ڈاکوؤں کو پولیس اور پیپلز پارٹی کے وڈیروں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
سکھر میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ آپریشن کے بار بار اعلان کے باوجود آج تک ڈاکوؤں کیخلاف کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ بلکہ پولیس ایک طرف ڈاکوؤں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے، تو دوسری طرف آپریشن کے نام پر آنیوالے فنڈز کی بندر بانٹ کرتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ ہر سال سندھ کے مختلف اضلاع سے سینکڑوں لوگ اغواء ہو رہے ہیں۔ ڈاکو راج کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ کچے کے ڈاکو پکے کے ڈاکوؤں کی سرپرستی میں معصوم شہریوں کو اغواء کرکے بھاری رقم تاوان وصول کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندے ڈاکو راج کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سکھر میں جماعت اسلامی سندھ کے زیر اہتمام بدامنی، اغواء برائے تاوان اور ڈاکو راج کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ سندھ کے اضلاع کشمور، شکارپور، جیکب آباد، گھوٹکی و دیگر اضلاع میں امن و امان کی ابتر صورتحال چوری، ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر ہمیں شدید تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی کچے کے ڈاکو پکے کے ڈاکوؤں کی سرپرستی میں معصوم شہریوں کو اغواء کرکے بھاری رقم تاوان وصول کر رہے ہیں۔ اس گھناؤنے کاروبار میں پولیس اور پیپلز پارٹی کے وڈیروں کی انہیں مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپریشن کے بار بار اعلان کے باوجود آج تک ڈاکوؤں کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ بلکہ پولیس ایک طرف ڈاکوؤں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے، تو دوسری طرف آپریشن کے نام پر آنے والے فنڈز کی بندر بانٹ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے منتخب ایم پی ایز اور ایم این ایز نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور کبھی انہوں نے اس مسئلے کے خلاف اسمبلی سمیت کسی فورم پر کوئی آواز بلند نہیں کی۔ جو ان کے شریک جرم ہونے کے لئے سب سے بڑا ثبوت ہے۔ جیکب آباد میں پولیس چیکنگ کے دوران شکار پور سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے صوبائی مشیر کی گاڑی سے بھاری اسلحہ برآمد ہوا، جو ڈاکوؤں کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔ جبکہ ایس ایس پی شکارپور کی رپورٹ میں واضح طور پر پیپلز پارٹی کے ان منتخب نمائندوں کا ذکر ملتا ہے جو ڈاکو راج کی سرپرستی کرتے ہیں۔
ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ مجھے حکومت سے زیادہ حزب اختلاف کے رہنماؤں اور سندھ کی سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت کی خاموشی پر تعجب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ کی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست قیادت مل کر بدامنی اغواء برائے تاوان اور ڈاکو راج کے خلاف بھرپور تحریک کا اغاز کریں۔ اس سلسلے میں کراچی جو سندھ کا دارالحکومت ہے میں موثر احتجاج ہونا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال میرا بھانجا عاطف علی ڈومکی اغواء ہوا۔ جبکہ پچھلے ہفتے میرا ایک عزیز میر ہزار خان ڈومکی کندکوٹ سے آتے ہوئے تنگوانی کے مقام پر اغواء کیا گیا ہے۔ جو اس وقت بھی ڈاکوؤں کی تحویل میں ہے۔ ہر ہفتہ ایک درجن کے حساب سے لوگ اغواء ہو رہے ہیں۔ جبکہ ہر سال سینکڑوں لوگ اغواء ہو رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کے ڈومکی نے کہا علامہ مقصود کی سرپرستی آپریشن کے ڈاکوؤں کی نے کہا کہ انہوں نے ڈاکو راج کے خلاف رہے ہیں کرتی ہے
پڑھیں:
بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں سندھ حکومت مکمل طور پر متحرک ہے، شرجیل میمن
پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر نے کہا کہ آج کراچی کے مسائل کے پیچھے کئی دہائیوں کی سیاسی چالاکیاں اور ادارہ جاتی ناکامیاں ہیں، ہم ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن سے عوام کا روزمرہ متاثر ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ملک میں جاری بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں سندھ حکومت مکمل طور پر متحرک ہے، ملک کے شمالی علاقوں میں حالیہ بارشوں سے شدید نقصان ہوا ہے، جب کہ سندھ حکومت 2010ء سے اب تک کئی بار طوفانی بارشوں اور سیلابوں کا سامنا کر چکی ہے اور اس ضمن میں مکمل تجربہ رکھتی ہے، اگر کسی بھی دوسرے صوبے کو سندھ حکومت کی ضرورت پڑی، تو ہم ہر ممکن امداد فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر تمام پارٹی کارکنان اور قیادت عوام کے ساتھ موجود ہیں اور عوامی خدمت کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے، ان کی عوامی پذیرائی سب کے سامنے ہے، اب وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں کبھی اجرک کے نام پر، کبھی لسانیت کے نام پر نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی سے جواب میں بھی نفرت آمیز بیان آئے اور انہیں سیاسی ہمدردی حاصل ہو۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کی وکٹ پر نہیں کھیلیں گے، ان کی اصلیت عوام جان چکی ہے، جب افاق احمد صاحب جیسی شخصیات جو کبھی کبھار جاگتی ہیں، بڑے جلسوں کا اعلان کرتی ہیں لیکن آخری رات کو واپس ہو جاتی ہیں، تو عوام کو خود سوچنا چاہیئے کہ کون ان کا خیرخواہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کا اصل چہرہ 1940ء سے 1980ء کے درمیان کا تھا، 1986ء کے بعد حالات بدلنا شروع ہوئے، ادارے کمزور کیے گئے اور شہر کو کنٹروورسی میں جھونک دیا گیا۔