہیں۔ یہ اساتذہ و ملازمین ایسے سفید پوش مزدور ہیں جو اپنے مسائل کسی کو نہیں بتا سکتے اس لیے میں نے ان کی آواز بننے کا فیصلہ کیا اور انشاء اللہ اس مسئلے پر اب کام بھی ہوگا۔ ان کے مسائل میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ وقت پر تنخواہوں کا اجراء نہ ہونا اور فکسڈ سیلری نہ ہونا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہر عارضی استاد اپنی تنخواہ کے حصول کے لیے ہر ماہ
اپنے نام کا ایک بل بناتا ہے جس میں گھنٹوں کے حساب سے کلاسز کی تعداد (Credit Hours)کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر گھنٹے کے حساب سے طے شدہ مشاہرہ جو کہ اونٹ کے منہ میں زہرہ ہے تحریر کیا جاتا ہے جو تقریباً تین ماہ بعد پروسیس ہو کر بینک میں ٹیکس کٹوتی کے بعد پہنچتا ہے اور بعض اوقات تین ماہ بعد بھی یہ کہہ کر بات ٹال دی جاتی ہے کہ ابھی جامعہ کے مالی حالات بہتر نہیں اس لیے تنخواہیں اگلے یا پھر اس سے اگلے ماہ بعد ملیں گی ہم کسی کا پیسہ اپنے پاس نہیں رکھتے ہیں؟؟؟ مطلب کراچی کی سرکاری جامعات کے پاس اپنے عارضی اساتذہ و ملازمین کے لیے کوئی بجٹ قبل از وقت ہوتا ہی نہیں یا طے کیا جاتا ہی نہیں؟؟؟ اچھا جی۔۔۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ اگر آپ اپنا حق مانگیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ہم کیا کریں ہمارے پاس عارضی اساتذہ و
ملازمین کے لیے ابھی بجٹ موجود نہیں‘‘۔۔۔ یعنی تین ماہ بعد آپ کو یہ بات توجہ دلانے پر یاد آرہی ہے کہ اساتذہ و ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ہمارے پاس ابھی کچھ نہیں ہے ابھی آپ ہوا کھاؤ اور پانی پیو اور صبر و توکل کرو بس۔ بعض ایسے اساتذہ و ملازمین سے بات کرنے پر یہ بھی پتا چلا ہے کہ کراچی کی سرکاری جامعات کی اس اوٹ پٹانگ حرکت کی وجہ سے گھریلو جھگڑے ہوئے اور طلاق و خُلا بھی ہوئیں ہیں۔ پھر بھی اگر یہ مسئلہ ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو اس کے علاوہ نہ تو ان اساتذہ و ملازمین کے لیے میڈیکل اور نہ ہاؤس سیلنگ کا اجراء ہوتا ہے اور توجہ دلانے پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مراعات صرف مستقل اساتذہ و ملازمین کے لیے ہیں اور سرکاری جامعات تو آپ کو تجربہ کرنے کا موقع دے رہی ہیں کیا اتنا کافی نہیں؟؟؟۔۔۔ مطلب سرکاری جامعات تو اس بات سے اپنی مستقل فیکلٹی کی نااہلی ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ تمام طلبہ و طالبات کے لیے ناکافی ہیں اور ہمیں باہر سے خواہشمند اساتذہ و ملازمین مجبوراً وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر لینا پڑ رہے ہیں۔۔۔ لیجیے قبلہ شوق سے لیجیے مگر ان کے گھروں کی کفالت بھی کرنا آپ کی زمہ داری میں آئے گا یا پھر صرف اپنا الّو سیدھا کرنا آپ کا مقصد ہے؟؟؟۔۔۔ پھر تیسرا مسئلہ یہ بھی آتا ہے کہ جب تین یا چھ ماہ یا سال بھر بعد سیلری ملتی ہے تو وہ سرکاری ٹیکس کٹ کر ملتی ہے جب کہ تنخواہ پر ٹیکس کٹوتی ماہانہ 50000 سے کم پر نہیں لیکن پھر جامعات کس فارمولے کے تحت ٹیکس کاٹ دیتی ہیں؟؟؟ کیا سرکاری جامعات کی انتظامیہ اتنی بھی عقل نہیں رکھتیں کہ وہ ایک گریڈ 19 کے پی ایچ ڈی لیول کی استاد کے ساتھ کیا مزاق کر رہی ہے کہ جو اپنی تعلیم پر لاکھوں روپے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے انڈورسمنٹ پر ہزاروں روپے خرچ کرتا ہے اور آپ؟؟؟ ان حرکتوں میں ملوث ہیں یا یہ بتادیں کہ آپ کب تک سونے کو کچرے کے بھاؤ بیچیں گے؟؟؟ سرکاری جامعات کو اس مسئلہ پر اپنا قبلہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ آپ کے پڑھے لکھے ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ سرکاری جامعات چلانے کے بجائے کریانہ اسٹور کھول لیں اور پڑھے لکھے لوگوں کی زندگیاں اس بے دردی سے تباہ کرنا بند کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو حقدار کا حق دینے والا بنائے اور وزیٹنگ فیکلٹی کے ساتھ نارواں سلوک نہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

p

ڈاکٹر حافظ سلمان نوید گلزار

متعلقہ مضامین

  • محسن نقوی سے مفتی منیب کی ملاقات، علما کے جائز مطالبات حل کرنے پر اتفاق
  • اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے کو جیل میں عمران خان کی طرح سہولیات فراہم کی جائیں، علیمہ خان
  • ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والےکو عمران خان کی طرح سہولیات دی جائیں، علیمہ خان
  • بنیادی مراکز صحت پر فیملی پلاننگ و فوڈ سپلیمنٹس کی دستیابی پر غور
  • جنگ غزہ میں 20 ہزار سے زائد طلباء اور 1 ہزار37 اساتذہ شہید
  • وزیر صحت سندھ پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو کی ناقص کارکردگی پر برہم
  • سندھ حکومت کا مزید اضلاع میں پیپلز بس سروس شروع کرنیکا اعلان
  • حیدرآباد جیسے سندھ کے بڑے شہر میں اعلی تعلیم کی سہولیات میسر نہیں، مصطفی کمال
  • سرکاری جامعات میں عارضی اساتذہ و ملازمین، کچرے کے بھاؤ سونا
  • اساتذہ قوم کے معمار ، رہنما اورسماجی تبدیلی کے علمبردار ہیں،الطاف حسین