نیویارک (نیوزڈیسک)امریکہ میں ڈنکن اسٹورز پر ڈونٹس کی پراسرار قلت کا سامنا۔ سوشل میڈیا پر لوگ حیران ہیں کہ اسٹورز میں یہ سوئیٹ اسنیکس کیسے نہیں بنے اور کچھ لوگ اس کے بارے میں اپنے سازشی نظریات بھی لے کر آگئے۔

امریکہ بھر میں خاص طور پر نیبراسکا اور نیو میکسیکو میں ڈنکن اسٹورز پر ڈونٹس کی ایک عجیب قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ڈنکن، جسے 2018 تک ڈنکن ڈونٹس کہا جاتا تھا، اپنے مشہور ڈونٹس فراہم کرنے سے قاصر ہے، اور کوئی نہیں جانتا کہ کیوں۔ ایک اسٹور مینیجرکا کہنا ہے کہ یہ ملک گیر مسئلہ ہے۔

اوماہا، لنکن اور گرینڈ آئی لینڈ کے اسٹورز کو یہ کہتے ہوئے اپنے دروازوں پر نشانات لگانا پڑے کہ ڈونٹس ”مینوفیکچرنگ کی خرابی“ کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے بارے میں مزید تفصیلات پوچھے جانے پر، مغربی اوماہا میں ڈنکن کی ایک مینیجر نے کہا کہ وہ کمپنی کے ہیڈ کوارٹر کی ہدایات کے بعد مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتیں۔ تاہم، اس نے تصدیق کی کہ ڈونٹ کی کمی ملک بھر میں ہو رہی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ڈنکن کو سپلائی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح کی ڈونٹ کی قلت 2021 میں ہوئی تھی۔ تاہم، اس بار، قلت صرف نیبراسکا اور نیو میکسیکو میں نہیں ہے۔ دوسری ریاستیں بھی خالی ڈونٹ ڈسپلے کی اطلاع دے رہی ہیں۔

جب ڈونٹ کی کمی کی خبر آن لائن پھیلی تو لوگ حیران رہ گئے کہ ڈنکن سٹورز پر ڈونٹس نہیں بنا رہا۔ کچھ لوگ اس صورت حال کے بارے میں سازشی نظریات بھی لے کر آئے۔

ایک صارف نے لکھا وہ اب سٹورز پر ڈونٹس نہیں بناتے؟ یہی تو ان کا بنیادی سیلنگ پوائنٹ تھا۔ایک شخص نے تبصرہ کیا، ”یہ صرف ’قلت‘ نہیں ہے بلکہ یہ ’آٹے کے ساتھ مسئلہ‘ کی طرح ہے۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ ان دکانوں پر بھیجے گئے آٹے میں کچھ غلط ہو گیا ہے۔“

قابل ذکر بات ہے کہ ڈنکن“ دنیا کی سب سے بڑی کافی اور ڈونٹ چینزمیں سے ایک ہے، جس کے 13,200 سے زیادہ ریسٹورنٹ ہیں۔ اس کی بنیاد 1950 میں میساچوسٹس میں رکھی گئی تھی۔ کمپنی کو 2020 میں اٹلانٹا پرائیویٹ ایکویٹی فرم انسپائر برانڈز نے $11.

3 بلین میں خریدا تھا، جو Arby’s اور Buffalo Wild Wings کے بھی مالک ہے۔
برازیل ، طوفانی بارشیں،لینڈسلائیڈنگ سے 10 افراد ہلاک، پورا گاوں تباہ، ایمرجنسی نافذ

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پر ڈونٹس

پڑھیں:

یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے امریکہ کی جانب سے ادارے کی رکنیت چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کثیرالطرفہ نظام کے بنیادی اصولوں سے متضاد قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے لیے گئے اس فیصلے سے ملک میں ادارے کے بہت سے شراکت داروں کو نقصان ہو گا جن میں عالمی ثقافتی ورثے میں شمولیت کے خواہش مند علاقوں کے لوگ، تخلیقی شہروں کا درجہ اور یونیورسٹیوں کی چیئر شامل ہیں۔

