لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
صاحبو! لب کتنے ہی آزاد ہوں کہنے اور بولنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ کتنی احتیاط؟ اتنی کہ بقول جون ایلیا ’’جو کہنا چاہیں تو کپکپانے لگیں اور بولنا چاہیں تو بولا جائیں‘‘۔ اچھا بھلا ’’لاس‘‘ اینجلز Los Angeles تھا جسے ’’لوس‘‘ اینجلز Loss Angeles کر دیا گیا۔ ممکن ہے یہ بھی سبب ہوکہ آج لوس اینجلز میں ہر طرف خسارہ ہی خسارہ، گھاٹا ہی گھاٹا، آگ ہی آگ ہے۔ ’’جنگل کی آگ‘‘ یا ’’جنگل میں آگ‘‘ نئی بات نہیں۔ جنگلوں میں آگ لگتی ہی رہتی ہے۔ جس کے باعث ہونے والی تبدیلیاں نئی زرخیزیوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ آگ بے قابو بھی ہوجاتی ہے لیکن لاس اینجلز جیسی بے قابو!! اللہ کی پناہ۔
ایک ہفتے سے زیادہ ہوجانے 84 ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں، 15 ہزار رضاکاروں، ایک ہزار سے زائد قیدیوں، ایک ہزار تین سو سے زائد فائر انجنوں سے مدد لینے اور دیگر کوششوں کے باوجود آگ قابو میں نہیں آرہی۔ جس کا سبب 50 سے 110 کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں یہ خشک ہوائیں پیر سے بدھ تک مزید تیز اور خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔ اندازہ نہیں لگا یاجاسکتا کہ ہوائیں اب کیا رخ اختیار کریں گی۔ ان تیز ہوائوں نے آگ بجھانے والے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی اڑان کو انتہائی مشکل بنادیا ہے اور اس امریکی ٹیکنالوجی کو بھی بے اثر کردیا ہے جس میں جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے ایسا کیمیکل چھڑکا جاتا ہے جو متاثرہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ اور آکسیجن کی مقدار کم کردیتا ہے جس سے آگ بجھانے میں مدد ملتی ہے۔ آگ کے سبب اموات کی تعداد 24 ہوچکی ہے جن میں اضافے کا امکان ہے۔
مقامی حکام اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آگ اور پھیل سکتی ہے، گنجان آبادی والے علاقوں کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے کہا ہے کہ لاس اینجلس میں لگنے والی آگ سے نقصانات کے تخمینے اور متاثر ہونے والے رقبے کے سبب یہ امریکا کی بدترین قدرتی آفت میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ اب تک لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق 135 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر کے نقصانات ہو چکے ہیں۔ حکام نے آگ سے انتہائی پر تعیش اور مہنگے گھروں سمیت لگ بھگ 12 ہزار املاک کے نذرِ آتش ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد علاقہ چھوڑ کر جاچکے ہیں جب کہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ نو مقامات پر بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ کیلی فورنیا فائر ڈیپارٹمنٹ کے نائب سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ہمیں قدرت کی جانب سے رحم کی ضرورت ہے‘‘۔
لاس اینجلس سے نقل مکانی کرنے والوں کا کہنا کہ ’’ایسا لگتا ہے جیسے لاس اینجلس پر ایٹمی حملہ ہوا ہے‘‘۔ ایک کائونٹی کے شیرف کا کہنا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا سب سے خوف ناک بم لاس اینجلس میں چلا ہے‘‘۔ وجہ اس کی یہ بیان کی جارہی ہے کہ لاس اینجلس کی آگ بھی ہیروشیما اور ناگاساکی پر 1945 کے امریکی ایٹم بموں کے حملے سے بھڑکنے والی آگ جیسی ہے کہ جتنا اسے بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں تیزی آنے لگتی ہے۔ ایک صحافی خاتون کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے کچھ دن بعد جب میں دوبارہ اپنے محلے میں گئی تو پوری گلی جس میں بیس مکان تھے جل کر کوئلہ بن چکی تھی۔ کوئی چیز سلامت نہیں تھی۔ مجھے پہلی مرتبہ اس کرب کا احساس ہوا جو گھر جلنے سے ہوتا ہے۔ گھر، جس کے بنانے میں عمر بیت جاتی ہے۔
لاس اینجلس کی آگ سے پورے امریکا میں خوف کا عالم ہے۔ آگ کو ردعمل قراردیا جارہا ہے اس عمل کا جو دنیا بھر میں امریکی بمباری اور حملوں کی وجہ سے جان ومال اور املاک کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عالم اسلام میں مکمل طور پر تو نہیں لیکن اکثر اسے غزہ اور مسلم ممالک کی بربادی میں کردار کی وجہ سے امریکا پر اللہ کا عذاب اور اللہ کی طاقت کا مظہر قرار دیا جارہا ہے۔ یہ موقف کس قدر درست ہے؟ مکافات عمل کو یقینا سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارا بھی یہ عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مظلوم کا بدلہ دنیا میں بھی لیتے ہیں۔ جہاں مظلوم سراپا بے بسی کی تصویر ہوں وہاں ایسے بدلے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ آگ اسی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے، یقینا اس کا حتمی جواب پھر بھی نہیں دیا جاسکتا سوائے اس کے ایک بیانیہ کے درجے میں اس کی گنجائش ہو لیکن بہرحال یہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ اللہ کا معاملہ ہے۔
لاس اینجلز کی آگ پر خوش ہونے اور غزہ سے لنک کرنے کے بجائے مسلمانوں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے سوا سال سے جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے اس پر مسلمانوں پر بحیثیت امت جو ذمے داری عائد ہوتی ہے کیا مسلمانوں نے وہ ذمے داری ادا کی ہے؟ جب دنیا میں کہیں بھی مسلمان مشکل میں ہوں، ان پر ظلم ہو رہا ہو، انہیں شہید اور زخمی کیا جارہا ہو، عزتوں کو پامال اور املاک کو برباد کیا جارہا ہو، زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہو تو مسلمانوں پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ظلم سے نجات دلانے کے لیے وہ مسلم افواج میں موجود اپنے بھائیوں، بیٹوں، عزیزوں اور دوستوںسے ملتے ہیں، انہیں ذمے داری کا احساس دلاتے ہیں اور مسلم افواج کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ ایک شرعی ذمے داری اور اللہ کا حکم ہے۔ اگر مسلمان اس حکم سے روگردانی کرتے ہیں تو وہ اللہ کے عذاب اور غضب کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔
لاس اینجلز میں آگ کے اسباب کا ہمیں نہیں معلوم لیکن ایک بات معلوم ہے کہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ نے جو فرض ہم پرعائد کیا ہے اس کا لازمی حساب ہم سے لے گا، دنیا میں نہیں تو آخرت میں تو یقینی ہے۔ آگ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے ہم جہاد کے لیے متحرک نہ ہونے کی اپنی غفلت پر پردہ ڈال رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو بدلہ نہیں لیا لیکن اللہ نے بدلہ لے لیا۔ ایسے میں یہ نہیں سوچا جارہا ہے کہ ہماری بے عملی سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نظر میں ہماری کیا وقعت رہ گئی ہوگی۔ ہم کس بات پر خوش ہورہے ہیں جب کہ ہماری ذمے داری ابھی بھی ادا ہونا باقی ہے۔
غزہ کے حوالے سے اگر عذاب آتا تو شاید سب سے پہلے مسلم حکمرانوں کے محلات پر آتاجو طاقت رکھنے کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ کے لیے مسلم افواج کو متحرک نہیں کررہے ہیں بلکہ مسلمانوں کو مروانے میں الٹا یہودی ریاست کی مددکررہے ہیں۔ صدیوں کی مسلسل شکست وریخت (جس کی وجہ مسلمانوں کی بے عملی، ان کے حکمرانوں کی کوتاہ نظری اپنے اقتدار کی بقا کے لیے مغرب کی غلامی اور جہاد سے فرار ہے) نے مسلمانوں کی مایوسی اور بددلی کو یہ رنگ دے دیا ہے کہ عالم کفر پر آنے والی کسی بھی آفت کو اللہ کا غضب قراردے کر، خود فریبی کا شکار ہوکر خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ کہیں اللہ کا غضب ہم پر نازل نہ ہوجائے جو اللہ کے دین کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ مسلمانوں پر صرف غزہ اور اس امت کے حوالے سے ہی نہیں مغرب اور عالم کفرکے حوالے سے بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ یہ امت تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ سبحانہ لاس اینجلس نے والی اللہ کا کے لیے ہیں تو
پڑھیں:
لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا
اسلام ٹائمز: اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: ہادی محمدی
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم خطے میں اپنی فتح اور اسلامی مزاحمت کی نابودی کا جشن منا رہے ہیں اور ڈھول پیٹ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ غل غپاڑہ اور پروپیگنڈہ خطے میں موجود زمینی حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ اگرچہ انہوں نے لبنان میں فوجی جارحیت، نرم جنگ اور فتح کے باجے بجانے کے ساتھ ساتھ لبنان حکومت سے بھتہ وصول کرنے اور اسے اپنے ناجائز مطالبات کے سامنے سر جھکا دینے کی بھرپور کوششیں انجام دی ہیں لیکن اب تک ان کی یہ تمام کوششیں ناکامی اور شکست کا شکار ہوئی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے اس سال کے آغاز میں لبنان سے جنگ بندی کا اعلان کر تو دیا لیکن اس کے باوجود جنوبی لبنان میں اسرائیل کی فضائی جارحیت اور لبنانی شہریوں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا۔
اسرائیلی حکمرانوں نے لبنان سے جنگ بندی کی تمام خلاف ورزیوں کو حزب اللہ لبنان کے ٹھکانوں پر حملوں اور حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ ظاہر کر کے اپنے ان مجرمانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور ساتھ ہی اندرونی سطح پر اپنی عزت اور وقار بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونیفل کے مشن میں توسیع دینے کی کوشش کی تاکہ اس طرح اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کو بائی پاس کر کے پورے لبنان میں مداخلت آمیز اقدامات اور جاسوسی سرگرمیوں کے ذریعے اسلامی مزاحمت کے خلاف جنگ شروع کر سکیں لیکن لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی مشیروں اورٹیگاس اور تھامس براک کی بھاگ دوڑ کے باوجود ایسا نہ ہو سکا اور یونیفل کے مشن میں توسیع کی کوشش ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد لبنان حکومت پر حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو ڈالنا شروع کر دیا گیا۔
امریکہ اور اسرائیل کی یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہو گئی جب لبنان آرمی نے حزب اللہ لبنان سے ٹکر لینے سے انکار کر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عملدرآمد پر زور دے دیا۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم اس وقت کئی قسم کے سنگین بحرانوں سے روبرو ہے جن میں اقتصادی بحران، فوج میں ٹوٹ پھوٹ اور عوام کی جانب سے جنگ کے خلاف شدید بے چینی اور احتجاج شامل ہیں۔ جنوبی لبنان میں اس وقت بھی چند اسٹریٹجک مقامات اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں اور اسرائیلی حکمران ان مقامات سے فوجی انخلاء کے بدلے نئی سودا بازی کے درپے تھے۔ اس طرح لبنان حکومت اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر نظارت کرنے والی قوتوں کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جسے "میکانزم" کا نام دیا گیا۔ گذشتہ کچھ ہفتوں سے امریکی سینٹرز نے لبنان حکومت پر شدید دباو ڈال رکھا ہے جس کا مقصد حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا ہے۔
ان امریکی سینٹرز نے دھمکی آمیز لہجہ اپناتے ہوئے لبنان حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح نہ کر سکی تو اس کے سنگین نتائج ظاہر ہوں گے۔ اسی سلسلے میں اورٹیگاس نے بھی لبنان اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے سے پہلے اسرائیل نے وحشیانہ ادناز میں لبنان کے مختلف مقامات پر فضائی حملے انجام دیے تاکہ یہ بتا سکے کہ وہ ہر قسم کی بربریت کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ ڈرامہ بازی ایسے وقت کی جا رہی ہے جب امریکہ اور اسرائیل لبنان میں اسلامی مزاحمت کو ختم کر دینے کے کھوکھلے دعووں کے بعد اب اس حقیقت کو قبول کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ حزب اللہ لبنان نے نہ صرف اپنی طاقت بحال کر لی ہے بلکہ وہ غاصب صیہونی رژیم کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہو چکی ہے۔
لہذا گذشتہ ہفتے کے شروع میں اسرائیلی فوج نے چار دن کی فوجی مشقیں انجام دیں اور ان کا مقصد مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں پر حزب اللہ لبنان کے ممکنہ زمینی حملے کا مقابلہ کرنا اعلان کیا گیا۔ اورٹیگاس کا لبنان کا دورہ بھی بے سود ثابت ہوا اور اس کے دورے کے اختتام پر صیہونی رژیم نے لبنان کے قصبے بلیدا کی بلدیہ کی عمارت پر فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں وہاں کا چوکیدار شہید ہو گیا۔ اس واقعے نے پورے لبنان میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی اور لبنان کے صدر جوزف عون نے لبنان آرمی کو ریڈ الرٹ کرتے ہوئے غاصب صیہونی رژیم کی ہر ممکنہ فوجی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اگرچہ گذشتہ دنوں سے لبنان کے تمام علاقوں میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کی پروازوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے لیکن صیہونی رژیم اب بھی حزب اللہ لبنان کی ممکنہ جوابی کاروائی سے شدید خوفزدہ ہے۔
اس وقت لبنان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور لبنان آرمی لبنانی عوام اور اسلامی مزاحمت کی بھرپور حمایت سے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بدمعاشی اور بھتہ خوری پر مبنی پالیسی کے خلاف نیا محاذ کھولنے والی ہے۔ اگرچہ دشمن طاقتیں لبنان حکومت کو اسرائیل کی جانب سے وسیع جارحانہ اقدامات کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنا پورا زور لگا چکی ہے اور اب اس میں مزید زور لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ کا راستہ اپنا رکھا ہے اور وہ محض دھمکیوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس جنون اور پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا واحد نتیجہ صیہونی رژیم کو درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