Jasarat News:
2025-06-09@16:40:58 GMT

لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟

صاحبو! لب کتنے ہی آزاد ہوں کہنے اور بولنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ کتنی احتیاط؟ اتنی کہ بقول جون ایلیا ’’جو کہنا چاہیں تو کپکپانے لگیں اور بولنا چاہیں تو بولا جائیں‘‘۔ اچھا بھلا ’’لاس‘‘ اینجلز Los Angeles تھا جسے ’’لوس‘‘ اینجلز Loss Angeles کر دیا گیا۔ ممکن ہے یہ بھی سبب ہوکہ آج لوس اینجلز میں ہر طرف خسارہ ہی خسارہ، گھاٹا ہی گھاٹا، آگ ہی آگ ہے۔ ’’جنگل کی آگ‘‘ یا ’’جنگل میں آگ‘‘ نئی بات نہیں۔ جنگلوں میں آگ لگتی ہی رہتی ہے۔ جس کے باعث ہونے والی تبدیلیاں نئی زرخیزیوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ آگ بے قابو بھی ہوجاتی ہے لیکن لاس اینجلز جیسی بے قابو!! اللہ کی پناہ۔

ایک ہفتے سے زیادہ ہوجانے 84 ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں، 15 ہزار رضاکاروں، ایک ہزار سے زائد قیدیوں، ایک ہزار تین سو سے زائد فائر انجنوں سے مدد لینے اور دیگر کوششوں کے باوجود آگ قابو میں نہیں آرہی۔ جس کا سبب 50 سے 110 کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں یہ خشک ہوائیں پیر سے بدھ تک مزید تیز اور خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔ اندازہ نہیں لگا یاجاسکتا کہ ہوائیں اب کیا رخ اختیار کریں گی۔ ان تیز ہوائوں نے آگ بجھانے والے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی اڑان کو انتہائی مشکل بنادیا ہے اور اس امریکی ٹیکنالوجی کو بھی بے اثر کردیا ہے جس میں جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے ایسا کیمیکل چھڑکا جاتا ہے جو متاثرہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ اور آکسیجن کی مقدار کم کردیتا ہے جس سے آگ بجھانے میں مدد ملتی ہے۔ آگ کے سبب اموات کی تعداد 24 ہوچکی ہے جن میں اضافے کا امکان ہے۔

مقامی حکام اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آگ اور پھیل سکتی ہے، گنجان آبادی والے علاقوں کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے کہا ہے کہ لاس اینجلس میں لگنے والی آگ سے نقصانات کے تخمینے اور متاثر ہونے والے رقبے کے سبب یہ امریکا کی بدترین قدرتی آفت میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ اب تک لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق 135 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر کے نقصانات ہو چکے ہیں۔ حکام نے آگ سے انتہائی پر تعیش اور مہنگے گھروں سمیت لگ بھگ 12 ہزار املاک کے نذرِ آتش ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد علاقہ چھوڑ کر جاچکے ہیں جب کہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ نو مقامات پر بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ کیلی فورنیا فائر ڈیپارٹمنٹ کے نائب سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ہمیں قدرت کی جانب سے رحم کی ضرورت ہے‘‘۔

لاس اینجلس سے نقل مکانی کرنے والوں کا کہنا کہ ’’ایسا لگتا ہے جیسے لاس اینجلس پر ایٹمی حملہ ہوا ہے‘‘۔ ایک کائونٹی کے شیرف کا کہنا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا سب سے خوف ناک بم لاس اینجلس میں چلا ہے‘‘۔ وجہ اس کی یہ بیان کی جارہی ہے کہ لاس اینجلس کی آگ بھی ہیروشیما اور ناگاساکی پر 1945 کے امریکی ایٹم بموں کے حملے سے بھڑکنے والی آگ جیسی ہے کہ جتنا اسے بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں تیزی آنے لگتی ہے۔ ایک صحافی خاتون کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے کچھ دن بعد جب میں دوبارہ اپنے محلے میں گئی تو پوری گلی جس میں بیس مکان تھے جل کر کوئلہ بن چکی تھی۔ کوئی چیز سلامت نہیں تھی۔ مجھے پہلی مرتبہ اس کرب کا احساس ہوا جو گھر جلنے سے ہوتا ہے۔ گھر، جس کے بنانے میں عمر بیت جاتی ہے۔

لاس اینجلس کی آگ سے پورے امریکا میں خوف کا عالم ہے۔ آگ کو ردعمل قراردیا جارہا ہے اس عمل کا جو دنیا بھر میں امریکی بمباری اور حملوں کی وجہ سے جان ومال اور املاک کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عالم اسلام میں مکمل طور پر تو نہیں لیکن اکثر اسے غزہ اور مسلم ممالک کی بربادی میں کردار کی وجہ سے امریکا پر اللہ کا عذاب اور اللہ کی طاقت کا مظہر قرار دیا جارہا ہے۔ یہ موقف کس قدر درست ہے؟ مکافات عمل کو یقینا سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارا بھی یہ عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مظلوم کا بدلہ دنیا میں بھی لیتے ہیں۔ جہاں مظلوم سراپا بے بسی کی تصویر ہوں وہاں ایسے بدلے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ آگ اسی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے، یقینا اس کا حتمی جواب پھر بھی نہیں دیا جاسکتا سوائے اس کے ایک بیانیہ کے درجے میں اس کی گنجائش ہو لیکن بہرحال یہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ اللہ کا معاملہ ہے۔

لاس اینجلز کی آگ پر خوش ہونے اور غزہ سے لنک کرنے کے بجائے مسلمانوں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے سوا سال سے جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے اس پر مسلمانوں پر بحیثیت امت جو ذمے داری عائد ہوتی ہے کیا مسلمانوں نے وہ ذمے داری ادا کی ہے؟ جب دنیا میں کہیں بھی مسلمان مشکل میں ہوں، ان پر ظلم ہو رہا ہو، انہیں شہید اور زخمی کیا جارہا ہو، عزتوں کو پامال اور املاک کو برباد کیا جارہا ہو، زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہو تو مسلمانوں پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ظلم سے نجات دلانے کے لیے وہ مسلم افواج میں موجود اپنے بھائیوں، بیٹوں، عزیزوں اور دوستوںسے ملتے ہیں، انہیں ذمے داری کا احساس دلاتے ہیں اور مسلم افواج کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ ایک شرعی ذمے داری اور اللہ کا حکم ہے۔ اگر مسلمان اس حکم سے روگردانی کرتے ہیں تو وہ اللہ کے عذاب اور غضب کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔

لاس اینجلز میں آگ کے اسباب کا ہمیں نہیں معلوم لیکن ایک بات معلوم ہے کہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ نے جو فرض ہم پرعائد کیا ہے اس کا لازمی حساب ہم سے لے گا، دنیا میں نہیں تو آخرت میں تو یقینی ہے۔ آگ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے ہم جہاد کے لیے متحرک نہ ہونے کی اپنی غفلت پر پردہ ڈال رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو بدلہ نہیں لیا لیکن اللہ نے بدلہ لے لیا۔ ایسے میں یہ نہیں سوچا جارہا ہے کہ ہماری بے عملی سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نظر میں ہماری کیا وقعت رہ گئی ہوگی۔ ہم کس بات پر خوش ہورہے ہیں جب کہ ہماری ذمے داری ابھی بھی ادا ہونا باقی ہے۔

غزہ کے حوالے سے اگر عذاب آتا تو شاید سب سے پہلے مسلم حکمرانوں کے محلات پر آتاجو طاقت رکھنے کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ کے لیے مسلم افواج کو متحرک نہیں کررہے ہیں بلکہ مسلمانوں کو مروانے میں الٹا یہودی ریاست کی مددکررہے ہیں۔ صدیوں کی مسلسل شکست وریخت (جس کی وجہ مسلمانوں کی بے عملی، ان کے حکمرانوں کی کوتاہ نظری اپنے اقتدار کی بقا کے لیے مغرب کی غلامی اور جہاد سے فرار ہے) نے مسلمانوں کی مایوسی اور بددلی کو یہ رنگ دے دیا ہے کہ عالم کفر پر آنے والی کسی بھی آفت کو اللہ کا غضب قراردے کر، خود فریبی کا شکار ہوکر خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ کہیں اللہ کا غضب ہم پر نازل نہ ہوجائے جو اللہ کے دین کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ مسلمانوں پر صرف غزہ اور اس امت کے حوالے سے ہی نہیں مغرب اور عالم کفرکے حوالے سے بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ یہ امت تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اللہ سبحانہ لاس اینجلس نے والی اللہ کا کے لیے ہیں تو