Tweet URL

ڈائریکٹر جنرل نے اس فیصلے کو افسوسناک اور متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ نجی و تعلیمی شعبوں اور غیرمنفعی اداروں میں اپنے امریکی شراکت داروں کے تعاون سے کام جاری رکھے گا اور اس معاملے پر امریکہ کی حکومت اور کانگریس کے ساتھ سیاسی بات چیت کرے گا۔

(جاری ہے)

خود انحصاری اور غیرمعمولی کام

آدرے آزولے کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ادارہ اپنے ہاں کئی بڑی اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات لایا ہے اور اس نے مالی وسائل کے حصول کے ذرائع کو متنوع بھی بنایا ہے۔ 2018 سے جاری ادارے کی کوششوں کی بدولت امریکہ کے مہیا کردہ مالی وسائل پر انحصار میں کمی آئی جو اس وقت یونیسکو کے مجموعی بجٹ کا 8 فیصد ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے بعض اداروں کا 40 فیصد بجٹ امریکہ مہیا کرتا رہا ہے۔

اس وقت ادارہ مالیاتی اعتبار سے کہیں بہتر طور پر محفوظ ہے اور اسے رکن ممالک کی بڑی تعداد سمیت بہت سے نجی اداروں اور افراد کا مالی تعاون بھی میسر ہے جبکہ 2018 کے بعد اسے دیے جانے والے عطیات دو گنا بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس موقع پر ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں کمی بھی نہیں کر رہا۔

2017 میں بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ آنے کے بعد ادارے نے ہر جگہ فروغ امن کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت ثابت کی۔

ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اُس دوران ادارے نے عراقی شہر موصل کے قدیم حصے کی تعمیرنو کرائی جو ادارے کی تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر پہلا اور واحد عالمی معاہدہ بھی منظور کرایا گیا اور یوکرین، لبنان اور یمن سمیت جنگ سے متاثرہ تمام ممالک میں ثقافتی ورثے کی حفاظت اور تعلیم کے لیے پروگرام شروع کیے۔

یہی نہیں بلکہ، یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع اور قدرتی ورثے کی حفاظت اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی اپنے اقدامات میں اضافہ کیا۔امریکی دعووں کی تردید

ان کا کہنا ہےکہ امریکہ نے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کی جو وجوہات پیش کی ہیں وہ سات سال پہلے بیان کردہ وجوہات سے مماثل ہیں جبکہ حالات میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے، سیاسی تناؤ کم ہو گیا ہے اور آج یہ ادارہ ٹھوس اور عملی کثیرالطرفہ طریقہ ہائے کار پر اتفاق رائے کا ایک غیرمعمولی فورم بن چکا ہے۔

امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے موقع پر کیے گئے دعوے ہولوکاسٹ سے متعلق دی جانے والی تعلیم اور یہود مخالفت کو روکنے کے لیے یونیسکو کی کوششوں کی حقیقت سے بھی متضاد ہیں۔

یونیسکو اقوام متحدہ کا واحد ادارہ ہے جو ان موضوعات اور مسائل پر کام کرتا ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم، عالمی یہودی کانگریس بشمول اس کے امریکی شعبے اور امریکی یہودی کمیٹی (اے جے سی) جیسے اداروں نے بھی اس کام کو سراہا ہے۔

علاوہ ازیں، یونیسکو نے 85 ممالک کو ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینے اور اس سے انکار اور نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے درکار ذرائع اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔

آدرے آزولے نے کہا ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود یونیسکو اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کا اپنے ہاں خیرمقدم کرنا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جوہر ٹاؤن: پراسرار فائرنگ سے نوجوان جاں بحق
  • ٹک ٹاکر سمیرا راجپوت پراسرار طور پر جاں بحق
  • گھوٹکی، ٹک ٹاکر سمیرا راجپوت پراسرار طور پر جاں بحق،پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کرلیا
  • کھانے کے تیل میں ناجائز منافع خوری کا خوفناک اسکینڈل، صارفین سے 150 روپے فی لیٹر زیادہ وصولی
  • اسحٰق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے آج اہم ملاقات طے
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
  • ایم آر آئی مشین کا خوفناک حادثہ، گلے میں پہنی چین نے امریکی کی جان لے لی
  • امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا