’’ایک اچھی پیش رفت یہی ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں‘‘
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ کے پی کا ایک ٹرائیکا ہے جس میں تین لوگ آتے ہیں، مولانا فضل الرحمن، علی امین گنڈاپور ہیں اور وہاں کے گورنر فیصل کریم کنڈی ہیں، اتفاق سے یہ تینوں ایک ہی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہیں، جب ایک ہی علاقے کے سیاستدان ہوتے ہیں تو انھوں نے محاذ گرم رکھنا ہوتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا مولانا فضل الرحمن سیاسی قیدیوں کی رہائی کا ٹھیک مطالبہ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ بات یہ ہے کہ جو حالات ہو چکے ہیں اگر ہم دیوار پر لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں، نابینا ہیں یا جاہل ہیں، ان دوباتوں میں سے ایک ہے، دیوار پر اب واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اس ملک کے اندر کیا چل رہا ہے، عمران خان اگر جیل سے باہر نہیں آ رہے تو آپ یقین کر لیں کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آ رہے، کوئی دوسرا ایشو نہیں ہے۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے جس طرح کی تجویز دی ہے انھوں نے سیاسی بلوغیت کا مظاہرہ کیا ہے، اسی پروگرام میںمیں نے بارہا کہا ہے کہ اگر آپ نے اعتماد سازی کرنی ہے تو سب سے پہلا اس کا اسٹیپ یہی ہے کہ آپ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں، یہاں یہ تجویز مولانا صاحب کی طرف سے آئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ تجویز پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے آنی چاہیے تھی۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ چوائس کرتے ہیں ہیرے، وہ کپتان ہیں اور ٹیم اپنی مرضی سے بہترین سیٹ کر کے کھلاتے ہیں، بہرحال بات تو مذاکرات کی ہے جب کل پی ٹی آئی لسٹ دے گی تو حکومت نے جو ان کے اراکین ہیں اور اتحادی جماعتیں وہ پھرسارے مل کر پرائم منسٹر کے آگے چلے جائیں گے کہ جی یہ لسٹ ہے، ایسے میں ایک اچھی پیش رفت بہر حال یہی ہے کہ وہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، گورنمنٹ نے جو کہا ہے کہ فہرست دیں اس میں سے کس کس کو سیاسی قیدی تسلیم کرتی ہے اور کس کو تسلیم نہیں کرتی، اس میں9 مئی کا بھی واقعہ ہے،جو فہرست دی جاتی ہے اگر اس میں بانی پی ٹی آئی کا نام بھی آجائے تو کیا اس کو بھی تسلیم کریں گے اور انھیں رہا کرنے کی بات کریں گے،یہ ساری چیزیں دیکھنی پڑیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ
پڑھیں:
چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 ستمبر2025ء)سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ٹرننگ پوائنٹ کے بانی چارلی کرک کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے اگرچہ مقتول کے سیاسی نظریات سے ان کا گہرا اختلاف تھا، مگر امریکی عوام کو ان آرا پر کھل کر تنقید کا حق حاصل ہے۔ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر کرک کو نہیں جانتے تھے، تاہم ان کے نقطہ نظر سے واقف تھے۔ اوباما نے مزید کہا: میرا خیال ہے کہ وہ نظریات غلط تھے، لیکن جو واقعہ پیش آیا وہ ایک افسوس ناک المیہ ہے، میں ان کے خاندان سے تعزیت کرتا ہوں۔اوباما نے کرک کے ان خیالات کو بھی مسترد کیا جن میں انہوں نے 1964 کے سول رائٹس ایکٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے خواتین اور اقلیتوں کی صلاحیتوں پر شکوک کا اظہار کیا تھا، یا مارٹن لوتھر کنگ جیسے تاریخی رہنماں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔(جاری ہے)
سابق امریکی صدر اوباما نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ قتل کے واقعے کو ملک میں تقسیم بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اس المیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے کرک کے خیالات پر بحث کو دبانی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اوباما نے مزید کہا: جب امریکی حکومت کا وزن انتہا پسند آرا کا پشتی بان بن جائے تو یہ ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔سابق امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ موجودہ وائٹ ہاس سے جاری اشتعال انگیز بیانیہ امریکی سیاست میں ایک انتہائی خطرناک موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیاسی مخالفین کو دشمن قرار دے کر نشانہ بنانا جمہوری اقدار کے لیے نقصان دہ ہے۔ اوباما نے زور دیا کہ اختلافِ رائے اور تشدد پر اکسانے کے درمیان واضح فرق قائم رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