روسی دارالحکومت ماسکو سے شام کے سابق انٹیلی جنس سربراہ کمال حسن اور بشارالاسد کے ارب پتی کزن رامی مخلوف ملک میں بغاوت بھڑکانے کے لیے شامی عسکری گروہوں کو فنڈنگ کر رہے ہیں۔ دونوں سابق طاقتور شخصیات نہ صرف مسلح گروہوں کی تشکیل میں مصروف ہیں بلکہ دونوں کے درمیان بشارالاسد دور کے آخری دنوں میں بنائے گئے 14 زیرِ زمین کمانڈ مراکز پر کنٹرول کے لیے بھی آمنے سامنے ہیں۔

رائٹرز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق بشارالاسد کے وہ قریبی ساتھی جو گزشتہ سال انکی حکومت کے خاتمے کے بعد شام سے فرار ہوئے، اب ماسکو سے کروڑوں ڈالر ان افراد تک پہنچا رہے ہیں جنہیں وہ ممکنہ باغی فورس کے طور پر دوبارہ منظم کرنا چاہتے ہیں۔

ان اقدامات کا مقصد نئے شامی صدر احمد الشرع کی حکومت کے خلاف تحریکیں کھڑی کرکے اپنے کھوئے ہوئے اثر و رسوخ کو بحال کرنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سابق صدر بشارالاسد خود ماسکو میں خاموشی کی زندگی گزار رہے ہیں، مگر انکے قریبی حلقوں میں شامل کئی طاقتور افراد، بشمول ان کے بھائی ماہر الاسد، اقتدار سے محرومی کو قبول نہیں کر پائے۔

سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف میجر جنرل کمال حسن اور بشارالاسد کے بااثر کزن رامی مخلوف ساحلی شام اور لبنان میں اپنی اپنی ملیشیا بنانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔

یہ دونوں شخصیات علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں جنگجوؤں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر پچاس ہزار سے زائد جنگجوؤں کو مالی مدد دی جارہی ہے۔

ماہر الاسد بھی ماسکو میں موجود ہیں اور ہزاروں سابق فوجیوں پر اثرو رسوخ رکھتے ہیں، مگر اب تک انہوں نے کوئی براہِ راست حکم یا فنڈنگ نہیں کی۔

تاہم ان جلاوطن رہنماؤں کے لیے اس وقت بڑا ہدف وہ 14 خفیہ کمانڈ روم ہیں جو بشارالاسد کے دور کے آخر میں شام کے ساحلی علاقوں میں بنائے گئے تھے۔ ان کمروں میں اسلحہ، گولہ بارود اور دیگر آلات موجود ہیں۔

ماہرین کے مطابق اب یہ مقابلہ بشارالاسد کو خوش کرنے کے بجائے اسکے ممکنہ متبادل کی تلاش اور علوی برادری پر کنٹرول کے گرد گھوم رہا ہے۔ کمال حسن مسلسل کمانڈروں کو پیغامات بھیج رہے ہیں جن میں وہ اثر و رسوخ کے کھو جانے پر غصے کا اظہار اور شام کے ساحلی علاقوں پر اپنے مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

دوسری جانب رامی مخلوف، جو کبھی شامی معیشت کے سب سے طاقتور فرد تھے، اب خود کو ایک مذہبی و ’مسیحائی‘ کردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ وہ حتمی معرکے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔

رامی مخلوف برسوں نظر بندی میں رہے اور اس دوران مذہبی رجحان اختیار کرلیا۔ اب وہ ماسکو کے ایک لگژری ہوٹل کی ایک منزل پر سخت سیکیورٹی میں رہائش پذیر ہیں اور سابق اتحادیوں کا پیسہ روس، لبنان اور متحدہ عرب امارات میں موجود نمائندے جنگجوؤں تک پہنچا رہے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق مخلوف نے اب تک کم از کم 60 لاکھ ڈالر تنخواہوں میں خرچ کیے ہیں جبکہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ کچھ گروہوں کو ماہانہ چند ڈالر ملتے ہیں۔ کئی مقامی کمانڈروں نے اعتراف کیا کہ وہ فنڈز کمال حسن اور رامی مخلوف، دونوں سے لیتے ہیں۔

اسی دوران شام کی نئی حکومت ان منصوبوں کا توڑ کرنے کے لیے سابق حکومت کے ایک اور اتحادی خالد الاحمد کو متحرک کر رہی ہے۔ وہ موجودہ صدر الشرع کے بچپن کے دوست ہیں اور ان کا کام علوی کمیونٹی کو یقین دلانا ہے کہ ان کا مستقبل نئی حکومت کے ساتھ ہے۔

شام کے ایک شہر تارتوس کے گورنر احمد الشامی نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ شام کی حکومت ان سازشوں سے آگاہ ہے اور انہیں غیر مؤثر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق زیرِ زمین کمانڈ مراکز موجود تو ہیں، مگر اب زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ممکنہ بغاوت اس مرحلے پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔ حسن اور مخلوف ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں، اور انہیں روس کی حمایت حاصل نہیں، اور بہت سے علوی جو اسد دور میں خود مشکلوں کا شکار رہے، دونوں رہنماؤں پر اعتماد نہیں کرتے۔

مارچ میں ہونے والی ناکام بغاوت اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے شام میں کشیدگی میں مزید اضافہ کیا۔ اس دوران تقریباً 1500 علوی شہری مارے گئے، جبکہ ہزاروں لوگ بے روزگار اور عدم تحفظ کا شکار ہوئے۔ 25 نومبر کو حمص اور ساحلی شہروں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے علوی احتجاج نے حکومت کو نئے چیلنجز سے دوچار کیا۔ ان مطالبات میں خواتین کی بازیابی، قیدیوں کی رہائی اور زیادہ علاقائی خودمختاری شامل تھی۔

اگرچہ ان مظاہروں میں حسن اور مخلوف کا ہاتھ نہیں تھا، مگر دونوں نے عوامی غصے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی۔

دستاویزات کے مطابق بشارالاسد کے حامیوں نے رواں سال کے آغاز میں 5,780 افراد پر مشتمل ایک نئی فورس بنانے کی کوشش کی تھی، جسے زیرِ زمین کمروں سے اسلحہ فراہم کیا جانا تھا۔ تاہم یہ منصوبہ عملی شکل نہ اختیار کر سکا۔

مارچ کی بغاوت کے بعد شام میں طاقت کی نئی جدوجہد میں کمال حسن اور مخلوف نے اپنے حلقے منظم کرنا شروع کیے۔ مخلوف نے خود کو ’ساحل کا بیٹا‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ اسے علویوں کی رہنمائی کے لیے ’الہٰی مشن‘ ملا ہے۔

مخلوف نے لبنان، روس اور یو اے ای میں موجود اپنے نمائندوں کے ذریعے رقوم منتقل کیں۔ ان کے مطابق ان کے 80 گروہوں میں 54 ہزار سے زیادہ جنگجو موجود ہیں۔ تاہم مقامی کمانڈروں نے بتایا کہ جنگجوؤں کی بڑی تعداد حقیقی جنگ کے لیے تیار نہیں۔

کمانڈ پوسٹوں کی کمزوری کے ساتھ ساتھ دونوں رہنماؤں کے درمیان شدید باہمی عدم اعتماد بھی اس منصوبے کو متاثر کر رہا ہے۔ حسن نے سائبر حملوں کے لیے ہیکرز بھرتی کیے جبکہ مخلوف پر معاشی بندشوں کے باعث مالی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں۔

دوسری طرف شامی حکومت نے حالیہ مہینوں میں مخلوف اور حسن سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ تارتوس کے گورنر کے مطابق ساحلی علاقوں میں ان کے عزائم ناکام بنانے کی بھرپور تیاری موجود ہے۔

فیلڈ کمانڈروں کے بقول اگرچہ اسلحہ موجود ہے مگر ابھی تک کوئی واضح فریق ظاہر نہیں ہوا جس کے لیے یہ قوت استعمال کی جائے۔ یوں شام کا ساحل ایک نئی مگر کمزور ہوتی بغاوت کے احتمال کی زد میں ہے، جبکہ ماسکو میں موجود دونوں سابق بااثر شخصیات اپنے اپنے وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بشارالاسد کے کمال حسن اور کے مطابق حکومت کے بنانے کی ہیں اور رہے ہیں کے بعد کے لیے شام کے

پڑھیں:

شہید نصراللہ کے تشییع جنازہ پر بمباری کی امریکی تجویز بے نقاب

اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی ایلچی نے اسرائیلی حکام کو حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرلز کے تشییع جنازہ کی تقریب پر بمباری کی تجویز دی تھی اسلام ٹائمز۔لبنانی چینل ایم ٹی وی نے اسرائیلی چینل 14سے نقل کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ امریکی ایلچی مورگن اورٹاگس کہ جو حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے آخری مراسم سے عین قبل مقبوضہ فلسطین میں موجود تھی، نے قابض اسرائیلی حکام کو تجویز دی تھی کہ بیروت اسٹیڈیم میں دسیوں ہزار شہریوں کے ہمراہ جاری شہید سید حسن نصراللہ کی تشییع جنازہ کی تقریبات کو ''بھاری بمباری'' کا نشانہ بناتے ہوئے تہس نہس کر دیا جائے۔ صہیونی میڈیا کے مطابق اپنی وحشیانہ تجویز کے لئے مورگن اورٹاگس کی جانب سے پیش کیا گیا جواز یہ تھا کہ اس تقریب میں حزب اللہ لبنان کے اعلی عہدیدار موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فریق نے امریکی تجویز پر عملدرآمد میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بالآخر اس تقریب پر حملہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اس شاندار تقریب کے دوران اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے اسٹیڈیم کے اوپر سے نیچی پروازیں انجام دیتے ہوئے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش ضرور کی۔ ۔ واضح رہے کہ حزب اللہ لبنان کے 2 شہید سیکرٹری جنرلز سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی نماز جنازہ 23 فروری 2025 بروز اتوار، 54 ہزار نشستوں کے حامل بیروت کے کمیل شمعون اسٹیڈیم میں ادا کی گئی جبکہ اس تقریب میں ایران سمیت متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ و پارلیمانی وزراء بھی شریک تھے جبکہ اس تقریب کے عین وسط میں قابض صہیونی رژیم کے متعدد جنگی طیاروں نے لبنانی فضائی حدود کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمیل شمعون اسٹیڈیم پر نیچی پروازیں کیں اور ساؤنڈ بیریئر توڑا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے سید عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے وہاں موجود ان لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی گھناونی کوشش میں ہمارے سروں کے اوپر نیچی اڑان بھری کہ جو صرف غم و اندوہ کا اظہار کرنے کے لئے وہاں جمع ہوئے تھے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ دہشتگردی کی کارروائی نہیں تو پھر کیا ہے؟ ایرانی وزیر خارجہ نے اس تقریب میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت کو لبنان میں مزاحمت و حزب اللہ کی مضبوط بنیاد قرار دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب
  • سیکیورٹی فورسز کی خیبر پختونخوا میں کارروائیاں، بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج کے 9 دہشتگرد ہلاک
  • بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب؛ امریکا میں گرفتار لقمان خان کون ہے؟ حقائق سامنے آگئے
  • 1967افغان حکومت پاکستان کے سیکیورٹی خدشات دور کرے، صدر کرغزستان
  • شہید نصراللہ کے تشییع جنازہ پر بمباری کی امریکی تجویز بے نقاب
  • افغان حکومت پاکستان کے سیکیورٹی خدشات دور کرے، پاکستان اور کرغزستان کا اتفاق
  • بلوچستان حکومت کا بیرون ملک موجود کالعدم تنظیموں کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ
  • بھارت کو بڑا جھٹکا: انڈین براہموس انجینیئر پاکستان کیلئے جاسوسی الزام سے بری
  • پنجاب حکومت نے 25 برس بعد پتنگ بازی کی اجازت دے دی، آرڈیننس جاری