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہونے والے عوامی احتجاج کے پیشِ نظر لاس اینجلس میں 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب فیڈرل ایجنٹس اور مظاہرین کے درمیان دوسرے روز بھی جنوب مشرقی لاس اینجلس کے علاقے پیرا ماونٹ میں کشیدگی برقرار رہی۔

ہفتے کی رات مظاہرین نے میکسیکو کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور بعض نے چہروں پر ماسک پہن رکھے تھے، اس دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے بارڈر چیف ٹام ہومین نے تصدیق کی کہ نیشنل گارڈز اتوار کو لاس اینجلس میں تعینات کیے جائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر نے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت “قانون شکنی کے خاتمے” کے لیے 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

‘ٹرمپ انتظامیہ مجرموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتی ہے۔ ان افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔’

تاہم، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس اقدام کو ’سوچا سمجھا اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔

امیگریشن پالیسی پر شدید ردعمل

مظاہروں کا آغاز ان امیگریشن چھاپوں کے بعد ہوا، جن میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ یعنی آئی سی ای کے ایجنٹس نے کم از کم 44 افراد کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا۔ مظاہرے پیرا ماونٹ کے ایک ہوم ڈیپو کے نزدیک بھی ہوئے، جہاں اہلکاروں کے مبینہ طور پر بیس قائم کرنے کی اطلاعات تھیں۔

محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 1,000 مظاہرین نے ایک وفاقی عمارت کو گھیر لیا، اہلکاروں پر حملہ کیا، گاڑیوں کے ٹائروں کو کاٹا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، اگرچہ یہ دعویٰ آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن حالات کشیدہ ضرور تھے۔

امیگرنٹس رائٹس گروپ کرلا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلیکا سالاس کے مطابق، وکلا کو حراست میں لیے گئے افراد تک رسائی نہیں دی گئی، جسے انہوں نے ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت میں ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے اور امریکا-میکسیکو سرحد کو مکمل بند کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ہدایت پرآئی سی ای کو روزانہ کم از کم 3,000 افراد کو گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔

سیاسی ردعمل اور قانونی سوالات

ٹرمپ کے مشیر اور سخت گیر امیگریشن پالیسی کے حامی اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ’ریاستی خودمختاری پر بغاوت‘ قرار دیا، جبکہ ہفتے کو مظاہروں کو ’پر تشدد بغاوت‘ سے تعبیر کیا۔

کولمبیا کے صدر پیٹرو کی طرح، ٹرمپ کے حامیوں نے اس پورے معاملے کو قانون کی بالادستی سے جوڑا، جبکہ مخالفین نے اسے انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بغیر نشانات والی فوجی گاڑیاں اور وردی میں ملبوس اہلکار شہر میں گشت کر رہے تھے۔ چھاپے زیادہ تر ہوم ڈیپو، گارمنٹ فیکٹریوں، اور گوداموں کے علاقوں میں کیے گئے، جہاں اسٹریٹ وینڈرز اور یومیہ مزدوروں کو گرفتار کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیفن ملر امریکی صدر امیگریشن امیگریشن پالیسی انسانی حقوق ٹرمپ انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ شہری آزادیوں لاس اینجیلس

متعلقہ مضامین

  • امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری
  • بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو تعصب اور ظلم کا سامنا ہے: آصف علی زرداری
  • کیلیفورنیا، ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کیخلاف احتجاج
  • لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی
  • ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
  • صدر ٹرمپ نے لاس اینجلس میں احتجاج کے دوران نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا
  • پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
  • حج کیلئے گھوڑوں پر 6 ہزار کلومیٹر کا سفر: 3 ہسپانوی مسلمانوں نے صدیوں پرانی روایت زندہ کردی
  • تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا پی ٹی آئی ہم سے بات کرے، رانا ثنااللہ
  • مودی انتظامیہ نے کشمیری مسلمانوں کو تاریخی جامع مسجد اور عید گاہ میں نماز عید سے روک دیا