پاک افغان تنازعہ اور سمجھوتہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چپقلش یا تنازعے کے تاریخی پسِ منظر میں ڈیورنڈ لائن کا بہت ذکر آتا ہے، تو قارئین کے ذہن میں رہے کہ جب پورے ہندوستان پرانگریزوں کی حکومت تھی اور عملی طور پر کابل کے حکمران بھی وہی تھے، اُس وقت انھوں نے افغانستان کو دوسری Princely states کی طرح خودمختاری دی ہوئی تھی مگر افغانستان کا حکمران امیر عبدالرحمن انگریز حکمرانوں سے وظیفہ لیتا تھا۔
افغانستان اور برٹش انڈیا کے درمیان سرحدی معاملات کو ہمیشہ کے لیے طے کرنے کے لیے 1893میں افغانستان اور ہندوستان کی برطانوی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس پر افغانستان کے حکمران امیر عبدالرحمن نے اور انگریز حکومت کی طرف سے انڈین سول سروس کے ایک سفارتکار سر مور ٹائمر ڈیورنڈ نے دستخط کیے، جس کے تحت 2640 کلومیٹر لمبی سرحد پر لکیر کھینچ دی گئی جس نے افغانستان اور اُس وقت کے ہندوستان (یا بعد میں پاکستان) کے درمیان باؤنڈری یا سرحد کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے کردیا، اس سرحدی لکیر کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے چند روز بعد امیر عبدالرحمن نے کابل میں گرینڈ جرگہ منعقد کیا جس میں پورے افغانستان سے چار سو سے زیادہ اکابرین اور اعلیٰ حکام شریک ہوئے، جنھوں نے اس معاہدے کی توثیق کردی، یعنی ڈیورنڈ لائن کومستقل سرحد کے طور پر تسلیم کرلیا۔ امیر عبدالرحمن کے بعد اس کے بیٹے حکمران رہے مگر انھوں نے بھی ڈیورنڈ لائن کو کبھی متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔1947 تک یعنی قیامِ پاکستان تک سرحد کے بارے میں کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہواکیونکہ عالمی قوّتوں نے بھی اسے مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے۔
افغانستان کی حکومت نے بھی اس پر کبھی اعتراض نہیں کیاتھا مگر قیامِ پاکستان کے فوراً بعد (بھارت کے ایماء پر) افغانستان نے پاکستان کے خلاف چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ پوری دنیا میں افغانستان مسلم برادر اور ہمسایہ ہونے کے باوجود، واحد ملک ہے جس کے نمایندے حسین عزیز نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔
بات وہاں رک نہیں گئی بھارت مسلسل افغان حکمرانوں کو پاکستان کے خلاف اکساتا رہا اور وہ استعمال ہوتے رہے۔ افغان حکمران بھی دل سے اسے مستقل سرحد مانتے ہیں مگر کبھی کبھی شرارتاً یا بھارت کے اُکسانے پر ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ کہ ہماری سرحد تو اٹک تک جاتی ہے۔ ہندوستان یا برٹش انڈیا کی بھی کبھی کابل تک حکمرانی تھی مگر ہم نے تو کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کابل تک کا علاقہ ہمارا ہے۔
اگر ریکارڈ دیکھیں تو افغانستان کے حکمرانوں کے کھاتے میں زیادتیوں اور جرائم کا ایک لامتناہی سلسلہ نکلے گا جب کہ پاکستان کے دامن میں محبّت، ایثار، قربانیوں اور انھی کے ہاتھوں کھائے ہوئے زخموں کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد بھارت ہی کی شہ پر سابق صوبۂ سرحد کی کانگریس پارٹی نے پختونستان کا شوشہ چھوڑا جسے افغان حکومت پوری طرح سپورٹ کرتی رہی۔ پھر پاکستان بننے کے چند سالوں بعد دِیر کی طرف سے پاکستان پر حملہ کردیا،جو پسپا کر دیا گیا۔
اس کے بعد 1961 میں پندرہ ہزار مسلّح افغانوں نے باجوڑ یعنی ریاستِ پاکستان پر حملہ کردیا، اسے بھی کچھ دنوں بعد پسپا کردیا گیا۔ اس کے بعد بھی بدقسمتی سے افغان حکمرانوں کی تاریخ معاندانہ کاروائیوں سے بھری پڑی ہے۔ ریاستِ پاکستان کے ہر مخالف اور ہر باغی کو افغانستان میں پناہ دی گئی۔ جنرل شیروف اور خیر بخش مری کئی سالوں تک افغانستان میں رہے۔ پاکستان کا طیّارہ اغواء کرنے والے الذوالفقار کے باغیوں اور دہشت گردوں کو بھی افغانستان میں ہی امان ملی اور وہیں ان کو کئی سالوں تک پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی ٹریننگ دی جاتی رہی۔ اس کے برعکس جب روس نے افغانستان کی آزادی چھین لی اور اس پر قبضہ کرلیا تو پاکستان نے افغانوں کی آزادی کے لیے ان کے شانہ بشانہ جنگ لڑی جس میں بیشمار پاکستانی نوجوان شہید ہوئے۔
