Express News:
2025-09-18@09:25:24 GMT

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

بہت پرانی بات ہوگئی کہ مملکت خداداد پاکستان کو رشوت کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ بیماری اب اپنے آخری اسٹیج پر ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ سرطان کا علاج مکمل طور پر آج تک دریافت نہیں ہوا۔ رشوت کی کارفرمائیاں آپ کو پاکستانی معاشرے کے ہر شعبے میں نظر آئیں گی، کوئی خوش نصیب محکمہ ایسا نہیں جہاں اس نے پنجے نہ گاڑے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عارضہ صرف سرکاری اداروں کو لاحق ہے۔

کراچی کو عروس البلاد، میٹروپولیٹن سٹی اور میگاسٹی جیسے خطابات سے نوازا گیا ہے لیکن کوئی اس کی طویل و عریض سڑکوں کی شکستہ حالی، پامالی اور درماندگی کو دیکھے۔ صرف ایک شاہراہ فیصل کو چھوڑ کر کہ اس پر سربراہان مملکت کا گزر ہوتا ہے اور ہمارے صدر و وزیر اعظم کی جلوہ گری بھی اسی سڑک تک محدود ہے۔ بقیہ سڑکوں کی حالت زار دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے ہلاکو خاں کا لشکر ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔

ہر سڑک ٹوٹی پھوٹی، گڑھوں سے مزین، گٹر بہتے ہوئے، موئن جو ڈارو بھی اس سے بہتر حالت میں ہوگا۔ طویل عرصے سے سندھ پر پی پی کی حکومت ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے کسی سے بدلہ لینے کے لیے، اس شہر کو جان بوجھ کر کھنڈر بنا دیا گیا ہو۔ ان سڑکوں پہ چل کر صرف رکشہ اور ٹیکسی کے ہی انجر پنجر ڈھیلے نہیں ہوتے بلکہ انسان کا اندرونی نظام بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ لاہور کو شہباز شریف نے ایسا صاف ستھرا کر دیا ہے کہ اس کی سڑکیں پاکستان کی نہیں لگتیں۔ جب ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ کچھ نظر کرم کراچی پر بھی کر دیجیے تو جواب ملتا ہے ’’کراچی میں ہماری حکومت نہیں۔‘‘ اس موقع پر ایک شعر یاد آتا ہے:

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

اس صورت حال کی ذمے دار ہے، رشوت۔۔۔۔ اور صرف رشوت۔ جہاں ٹینڈر کھلنے سے لے کر سڑک کے افتتاح تک میں سب میں رشوت کا عمل دخل۔ ٹھیکیدار متعلقہ ایگزیکٹیو انجینئر کو نوٹوں کی گڈیاں پیش کرے ریتی اور بجری میں سیمنٹ ’’ بقدر اشک بلبل‘‘ ڈال کر سڑک کو مکمل کر دیتا ہے۔ آج کل صرف دو دن میں ’’ پکی سڑک‘‘ بن جاتی ہے۔

پہلے کئی کئی دن لگتے تھے، پتھر توڑ کر بچھایا جاتا تھا پھر پتھریلے چھوٹے چھوٹے پتھر ڈلتے تھے جنھیں ٹریکٹر کے ذریعے دبایا جاتا تھا اور بعد میں ریتی بجری میں تارکول ملا کر بچھایا جاتا تھا، بعض سڑکوں پہ سیمنٹ بھی ڈالا جاتا ہے لیکن اب سب ناپید ہے۔ کوئی سڑک ایک بارش کی مار نہیں سہہ سکتی۔ پہلی ہی بارش میں تمام اندرونی غلاظت باہر نکل آتی ہے۔ آپ کتنا بھی چلائیے، کالم لکھیے، ٹی وی ٹاک شوز میں توجہ دلائیے، نتیجہ صفر،صفر،صفر۔

اب آئیے بجلی کی طرف۔ بجلی کی چوری اورکنڈا سسٹم اس کی اصل وجوہات ہیں جن سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ کے الیکٹرک کے افسران اتنے سادہ ہیں کہ انھیں پتا ہی نہیں کہ کنڈا سسٹم کون چلا رہا ہے۔ تمام کچی بستیوں میں کے الیکٹرک کے کارندے خود کنڈا دیتے ہیں اور مہینے پر آ کر اپنی ’’روزی روٹی‘‘ لے جاتے ہیں۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں بھی کنڈا سسٹم زور شور سے جاری ہے۔

عوام قطار میں لگ کر بجلی کا بل ادا کرتے ہیں اور بدلے میں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ملتی ہے۔ کے الیکٹرک کے افسران کی ملی بھگت سے دو کمروں کے گھر میں رہنے والے کا بل آ رہا ہے آٹھ سے دس ہزار کا۔ اور چار چار اے سی چلانے والوں کا بل چار ہزار کا۔ بجلی کے میٹروں میں کاری گری بجلی کمپنی کے کارندے ہی دکھاتے ہیں ۔ سنا ہے میٹروں میں ایکسرے کی شیٹ لگا دی جاتی ہے جس سے میٹر سست ہو جاتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’’ ہاتھ کی صفائی، کنڈا سسٹم کی کمائی۔‘‘ افسران کی میز پر ’’کارندے‘‘ بڑی ایمانداری سے پہنچا دیتے ہیں۔

اب آتے ہیں گاڑیوں کے ڈرائیونگ لائسنس کی طرف۔ یہاں بھی رشوت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ من پسند افراد کو یا انھیں جو رشوت دے کر لائسنس حاصل کرتے ہیں گھر پر بغیر ٹیسٹ کے لائسنس مل جاتا ہے اور جو جائز طریقے سے لائسنس حاصل کرنا چاہیں انھیں ’’8‘‘ کا ہندسہ بنانے میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ ڈرائیونگ اسکول والے بہت آسانی سے لائسنس بنوا دیتے ہیں، کیونکہ ان کی سلام دعا ڈرائیونگ لائسنس والوں سے بہت اچھی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کراچی کی سڑکوں پہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں دن رات دندناتی پھرتی ہیں۔ پریشر ہارن اور چنگھاڑتی ہوئی ریکارڈنگ سے کان پھٹے جاتے ہیں، لیکن پولیس ان کا چالان نہیں کرتی، کیونکہ ہر رکشہ اور ویگن سے وہ اپنا روزانہ کا بھتہ وصول کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی لیے آئے دن ٹریفک کے حادثات ہوتے رہتے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ایکسیڈنٹ نہ ہوں۔ روزانہ صبح اور شام پانچ بجے سے آٹھ بجے تک مسلسل ٹریفک جام رہنا معمول کی بات ہے۔ ٹریفک پولیس اپنی ’’پیداگیری‘‘ میں مصروف رہتی ہے۔

رشوت کے سرطان کے ایک اور مریض سے ملیے۔ آپ میں سے بہت سوں کا واسطہ پڑ چکا ہوگا اس سے۔ زمین، جائیداد، فلیٹ اور مکان خریدنا ہر شہری کا حق ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ دستاویز اور کاغذات تیار کیے جاتے ہیں جس کے بعد خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کو سب رجسٹرار کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے، جس کے لیے کسی وکیل کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جس کی قانونی فیس تو اپنی جگہ ہے لیکن سب رجسٹرار کے پیش کار کو الگ سے نذرانہ بھی دینا پڑتا ہے جو وہ اپنا قانونی حق سمجھ کر وصول کرتا ہے۔

اگر آپ پیش کار اور سب رجسٹرار کو ’’نذرانہ‘‘ دینے کے قائل نہیں تو سمجھ لیجیے آپ کی خریدی ہوئی جائیداد کی قانونی رجسٹری اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک آپ نذرانے کی طے شدہ رقم اپنے وکیل یا پیش کار کے ذریعے سب رجسٹرار تک نہیں پہنچاتے۔ اچھا ہی ہوا کہ ابھی تک پاکستان کے قبرستانوں میں قبروں کی رجسٹری کا قانون لاگو نہیں ہے، ورنہ یہ ستم ظریف ان سے بھی نذرانہ وصول کر لیتے۔

اور اب ملیے ایک اور سرطان کے کیس سے۔ سرکاری دفاتر میں آپ کا کوئی کام بغیر رشوت دیے نہیں ہو سکتا۔ آپ ہزار بار دھکے کھائیں لیکن جب تک مطلوبہ رقم محکمے کے کلرک یا افسران کو نہیں ملتی آپ بے نیل و مرام دھکے کھاتے پھریں گے۔ نہ اپائنمنٹ بغیر رشوت دیے ہو سکتا ہے اور نہ ریٹائرمنٹ کے بعد گریجویٹی اور دیگر فنڈز آپ کو ملیں گے اور نہ ہی پنشن جاری ہوگی۔

اسی لیے اب لوگ ریٹائرمنٹ سے ایک دو ماہ قبل ہی ایسے لوگوں سے رابطہ کرکے رقم طے کر لیتے ہیں جو ’’مڈل مین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا اپنا بھی حصہ ہوتا ہے۔ جامعہ ملیہ ڈگری کالج ملیر کے سابق پروفیسر جاکھرانی صاحب اے جی سندھ کے چکر لگاتے لگاتے تھک گئے، مگر انھوں نے ’’نذرانہ‘‘ دینے سے منع کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔

بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ رشوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، یہ کریں گے، وہ کر دیں گے لیکن: ’’وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘ والا معاملہ ہے ۔

