Express News:
2025-12-06@08:43:42 GMT

پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی

اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT

کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کی خبریں دونوں ملکوں میں کشیدگی کو ختم کرنے کا سبب بن سکے گی ؟کیونکہ اس وقت جو حالات ہیں، ان میں اعتماد کا فقدان ہے اور ایسے لگتا ہے کہ سفارت کاری کے محاذ پر بہت سے مسائل حل طلب ہیں ۔

البتہ دوحہ مذاکرات میں ایک دوسرے کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ کرنے اور جنگ بندی پر اتفاق رائے ہو گیا ہے،جو خوش آیند ہے۔ یہ اعتماد سازی ہی کا فقدان ہے کہ دونوں ممالک کے وفود تیسری جگہ مذاکرات کا حصہ بنے۔ پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کے تمام تر تحفظات پر جو یقین دہانی کرائی اور وعدے کیے گئے تھے۔

 اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی ہے ۔بنیادی نقطہ یہ ہی تھا کہ افغانستان کے اقتدار پر قابض ہونے سے پہلے طالبان کی قیادت نے دوحہ ہی میں امریکیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس میں یہ عہد بھی کیا تھا کہ طالبان کے اقتدار میں افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، نہ دہشت گردوں کی کسی بھی سطح پر سرپرستی یا سہولت کاری ہی کی جائے گی۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا ، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں تیزی آئی اور یہ دہشت گرد افغانستان سے آتے رہے ہیں ۔

 مستقل جنگ بندی تب ہی ہوسکتی ہے، جب افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا بند ہوگا اور کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے خلاف افغان حکومت کا سخت ایکشن اور مطلوب افراد کی پاکستان کو حوالگی پر کوئی بڑی پیش رفت سامنے آئے گی۔

پاکستان علاقائی ممالک، چین ، امریکا یا قطر سے افغانستان کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر ضمانت چاہتا ہے ۔کیونکہ پاکستان کو اس بات کا تجربہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت ماضی میں بار بار یقین دہانیوں کے باوجود اپنی روش سے باز نہیں آئی اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں رہی۔یہ سوال بھی اہمیت رکھتا تھا کہ اگر حالیہ دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمہ میں ضمانت دیتی ہے تو اس کی پاسداری کیسے ممکن ہوگی اور کون اس پر عمل کرائے گا؟ موجودہ حالات میں یہ امکان کم نظر آتا ہے ۔اس میں امریکا،چین ،سعودی عرب اور قطر کی ثالثی اور بڑے کلیدی کردار کے بغیر امن ممکن نہیں ۔ ایک مسئلہ بھارت اور افغانستان کی طالبان قیادت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں ، دہلی اور کابل میں امیر متقی اور جے شنکر کے درمیان جو حالیہ مذاکرات ہوئے اور جومشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے، وہ پاکستان مخالفت کی بنیاد پر نظر آتا ہے اور اس میں کشمیر کے مسئلہ پر افغان حکومت نے بھارت کے موقف کی حمایت کی ہے۔

مشترکہ اعلامیہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان کی قیادت کہاں کھڑی ہے اور ان کا اسٹرٹیجک پارٹنر کون ہے؟ موجودہ حالات میں اگر افغانستان پاکستان سے بہتر تعلقات چاہتا ہے تو یہ اس کی بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس تاثر کی کھل کر نفی کرے کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیاں اور جارحانہ عزائم نہیں رکھتا ہے ۔

اس کی ایک شکل ہمیں حالیہ دوحہ مذاکرات کے نتائج ہی کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی کہ پاکستان کے تناظر میں افغان پالیسی مستقبل میں کیسی ہوگی اور وہ کیسے خود کو پاکستان کی مخالفت میں بھارت کے حصار سے باہر نکال سکے گا۔افغانستان کو نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر علاقائی اور عالمی ممالک کو بھی اپنے طرز عمل سے یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں سے خود کو دور رکھے گا۔

کیونکہ سب سے اہم نقطہ یہ ہے جس پر پاکستانی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ جب افغانستان کے وزیر خارجہ دہلی میں تھے تو عین اس وقت ہی پاکستان کے خلاف جنگ کیوں چھیڑی گئی اور اس کا مقصد کیا تھا۔یہ عالمی برادری کی بھی ناکامی ہے جو دوحہ مذاکرات میں دونوںممالک کے درمیان طے ہوا تھا اس کی خلاف ورزی پر کیونکر افغانستان کی عبوری حکومت کو جوابدہ نہیں بنایا گیا۔دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا ہونا مسائل کا حل نہیں ۔اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جنگ کی طرف بڑھیں گے تو خطہ دہشت گردی اور عدم استحکام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس لیے گیند آج بھی افغانستان کی کورٹ میں ہے اور خود اس کی اپنی داخلی سلامتی کے لیے پاکستان سے بہتر تعلقات ناگزیر ہیں۔ افغان حکومت تضادات اور دوغلی سیاست سے باہر نکلے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دوحہ مذاکرات افغانستان کی کہ افغانستان افغانستان کے دہشت گردی کے افغان حکومت پاکستان کے کے اقتدار کے درمیان ممالک کے کے خلاف کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سعودی عرب میں امن مذاکرات بے نتیجہ ختم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ریاض:  پاکستان اور افغانستان کے درمیان سعودی عرب میں ہونے والے امن مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے تاہم دونوں فریقین نے سیز فائر جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

رائٹرز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے سعودی عرب کے ریاض میں امن مذاکرات کا تیسرا دور ہوا جس کی میزبانی سعودی عرب، ترکیہ اور قطر نے مشترکہ طور پر کی۔

رپورٹ کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوسکی تاہم جنگ بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

رائٹرز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے اجلاس کی میزبانی مشترکہ طور پر قطر، ترکیہ اور سعودی عرب نے کی اور یہ پرانے ادوار کی ہی تسلسل تھے۔

واضح رہے کہ اکتوبر میں افغانستان کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی اور جارحیت کی گئی تھی جس پر پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور کئی ٹھکانے تباہ کرنے کے ساتھ متعدد افغان طالبان کے اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • افغانستان کے یورپ کے ساتھ تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہوں گے، نائب وزیراعظم
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق کچھ علم نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
  • ترجمان دفترخارجہ کا سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق اظہار لاعلمی
  • افغانستان، عالمی دہشت گردی کا مرکز
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سعودی عرب میں امن مذاکرات بے نتیجہ ختم
  •   حجاز مقدس میں مذاکرات افغانستان خارجی فتنے کی سرپرستی سے تائب نہیں ہوا
  • امریکی نیشنل گارڈز پر فائرنگ کے ملزم کا طالبان حکومت یا عوام سے تعلق نہیں: افغان وزیرخارجہ
  • افغان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے: امریکی میڈیا رپورٹ
  • طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ بن چکی
  • افغان طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی