Islam Times:
2025-12-06@03:37:14 GMT

امریکہ حقیقی دہشتگرد ہے

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

امریکہ حقیقی دہشتگرد ہے

اسلام ٹائمز: اب وقت آچکا ہے کہ عالمی برادری انصاف، مساوات اور اصولوں پر مبنی عالمی نظام کی بحالی کے لیے متحد ہو۔ حقیقی امن اسی وقت ممکن ہے، جب طاقتور قومیں اپنے مفادات کے بجائے انسانیت کو ترجیح دیں۔ یہی بات ہمیں حالیہ دنوں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے تازہ ترین خطاب میں ملتی ہے کہ جس میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہے تو امریکہ اسے برداشت کیوں نہیں کرتا۔؟ امریکہ کو دوسری قوموں کی ترقی اور پیشرفت سے کیا مسئلہ ہے۔؟ امریکہ کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ دوسری قوموں پر اپنے فیصلے صادر کرے اور انکے معاملات میں دخل اندازی کرے۔؟ یہی وقت ہے کہ قوموں کو بیدار ہونا پڑے گا، تاکہ ظلم کے اس نظام اور دنیا کی اس دہشتگرد حکومت کو لگام دی جائے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

دنیا کی موجودہ سیاست میں اگر کسی کو طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے تو وہ امریکہ ہے۔ حالانکہ اب یہ تاثر زائل ہو رہا ہے اور طاقت مغرب سے مشرق کی جانب تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ نئے نئے اتحاد اور فورمز اس بات کی دلیل ہیں کہ گلوبل سائوتھ اپنی جگہ بنا رہا ہے اور اس قابل ہونے کی جدوجہد میں ہے کہ دنیا کے بیشتر مسائل کو صرف ایک امریکہ جیسی اقلیت کے سپرد نہ کیا جائے۔ پہلی جنگ عظیم میں اسی امریکی حکومت نے جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے اسلحہ فروخت کیا اور بعد ازاں دوسری جنگ عظیم کے دوران خود ہی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگ میں وارد ہوا اور انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر دکھ دیں، یعنی ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا دیئے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک امریکہ خود کو "عالمی امن کا محافظ" قرار دیتا آیا ہے، لیکن عملی طور پر اس کی خارجہ پالیسی کے کئی پہلو ایسے ہیں، جنہوں نے عالمی امن کو کمزور اور انتشار کو فروغ دیا ہے۔

مقالہ کا موضوع جیسا کہ امریکہ حقیقی دہشت گرد رکھا گیا ہے، یہ عنوان حال ہی میں ایران کے سپریم لیڈ ر آیت اللہ خامنہ ای کی تازہ ترین تقریر سے لیا گیا ہے، جس میں انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا غزہ کے بچے اور خواتین جن کو امریکی ایماء پر غاصب صیہونی حکومت قتل کر رہی ہے، دہشت گرد ہیں؟ یا یہ کہ امریکی حکومت ایک حقیقی دہشتگرد ہے۔ راقم بھی اس بات سے سو فیصد متفق ہے کہ اگر دنیا میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے والی کوئی حکومت ہے تو وہ صرف اور صرف امریکی حکومت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی حکومت نے اپنے آپ کو ایک عالمی طاقت کے عنوان سے پیش کیا۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو رہا تھا کہ جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ تباہ ہوچکا تھا، امریکہ نے اپنے اقتصادی اور عسکری وسائل کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ مارشل پلان کے ذریعے یورپ کی تعمیرِ نو میں کردار ادا کیا، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ عالمی اداروں جیسے اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ یہ وہ بنیاد تھی، جس پر بعد میں امریکہ نے اپنی بالادستی پر مبنی خارجہ پالیسی استوار کی۔

امریکی حکومت کی دہشتگردانہ پالیسیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں دو سو سالہ تاریخ میں دہشتگردی ہی ملتی ہے۔ اس عنوان سے راقم پہلے ہی کئی مقالہ جات تحریر کرچکا ہے۔ اگر ہم صرف گذشتہ سات سے آٹھ دہائیوں کی بات کریں تو اس میں بھی امریکی تاریخ دہشت گردی کی سیاہ تاریخ ہے۔ امریکہ نے پچھلے 70 برسوں میں متعدد ممالک میں براہِ راست یا بالواسطہ مداخلت کی۔ ویتنام (1955ء سے 1975ء) تک جہاں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنے۔ ویت نام کی جنگ سرد جنگ کے دور میں شروع ہوئی، جب امریکہ نے کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جنوبی ویت نام کی حمایت کی۔ امریکہ نے بمباری، کیمیائی ہتھیاروں (Agent Orange)، اور زمینی فوج کے ذریعے ایک طویل اور خونریز جنگ چھیڑی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً 30 لاکھ افراد مارے گئے، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی۔ امریکہ کو بالآخر 1975ء میں شرمناک شکست کے بعد پسپا ہونا پڑا، جس نے اس کی عسکری برتری کے تاثر کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ جنگ اس بات کی علامت بن گئی کہ طاقت کے زور پر نظریات کو نہیں بدلا جا سکتا۔

سنہ 2003ء میں عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کے نام پر جنگ مسلط کی گئی، جن کی موجودگی کبھی ثابت نہ ہوسکی۔ امریکہ نے 2003ء میں عراق پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction) موجود ہیں۔ بعد میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا، لیکن اس وقت تک عراق کی ریاستی ساخت تباہ ہوچکی تھی۔ بغداد، فلوجہ اور دیگر شہروں پر شدید بمباری ہوئی، لاکھوں شہری قتل کر دیئے گئے۔ امریکی حملے کے بعد فرقہ واریت کو ہوا ملی، جس نے داعش جیسے گروہوں کو جنم دیا۔ عراق آج بھی اس جنگ کے بعد مکمل طور پر سنبھل نہیں سکا۔ اس مہم نے عالمی برادری میں امریکہ کے اس تشخص کو تقویت پہنچائی کہ امریکی حکومت خود ایک دہشتگرد حکومت ہے۔ جو انسانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پروا ہ نہیں کرتی ہے۔

سنہ 2001ء سے لے کر سنہ2021ء تک افغانستان میں بھی امریکی دہشتگردی جاری رہی۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک پورا ملک تباہ کرکے رکھ دیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، مقصد القاعدہ کا خاتمہ اور طالبان حکومت کی برطرفی بتایا گیا۔ بیس سال تک جاری رہنے والی اس جنگ نے افغانستان کو کھنڈر میں بدل دیا۔ لاکھوں شہری مارے گئے، معیشت تباہ ہوگئی اور مہاجرین کی سب سے بڑی لہر پیدا ہوئی۔ امریکی افواج کے جانے کے بعد 2021ء میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے، جس سے ثابت ہوا کہ دو دہائیوں کی جنگ نہ جمہوریت لا سکی، نہ استحکام۔ اس جنگ نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے (خصوصاً پاکستان اور ایران) پر گہرے اثرات ڈالے اور دہشت گردی، بدامنی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ یہ سب امریکی دہشتگردانہ پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔

فلسطین وہ خطہ ہے، جہاں امریکہ کی پالیسی نے سب سے زیادہ کھلا تضاد دکھایا ہے۔ امریکہ ہمیشہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، مگر اسرائیل کی ہر جارحیت پر خاموش رہتا ہے۔ 1948ء سے اب تک امریکہ نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف درجنوں قراردادوں کو ویٹو کیا، جس سے انصاف کے راستے بند ہوئے۔ غزہ میں ہونے والی نسل کشی، محاصرے اور بمباری کے باوجود امریکہ مسلسل اسرائیل کو عسکری و مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ امریکی میڈیا اور پالیسی بیانیہ اسرائیل کو دفاعی قوت اور فلسطینی عوام کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرتا ہے، جو کہ ایک واضح دوہرا معیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے انسانی حقوق کے ادارے، حتیٰ کہ امریکی دانشور بھی، آج امریکہ کی فلسطین پالیسی کو منافقت پر مبنی قرار دیتے ہیں۔

یہ امریکی حکومت ہے کہ جس نے آج سے چار ماہ قبل ہی ایران پر براہ راست حملہ کیا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ یہ سب کھلی جارحیت اور دہشتگردی کی مثالیں ہیں۔ لیبیا اور شام میں بھی امریکی مداخلت نے خطے کو غیر مستحکم کر دیا۔ ان تمام جنگوں میں امریکی بیانیہ ہمیشہ جمہوریت، آزادی اور تحفظ کا رہا، مگر عملی نتیجہ انسانی المیے، مہاجرت اور دہشت گردی کی نئی لہروں کی صورت میں نکلا۔ امریکہ خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن اس کے اقدامات اکثر دوہرے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموشی، سعودی عرب، مصر اور دیگر مطلق العنان حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات، یہ تمام عوامل اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکی پالیسی اصولوں کے بجائے مفادات پر مبنی ہے۔ یہی امریکہ ہے کہ جس نے یمن پر بھی حملہ کیا۔ ویٹو پاور کا استعمال کرکے چھ مرتبہ غزہ جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی حکومت امریکی حکومت ہے۔

امریکہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہاں تک کہ لاطینی امریکہ کے ممالک کے خلاف بھی امریکی حکومت اپنی دہشتگردانہ پالیسیوں سے باز نہیں آتی ہے۔ وینزویلا جیسے ممالک کے خلاف پالیسیوں میں بھی یہی رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ عالمی برادری انصاف، مساوات اور اصولوں پر مبنی عالمی نظام کی بحالی کے لیے متحد ہو۔ حقیقی امن اسی وقت ممکن ہے، جب طاقتور قومیں اپنے مفادات کے بجائے انسانیت کو ترجیح دیں۔ یہی بات ہمیں حالیہ دنوں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے تازہ ترین خطاب میں ملتی ہے کہ جس میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہے تو امریکہ اسے برداشت کیوں نہیں کرتا۔؟ امریکہ کو دوسری قوموں کی ترقی اور پیشرفت سے کیا مسئلہ ہے۔؟ امریکہ کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ دوسری قوموں پر اپنے فیصلے صادر کرے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔؟ یہی وقت ہے کہ قوموں کو بیدار ہونا پڑے گا، تاکہ ظلم کے اس نظام اور دنیا کی اس دہشتگرد حکومت کو لگام دی جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی حکومت بھی امریکی کہ امریکی امریکہ کو امریکہ نے حملہ کیا حکومت ہے ہے کہ جس میں بھی کرتا ہے عظیم کے کے بعد اس بات جنگ کے

پڑھیں:

طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ بن چکی

واشنگٹن(ویب زڈیسک) افغان طالبان رجیم نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی شدید خطرہ بن چکی، افغانستان فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان، داعش، القاعدہ جیسی عالمی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ بن چکا۔

26 نومبر 2025ء کو امریکا کے وائٹ ہاؤس پر فائرنگ کے واقعہ میں افغان نژاد رحمان اللہ لاکانوال ملوث تھا، اس افسوسناک واقعہ میں نیشنل گارڈز کے دو اہلکار ہلاک بھی ہوئے۔

سی این این کے مطابق گرفتار دہشتگرد اس سے قبل افغانستان میں CIA کے لئے کام کر چکا ہے، سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے مطابق نیشنل گارڈ پر حملہ کرنے والا دہشتگرد افغانستان میں شدت پسند تنظیموں سے مسلسل رابطے میں تھا۔

واشنگٹن میں افغان شہری جمال ولی نے ورجینیا کے دو پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے زخمی کیا، امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق بہت سی افغان شہری اس سے قبل بھی مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے جن کو بائیڈن انتظامیہ کی طرف قانونی حیثیت دی گئی تھی۔

افغان شہری عبداللہ حاجی زادہ اور ناصر احمد توحیدی کو 2024ء کے الیکشن کے دن دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا افغان شہری محمد خروین جو دہشت گردی کی واچ لسٹ میں شامل تھا، اسے 2024ء میں گرفتار کیا تھا افغان شہری جاوید احمدی کو 2025ء میں گرفتار کیا تھا اور اسے دوسرے درجے کے حملے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

افغان شہری بحراللہ نوری کو مجرمانہ سرگرمیوں پر گرفتار کیا گیا تھا اسی طرح افغان شہری ذبیح اللہ مہمند کو مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

27 نومبر 2025ء کو افغان سرزمین سے ڈرون حملے میں تاجکستان میں تین چینی مزدور ہلاک ہو گئے تھے،یکم دسمبر کو تاجک حکام نے تصدیق کی کہ افغانستان کے ساتھ جھڑپ میں مزید دو چینی مزدور ہلاک ہوئے، افغان شہریوں کی جانب سے یہ دہشت گردانہ حملے وسطی ایشیا، یورپ اور اب امریکا تک پھیل چکے ہیں۔

پاکستان سمیت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل افغان طالبان رجیم کی دہشت گردوں کے لئے پشت پناہی پر خدشات ظاہر کر چکی ہیں رواں سال پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک اور گرفتار دہشت گردوں کا تعلق افغانستان ہی سے تھا۔

کے مطابق” اگست 2021ء میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار میں آنے کے بعد سے خطہ بھر میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا۔ آسٹریلوی جریدے کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے شمال و مشرقی علاقوں میں موجود شدت پسند نیٹ ورکس نے اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں امریکی ادارہ برائے امن نے بھی طالبان کی واپسی کے بعد افغانستان کو بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔

فاکس نیوز کے مطابق 29 نومبر 2025ء کو ٹیکساس میں افغان نژاد محمد داؤد نے سوشل میڈیا پر بم دھماکے کی دھمکی دی، اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم اور SIGAR رپورٹس مسلسل افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتی رہی ہیں اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ڈنمارک اور روس نے بھی فتنہ الخوارج کے مذموم عزائم سے عالمی برادری کو خبردار کیا تھا۔

ایران، جرمنی اور دنیا بھر کے بیشتر ممالک شدت پسندی اور دہشت گردی کے باعث افغانیوں کو ملک بدر کر رہے ہیں دنیا بھر میں موجود افغان شدت پسند نظریات عالمی امن کے لئے خطرے کا باعث بن گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فیفا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن ایوارڈ کا اعزاز دے دیا
  • امریکہ میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور حملے کی منصوبہ بندی پر گرفتار شہری پاکستانی نہیں بلکہ افغان ہے:پاکستان دفتر خارجہ 
  • مقصودِ حقیقی صرف فلاح اخروی
  • امریکہ نے غیرملکی ملازمین کیلئے ویزہ شرائط میں مزید سختی کردی، رائٹرز
  • افغان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے: امریکی میڈیا رپورٹ
  • طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ بن چکی
  • چین نے انتہائی سستے دفاعی ہائپر سونک میزائل متعارف کرادیے، عالمی مارکیٹ میں تہلکہ
  • افغان طالبان حکومت وسطی ایشیا اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی
  • لاہور ہائیکورٹ نے بچہ حقیقی والدین سے لے کر لے پالک والدین کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا
  • قومی زندگی میں خصوصی افراد کی مکمل شمولیت حکومت کی ترجیح ہے، صدر مملکت کا عالمی دن پر  پیغام