یہ ملک بنا ہی رشوت خوروں کے لیے ہے۔ پہلے اگر کسی افسر کے خلاف اخبار میں کوئی خبر لگ جاتی تھی تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے، لوگ چھپ چھپا کر رشوت لیا کرتے تھے، رشوت اور بدعنوانی سے کمائے ہوئے پیسے سے بنائے ہوئے گھر کی پیشانی پر ’’ہٰذا من فضل ربی‘‘ لکھوا لیا کرتے تھے، لیکن اب ان تکلفات کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ سب سے زیادہ کرپٹ سیاستدان ہیں، جو منہ مانگی رقم کے عوض برسوں سے رکے کام کروا دیتے ہیں۔ اب وزیروں کے گھروں سے ڈالر بوریوں میں بھرے نکلتے ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا اور بعد میں انھیں دوبارہ وزیر بنا دیا جاتا ہے۔

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا ان لوگوں کو آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ یہ چور، اسمگلر، رشوت خور اور بدعنوان افسران، وزیر اور سیاستدان کس منہ سے خدا کا سامنا کریں گے؟ شاید انھیں وہاں بھی کسی رشوت کا انتظار ہوگا۔ کعبے کس منہ سے جائیں گے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کنڈا سسٹم جاتے ہیں دیتے ہیں جاتا ہے ہے لیکن نہیں ہو ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انقلاب صرف سوشل میڈیا پر “ٹک ٹک” کرنے سے نہیں آتے، اگر ایسا ممکن ہوتا تو بانی پی ٹی آئی عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے۔
راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گنڈاپور نے کہا کہ 4 اکتوبر کے احتجاج کی بدولت ہم نے جس مقصد کا تعین کیا تھا، وہ حاصل کیا، اور قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملنا اسی تحریک کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ہدف عمران خان نے دیا تھا اور وہ خود 4 اکتوبر کو پشاور سے نکل کر 5 اکتوبر کو ہدف حاصل کرکے واپس آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ سوشل میڈیا پر ہر وقت باتیں کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، لیکن آزادی کی جنگ وی لاگز اور جعلی اکاؤنٹس سے نہیں لڑی جاتی۔ سچ یہ ہے کہ ووٹ پولنگ بوتھ پر جا کر ڈالے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر نہیں۔
سیاست سڑکوں پر ہوتی ہے، نہ کہ فون کی اسکرین پر
علی امین کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ میں ملا ہوا ہوں، میرے خلاف خود میری پارٹی کے اندر باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جو لوگ پارٹی کو تقسیم کر رہے ہیں، وہ میں نہیں ہوں۔” انہوں نے کارکنوں سے اپیل کی کہ گروپ بندیوں کا حصہ نہ بنیں اور پارٹی کو اندر سے کمزور نہ کریں۔
جیل توڑنے سے انقلاب نہیں آتا
انہوں نے کہا کہ ملاقاتیں نہ دینے کی پالیسی جان بوجھ کر اپنائی گئی تاکہ کنفیوژن بڑھے اور قیادت کے درمیان فاصلے پیدا ہوں۔ “کیا میں جیل توڑ دوں؟ میں چاہوں تو جیل جا سکتا ہوں، لیکن جیل توڑنے سے کیا حاصل ہوگا؟ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ “حکومت نہ شہباز شریف کی ہے، نہ مریم کی۔ اصل اختیار کہیں اور ہے۔
سیلاب میں سب کچھ بہہ گیا، لیکن وفاق نے کوئی مدد نہیں کی

 علی امین گنڈاپور نے سیلابی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں حالات مختلف تھے، پہاڑی تودے، مٹی اور پانی نے بستیاں بہا دیں۔ “اب تک 400 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، لیکن وفاق نے نہ کوئی وعدہ نبھایا اور نہ مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صرف زبانی دعوے کیے، فارم 47 کے ایم این ایز تو گھومتے رہے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ “ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی نہیں، نہ ہم اس پر سیاست کرتے ہیں۔
انقلاب انگلیاں چلانے سے نہیں آتا
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انقلاب گھر بیٹھ کر موبائل چلانے سے نہیں آتا، ہمیں عوام کو سڑکوں پر نکال کر حکومت کو چیلنج کرنا ہوگا۔” ان کا کہنا تھا کہ “5 اور 14 اگست کے جلسوں میں کتنے لوگ نکلے؟ صرف سوشل میڈیا پر باتیں ہوتی رہیں۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں ہاتھوں کی حرکت سے گھوڑے دوڑانے کا طریقہ بھی بتایا، جس پر موجود پی ٹی آئی اراکین ہنسنے لگے۔
 ہمیں تو ملاقات کا وقت بھی نہیں دیتے
علی امین گنڈاپور نے شکایت کی کہ حکومت ان سے ملاقات تک کرنے کو تیار نہیں، یہاں تک کہ بجٹ اور مائننگ بل جیسی اہم قانون سازی کے وقت بھی رابطے نہیں کیے گئے۔ “ہر ملاقات کے باہر سیکیورٹی کھڑی کر دی جاتی ہے، تاکہ کوئی بات نہ ہو۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا
  • پی ٹی آئی کے سینئر رہنما قاضی انور کی پارٹی قیادت پر تنقید
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور