WE News:
2025-11-02@18:17:19 GMT

شاید افغانوں میں ہی کوئی خامی ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

وزارت خارجہ کی غلام گردشوں کا تو نہیں معلوم البتہ کچھ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ضرور کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ کیا ماضی قریب کے ’اچھے افغان طالبان‘ اب ’برے انڈیا‘ کی گود میں جا رہے ہیں؟

جب گزشتہ نومبر میں بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری برائے مغربی ایشیا جے پی سنگھ کی کابل میں وزیر دفاع ملا یعقوب سے ملاقات ہوئی تب پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ اس ملاقات سے بہت پہلے سے طالبان انتظامیہ اور نئی دلی کے درمیان برف پگھلنی شروع ہو گئی تھی۔ تب تک بھارت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈیڑھ ملین کوویڈ ویکسینز، 300 ٹن ادویات، 40 ہزار لیٹر کیڑے مار زرعی کیمیکلز، 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور سردی سے بچاؤ کے کپڑوں کی کئی کھیپیں کابل بھیج چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خوشی خوشی کون زمین چھوڑتا ہے؟

جے پی سنگھ اور ملا یعقوب کی ملاقات سے بہت پہلے نومبر سنہ 2023 میں بھارت نے دلی میں قائم افغان سفارتخانے کے عملے کے سفارتی ویزوں میں توسیع سے انکار کر دیا کیونکہ سفیر سمیت بیشتر عملہ سابق اشرف غنی حکومت کے دور سے تعینات تھا اور بھارت نے طالبان انتظامیہ کو سفارتی درجہ نہیں دیا تھا۔

بھارت اب بھی افغان انتظامیہ کو مکمل سفارتی درجہ نہیں دیتا مگر روس، چین اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کی طرح کابل میں بھارتی سفارت خانہ بھی بغیر کسی رسمی سفیر کی تعیناتی کے کھلا ہوا ہے۔ جبکہ ممبئی کے افغان قونصل خانے میں طالبان انتظامیہ کے نامزد کردہ اکرام الدین کامل بطور قائم مقام قونصل جنرل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مگر ہم نے ان خبروں کا شاید ہی نوٹس لیا ہو۔

البتہ گزشتہ بدھ کو دبئی میں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات پر ہماری تیوری پر بل پڑنا لازم تھا کیونکہ بی بی سی اور الجزیرہ نے بھی اس ملاقات کو یوں اہم پیش رفت قرار دیا کہ اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ بھارت اور طالبان کا سب سے کھلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔

اس ملاقات کی جو تفصیلات کابل اور دلی سے بیک وقت جاری ہوئیں ان کے مطابق بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کو تجارت کی پیش کش کی۔ یعنی پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک عملی متبادل پیش کیا۔ اس کے علاوہ صحت اور کھیلوں (کرکٹ)  کے شعبے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ بھارت میں مقیم لگ بھگ 38 ہزار افغان پناہ گزینوں کی گھر واپسی کے لیے سہولتوں میں اضافے کی یقین دہانی کروائی۔

مزید پڑھیے:  انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا کیا کریں؟

بدلے میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے وعدہ کیا کہ افغان سرزمین کو بھارت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

(یہ یقین دہانی اس لیے اہم ہے کیونکہ طالبان کی سنہ 1996 تا سنہ 2000 حکومت پر بھارت الزام لگاتا تھا کہ افغان سرزمین کشمیری علیحدگی پسندوں اور القاعدہ سے جڑے کچھ بھارتی باشندوں کی تربیت کے لیے استعمال ہوتی ہے)۔

سوال یہ ہے کہ وہ بھارت جس نے طالبان کی پہلی حکومت کے مخالف شمالی اتحاد کی حمایت آخری وقت تک ترک نہیں کی۔ اکتوبر 2001 میں کابل پر امریکی بموں کے سائے میں طالبان حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کرنے والے اولین ممالک میں بھارت بھی شامل تھا۔

بھارت نے دہلی یونیورسٹی کے گریجویٹ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ حکومت کی بھرپور امداد کا دروازہ کھولا۔ بعد ازاں اشرف غنی حکومت سے بھی تعاون میں کمی نہیں آئی۔ بھارت نے سنہ 2001 سے سنہ 2021 تک افغانستان میں طبی مراکز، ہائی ویز اور ڈیمز کی تعمیر پر تقریباً 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کابل میں نیا پارلیمنٹ ہاؤس بطور تحفہ تعمیر کر کے دیا۔

بھارت طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا مذاکرات سے بھی کبھی خوش نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں دسمبر 1999 کی قندہار ہائی جیکنگ اور سال 2008 میں کابل میں اپنے سفارتخانے پر خودکش حملے کے نتیجے میں 58 ہلاکتوں کی یاد بھی تازہ تھی۔ اگست 2021 میں کابل سے بھارتی سفارتی عملے کو جس طرح ایئر لفٹ کر کے نکالا گیا وہ بھی اس کے ذہن میں ہوگا۔

مزید پڑھیں: دراصل معذور کون ہے ؟

دوسری جانب یہی افغان طالبان اور ان سے پہلے بائیں بازو کی سوویت نواز افغان حکومتوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین پاکستان کو مصیبت میں کام آنے والا بڑا بھائی قرار دیتے رہے۔ وہ 40 لاکھ پناہ گزینوں کو برداشت کرنے کا شکریہ ادا کرنا بھی کبھی نہیں بھولے۔ پاکستان نے نجیب اللہ کی جگہ مجاہدین اور برہان الدین ربانی کی جگہ ملا عمر اور اشرف غنی کی جگہ ملا ہبت اللہ کے طالبان کو اقتدار دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور اب بھی لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

مگر پھر ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ یہ ’احسان مند‘ بھی ظاہر شاہ، سردار داؤد، نور محمد ترہ کئی اور ببرک کارمل کی طرح پاکستان کی نیت پر کبھی 100 فیصد اعتماد نہیں کرتے۔ ملا عمر کی پہلی حکومت کو چھوڑ کے ہر افغان حکومت نے بھارت کو سرحد نہ ملنے کے باوجود جو عزت دی اس سے پاکستان جیسا محسن ہمیشہ محروم کیوں رہا؟

پاکستان کی افغان پالیسی کا اختتام ہمیشہ بطور بلیک کامیڈی ہی کیوں ہوتا رہا اور یہ پالیسی ہمیشہ ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘ پر ہی کیوں ختم ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس بابت کوئی بھی سوال پوچھنے پر بس اتنا ہی کیوں کہتی ہے کہ ’ڈونٹ وری، ایوری تھنگ ول بی اوکے‘۔

افغانستان کے 5 اور بھی ہمسائے ہیں ( ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران، چین) ۔ ان ہمسائیوں کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو افغانوں کو شانت رکھتی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارا ہر ’نیاز مند‘ ہر پچھلی افغان حکومت کی طرح  ہمارے ہی سامنے بھارت سے آنکھ مٹکا کرتا آیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ’ڈونٹ وری ایوری تھنگ ول بھی اوکے‘۔ پھر بھی جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اپنی ذہنی جامہ تلاشی ( سول سرچنگ ) میں کیا حرج ہے۔

یہ بھی پڑھیے: چین سے کچھ اقوالِ زریں بھی امپورٹ کر لیں

کوٹلیہ (چانکیا) کا نام تو سنا ہو گا۔ اور رموز مملکت پر آپ کے سینکڑوں اقوال میں ایک قول یہ بھی شامل ہے کہ ’ہمسائے سے زیادہ ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو‘۔

کم ازکم چانکیا کو ہی پڑھ لیں۔ شاید کچھ افاقہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

افغان طالبان پاکستان پاکستان طالبان تعلق چانکیا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان طالبان پاکستان پاکستان طالبان تعلق چانکیا میں بھارت کابل میں بھارت نے میں کابل کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ

پاکستان اور افغانستان کے حالات نہ صرف کشیدگی بلکہ جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے واقعات اور افغان طالبان کی دوغلی پالیسی ہے۔ حالیہ دنوں میں قطر اور ترکیہ کی میزبانی اور ثالثی کے کردار کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ اس ناکامی نے مستقبل کی بہتری کے امکانات پرسوالات کھڑے کردیے ہیں۔

اس کا مجموعی اثر خطے میں دہشت گردی کی وجوہات کو دور کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں جو امید کے پہلو قائم ہوئے تھے کہ معاملات بات چیت کی صورت میں حل ہوسکیں گے، وہ بھی دم توڑ گئے ہیں۔ اب حالات ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سفارت کاری کے بجائے کشیدگی بڑھے گی اور ایسے لگتا ہے کہ مذاکرات کی حکمت عملی کی ناکامی نے امن کے حمایتیوں کو مایوس کیا ہے۔

ان مذاکرات میں تین مواقع ایسے بھی دیکھنے کو ملے جہاں امید بندھی تھی کہ مفاہمت میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آسکتی ہے جو تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اصولاً قطر اور ترکیہ کی مدد کی بنیاد پر مذاکرات آگے بڑھنا چاہیے تھے لیکن کابل میں بیٹھی افغان طالبان قیادت اور دہلی میں بیٹھی بھارت کی قیادت ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں مصروف تھی ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی بات چیت آگے بڑھتی تو مذاکرات میں شامل افغان وفد کہتا کہ وہ کابل اور قندھار سے اجازت لے لیں لیکن انھیں اجازت کے بجائے نئے مطالبات کی لسٹ مل جاتی ، یوں مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوتا رہا۔قطر اور ترکیہ کو بھی کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ افغان حکومت کا طرز عمل سفارتی آداب کے برعکس تھا ۔پاکستان نے یہ بھی واضح کردیا کہ ہم نے صرف قطر اور ترکیہ کی درخواست پر مذاکرات میں شرکت کی تھی۔حالانکہ ہمیں پہلے سے اندازہ تھا کہ افغان حکومت کا ایجنڈا پاکستانی مفادات کے برعکس ہے، وہ دہشت گردی ، ٹی ٹی پی اور دیگر ایشوز پر نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی عملی اقدامات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

پاکستان کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا اور پاکستان افغان حکومت سے تحریری ضمانت یا معاہدہ چاہتا تھا۔لیکن افغان طالبان حکومت کی جانب سے تحریری معاہدے سے انکاری اور انحراف ہی مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بنا ۔حالانکہ افغان حکومت کو پاکستان نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی پر مبنی شواہد بھی پیش کیے اور اسے افغان حکومت نے تسلیم بھی کیا مگر تحریری معاہدہ کرنے سے انکار کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس اہم معاملے پر تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتے تھے ۔پاکستان افغانستان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اہل دانش کے بقول اگر افغانستان کا وفد بااختیار ہوتا تو مفاہمت کا راستہ نکل سکتا تھا لیکن افغانستان میں موجود افغان طالبان کی قیادت نے مذاکرات کو ناکام بنایا ، یقیناً یہ افغان طالبان اور بھارت کا ایجنڈا تھا۔

 طالبان قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کی بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر جنگ کے نتیجے میں جو حالات کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے، وہ ممالک کو بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ قطر اور ترکیہ کے بعد بڑی عالمی طاقتیں یعنی امریکا اور چین اس ڈیڈ لاک میں کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے یا دونوں ممالک کو جنگ کے میدان میں دھکیل دیںگے۔

کچھ سادہ لوح یا حد سے زیادہ چالاک سفارت کار اس نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان سے تحریری معاہدے پر زور نہیں دینا چاہیے تھا اور نہ ہی افغان طالبان نے تحریری ضمانت دینی تھی ۔ان کی رائے یہ تھی کہ اگر زبانی طور پر افغان حکومت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے اور ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کراتی تو ہمیں یہ آفر قبول کرنی چاہیے تھی ۔لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ زبانی یقین دہانی کابل کئی دفعہ کرچکا ہے اور بار بار اس پر عملدرآمد کی ناکامی نے پاکستان کو تحریری معاہدے پر مجبور کیا ۔دوئم، افغان حکومت نے قطر اور ترکیہ کو بھی افغان طالبان کی طرف سے زبانی ضمانت دینے سے انکار کیا تھا جو عملی طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنی۔

اس وقت چین یا امریکا یا سعودیہ عرب بھی معاملات کے سدھار میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دونوں ممالک جنگ یا کشیدگی سے بچ سکیں۔ ہمیں اپنے سفارتی کارڈ یا سیاسی حکمت عملیوں کو اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ کھیلنا ہو گا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ افغانستان پاکستان کے تحفظات کو کسی بھی طور پر سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو ایسے میں کیا حتمی نتیجہ جنگ کی صورت ہی میں نکالنا لازم ہے۔ ہمیں مذاکرات کی ترتیب میں نئی حکمت عملی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔افغان حکومت کے پاس ترکیہ اور قطر میں مفاہمت کو پاکستان کے ساتھ آگے بڑھانے کا اچھا موقع تھا مگر افغان حکومت فائدہ نہیں اٹھا سکی اور آج دونوں ممالک جو کل تک برادر اسلامی ملک تھے اب جنگ کی حالت میں ہیں۔

افغانستان کو بھارت سے خبردار رہنا چاہیے جو اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان نیا سیاسی رومانس بھی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے ۔اس لیے خود افغان طالبان حکومت کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود کو پاکستان دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے تعلقات کی بہتری کو ہی اپنا ایجنڈا بنانا چاہیے۔

اس وقت جو منظرنامہ سامنے آیا ہے اس میں یقیناً یہ عمل ضروری نہ ہو کہ ہمیں جارحانہ راستہ اختیار کرنا ہے لیکن یہ امکان موجود ہے کہ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کشیدگی اور دہشت گردی کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے ، ٹی ٹی پی پاکستان میں جنگ کا دائرہ کار مزید پھیلا سکتی ہے۔ طالبان افغان حکومت کا حالیہ طرز عمل بھارتی ایما پر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری
  • پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ
  • کابل کی نیت واضح، افغان سرزمین کے استعمال پر پاکستان فوراً جوابی کارروائی کرے گا،وزیردفاع
  • مولانا فضل الرحمان ٹھیک شاٹس نہیں کھیل پا رہے
  • طالبان رجیم بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں،حافظ نعیم
  • بھارت افغان سرزمین سے پاکستان کیخلاف جنگ چھیڑرہاہے، خواجہ آصف
  • پنجابی دانش وروں کی پست مزاجی
  • طالبان رجیم سے کوئی امید نہیں، ثالث مذاکرت میں مخلص اور مسئلے کا حل چاہتے ہیں، خواجہ آصف