روسی قبضے کے بعد جب لاکھوں افغان اپنا گھر بار چھوڑ کو پاکستان کے اندر آگئے تو پاکستان نے ان کے لیے تنگ دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے دل اور دامن کھول دیے اور پچاس سال تک لاکھوں افغانوں کی میزبانی کی۔ اس قربانی کے باعث ہمیں کیا ملا؟ ہماری کمزور معیشت پر بے تحاشا بوجھ پڑا، ہمیں ہیروئن اور کلاشنکوف جیسے آٹومیٹک ہتھیاروں کے ’’خطرناک‘‘ تحفے موصول ہوئے جس نے نوجوان نسل کی رگوں میں زہر بھردیا اور سنگین جرائم میں بے پناہ اضافہ کیا۔ ہم نے افغانوں کی محبّت میں بہت کچھ کھویا، بہت سے عالمی دوست کھودیے اور بہت سوں کے طعنے اور تنقید کئی سالوں سے سن رہے ہیں۔
افغان حکمرانوں کا طرزِ عمل دیکھ کر ہمارے کئی رائٹر اور تجزیہ نگار دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں اور افغانستان کی جانب سے آنے والے احمد شاہ ابدالی اور محمود غزنوی سمیت تمام حملہ آوروں کو ڈاکو اور لٹیرا قرار دینے لگتے ہیں، غالباً وہ کم علمی کی وجہ سے اس نقطۂ نظر کو فروغ دے رہے ہیں جو مودی اور اس کے ہمنواؤں کا نظریہ ہے۔ ہمیں اس حد تک ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ مگر پاکستان کے ساتھ ان کا رویّہ دیکھ کر آج چارہ کاٹنے والے ان پڑھ دیہاتی بھی ان کے بارے میں یہی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کے طالبان سے بڑا احسان فراموش آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب تو یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اسلام کا تو صرف لبادہ ہے ورنہ اسلامی شعائر کی کھلم کھلا پامالی جس طرح افغانی طالبان کررہے ہیں دنیا کے کسی اسلامی ملک میں ایسا نہیں ہورہا۔
اگر انھیں اسلام سے ذرا بھی محبّت ہوتی تو وہ لوگوں کو خودکشی (جو اسلام میں حرام ہے) کے راستے پر ہرگز نہ لگاتے؟ اگر ان کی اسلام کے ساتھ وابستگی ہوتی تو وہ پاکستان کی فوج اور پولیس کے پابندِ صوم وصلٰوۃ افسروں اور جوانوں پر کیوں حملے کرتے اور ان کا خون کیوں بہاتے؟ اگر وہ اسلامی جذبے سے سرشار ہوتے تو وہ معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والے اسرائیل کے خلاف غم وغصّے کا اظہار کرتے، وہاں جاکر جہاد کرنے کی بات کرتے، یا کبھی کسی اسرائیلی فوجی پر حملہ کرتے۔ مگر ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔
انھوں نے کبھی کسی اسرائیلی فوجی پر حملہ نہیں کیا۔ اگر انھیں واقعی اسلام سے محبّت ہوتی تو وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہندوتوا کے علمبردار اور بھارت میں مسلمانوں کی زندگی، عذاب بنا دینے والے بھارتی حکمرانوں کی گود میں جاکر نہ بیٹھتے۔ کیا انھوں نے کبھی بے گناہ کشمیری مسلمانوں پر ظلم کرنے والی بھارتی فوج کے خلاف خودکش حملے کیے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ان کے حملوں کا نشانہ لاکھوں افغانوں کو قتل کرنے والے روسی یا ان کی اینٹ سے اینٹ بجادینے والی امریکی تو کبھی نہیں بنے، آخر ان کے حملوں کا نشانہ اسلام کے پیروکار، نماز روزے کے پابند اور ہر روز قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے مسلمان فوجی ہی کیوں بن رہے ہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 13 گھنٹوں کے طویل مذاکرات کے بعد جنگ بند ہوگئی ہے اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پاگیا ہے جو خوش آیند ہے اس پر دونوں ممالک کے عوام اور دنیا بھر میں ان کے خیرخواہ خوش ہیں۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن قائم ہونے سے اگر کوئی ناراض ہے تو یقینی طور پر ہمارا دشمن بھارت ہے جو مئی میں ہم سے شکست کھانے کے بعد سے تلملا رہا تھا اور اس کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے بے تحاشا پیسہ لگارہا ہے، وہ اسی سلسلے میں اب افغانستان کو استعمال کررہا تھا۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے معاہدے کی شق نمبر 2 سب سے اہم ہے جو دہشت گردی سے متعلق ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان کسی بھی عسکریّت پسند گروہ کو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان جا کر دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغان طالبان پر اعتبار کرنا مشکل ہے کیونکہ ماضی میں انھوں نے کسی وعدے کا پاس نہیں کیا۔ مگر اس ضمن میں سب سے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ترکی جیسا خیرخواہ اور مخلص دوست اور برادر اسلامی مسلم اور قطر جیسا خیر خواہ معاہدے کرانے والوں اور گارنٹرز میں شامل ہے، اللہ کرے کہ افغان طالبان اس پر نیک نیّتی اور اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کریں۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے جو ہر طریقے سے پاکستان میں دہشت گردی کی ہر قسم کی کاروائیوں کو سپانسر اور سپورٹ کررہا ہے، وہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ذریعے پاکستان میں سیکیوریٹی فورسز پر حملے کراکے اپنی ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔
ہمارے عظیم شاعر اور امّت کے حکیم اقبالؒ کے دل میں افغانستان کی بے پناہ عزّت وتکریم تھی، وہ افغانستان کو ایشیا کا دل (قلبِ آسیا) قرار دیتے تھے۔ اللہ کرے کہ افغانستان کے موجودہ حکمران اپنی غلطیوں کا ادراک کریں اور اس علاقے میں امن قائم کرنے کے لیے قلبِ ایشیا کا قلب پوری طرح صاف ہوجائے۔ کیا ایسا ہوجائے گا؟ یہ اگلی نشست میں (جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امیر عبدالرحمن افغانستان کی افغان حکمران افغانستان کے ڈیورنڈ لائن پاکستان میں پاکستان کے سے پاکستان کے درمیان اور افغان انھوں نے کہ افغان نہیں کیا رہے ہیں نے والے پر حملہ کے خلاف نہیں کی کے لیے اور اس کے بعد
پڑھیں:
واشنگٹن میں افغان شہری کے حملے میں امریکی اہلکار ہلاک؛ طالبان کا پہلا بیان سامنے آگیا
واشنگٹن میں سرعام فائرنگ کرکے ایک سیکیورٹی گارڈ کو ہلاک اور دوسرے کو شدید زخمی کرنے والے افغان شہری سے متعلق طالبان حکومت نے پہلی بار وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر متقی نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔
جس میں امیر متقی نے واشنگٹن میں گزشتہ ہفتے پیش آنے والے حملے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جس میں 2 امریکی نیشنل گارڈز نشانہ بنے تھے۔
طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ یہ حملہ ایک ایسے شخص نے کیا جسے خود امریکی اداروں نے تربیت دی تھی اور اسے استعمال بھی کیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس لیے اس شخص یا اس کی کسی حرکت کو افغان حکمت یا عوام سے جوڑنا درست نہیں۔ یہ ملزم کا انفرادی طور پر کیا گیا ذاتی عمل تھا۔
طالبان وزیر خارجہ امیر متقی نے کہا کہ امریکی ادارے سے تربیت یافتہ یہ شخص ہماری حکومت بننے کے بعد افغانستان سے بلا اجازت اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرار ہوا تھا۔
خیال رہے کہ حملہ آور کو امریکی سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کے تبادلے میں شدید زخمی حالت میں حراست میں لیا تھا اور اس کی شناخت 29 سالہ رحمان اللہ لاکانوال کے نام سے ہوئی۔
امریکی حکام کے ریکارڈ کے مطابق بھی رحمان اللہ افغانستان کی ایک ایسی فورس کا رکن تھا جسے طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لیے سی آئی اے کی حمایت حاصل رہی تھی۔
تاہم طالبان حکومت کے قیام کے بعد رحمان لاکانوال اگست 2021 میں افغانستان سے امریکا منتقل ہو گیا تھا۔
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس وقت کے صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے اُن افغان شہریوں کو امریکا لانے کا عمل تیز کیا تھا جو امریکی فوج کے ساتھ کام کر چکے تھے۔
اسی پالیسی کے باعث ہی رحمان اللہ لاکانوال بھی افغانستان سے امریکا پہنچا تھا تاہم بعض حکام اس کی آمد کی ذمہ داری ٹرمپ انتظامیہ جبکہ کچھ بائیڈن انتظامیہ پر عائد کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ عدالت نے ملزم پر قتل اور دیگر سنگین الزامات عائد کیے ہیں تاہم ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ پراسیکیوٹر اگلی سماعت میں سزائے موت کی درخواست کریں گی۔