رسول کریمؐ کی عائلی زندگی کے راہ نما اصول
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
انسان معاشرے میں دو چہروں کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے ، ایک اس کا مصنوعی چہرہ جس میں نرمی، خوش اخلاقی، شرافت اور اظہار محبت ہو، وہ باہر کی دنیا میں اسی چہرے سے اپنا تعارف کرائے، دوسرا چہرہ اس کا حقیقی چہرہ جس میں بد اخلاقی، سخت کلامی، غیظ و غضب اور درشتی و تندخُوئی ہو۔ لیکن شوہر اور بیوی کا تعلق چوں کہ ہر وقت کا ہوتا ہے، اس لیے یہاں مصنوعی اخلاق کے ذریعے اپنی بد اخلاقی کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ اسی لیے رسول اﷲ ﷺ نے بہترین شخص اس کو قرار دیا، جس کے اخلاق اچھے ہوں، پھر فرمایا کہ تم میں بہتر شخص وہ ہے، جس کا رویّہ اس کے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہو اور یہ کہ میں تم سب سے زیادہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر برتائو کرنے والا ہوں۔ (سنن ترمذی) اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کی حیاتِ طیبہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا بہترین نمونہ ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کو ’’دعوت دین‘‘ علوم نبوت کی اشاعت اور مختلف قبائل کی دل داری کے لیے خصوصی طور پر چار سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی تھی، چناں چہ بہ حیثیت مجموعی گیارہ پاک بیویاں آپؐ کے نکاح میں رہیں۔ ازواج کی کثرت کے باوجود آپ ﷺ کا اپنی ازواج کے ساتھ ہمیشہ اعلیٰ درجے کا سلوک رہا اور کیوں نہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم فرمایا ہے، مفہوم: ’’بیویوں کے ساتھ بہتر طریقے پر زندگی گزارو۔‘‘ (النساء) یہ اخلاق حسنہ کی ایک جامع تعبیر ہے۔ جس میں خوش اخلاقی، مروت اور پاس و لحاظ کی تمام صورتیں داخل ہیں اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ اپنی بیویوں کے ساتھ اس مثالی طرز زندگی کی عملی شکل پیش کرتی ہے۔ مثلاً اگر شوہر اپنی بیوی کی تعریف کرے تو یہ اس کے لیے سب سے قیمتی سوغات ہوتی ہے۔ چناں چہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کے لیے تعریفی کلمات بھی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کے بارے میں فرمایا: ’’جیسے تمام کھانوں میں ثرید عمدہ ہوتا ہے، اسی طرح حضرت عائشہؓ تمام عورتوں میں بہترین عورت ہے۔‘‘ اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی آپؐ ہمیشہ ان کا ذکر خیر فرماتے تھے۔ اسی لیے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حالاں کہ میں نے حضرت خدیجہؓ کو نہیں دیکھا لیکن مجھے ان ہی پر سب سے زیادہ رشک آتا تھا، آپ ﷺ ان کا بار بار تذکرہ فرماتے۔ بکرا ذبح کرتے تو خود سے اس کے ٹکڑے کرتے اور حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بھیجتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خدیجہ بڑی خوبیوں کی مالک تھی اور انھی سے مجھے اولاد حاصل ہوئی۔‘‘ (فتح الباری) اس کے ساتھ آپ ﷺ ازواجِ مطہراتؓ سے اپنی محبت کا اظہار بھی فرماتے تھے۔ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کے بارے میں فرمایا: ’’مجھ کو ان کی محبّت عطا فرمائی گئی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت عمرو بن عاصؓ نے ایک موقع پر دریافت فرمایا: ’’آپؐ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ سے۔‘‘ اس سے معلوم ہُوا کہ اگر کوئی شخص لوگوں کے درمیان اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر آپؐ اپنے سلوک کے ذریعے بھی محبت کا احساس دلاتے تھے۔ چناں چہ آپ ﷺ بعض دفعہ حضرت عائشہؓ کو پیار سے ’’یا عائش‘‘ کہتے تھے۔ رسول کریمؐ نے نہ صرف خود ازواج مطہراتؓ کے ساتھ اس طرح محبت اور لگائو کا اظہار کیا، بل کہ اُمت کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ چناں چہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم جو بھی خرچ کروگے، اس پر اجر پائوگے، یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی بیوی کے منھ میں رکھو گے، اس میں بھی اجر ہے۔‘‘ (سنن نسائی) آپؐ ہر قدم پر ازواج مطہراتؓ کی دل داری کا لحاظ رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ سِن و سال کے تقاضوں کا بھی خیال فرماتے تھے۔ یہ عید کا دن تھا، حبشی لوگ ایسے خوشی کے موقع پر اپنے کرتب دکھاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کو ان کے دیکھنے کی خواہش ہوئی، تو آپؐ کھڑے ہوگئے اور حضرت عائشہؓ آپؐ کے مونڈھے پر ٹیک لگاکر حبشیوں کا نیزے کا کھیل دیکھتی رہیں اور جب تک خود تھک نہ گئیں، آپؐ ان کی رعایت میں کھڑے رہے۔ (صحیح مسلم) ایک مرتبہ حضرت صفیہؓ کو اونٹ پر بیٹھنا تھا، تو آپؐ نے اپنا گھٹنا کھڑا کردیا تاکہ آپؐ کے گھٹنے پر قدم رکھ کر حضرت صفیہؓ اونٹ پر چڑھ سکیں۔ (بخاری) ایک سفر میں انجشہ نامی ایک غلام اس سواری کو ہانک رہا تھا۔ جس میں بعض اُمہات المومنینؓ سوار تھیں، انجشہ اس طرح نظم پڑھ رہے تھے کہ اونٹ بہت تیز دوڑنے لگا، آپ ﷺ نے فرمایا: انجشہ! آہستہ، آہستہ! تم آبگینوں کو لے کر جارہے ہو۔ (بخاری) آپ ﷺ اعتکاف میں تھے، حضرت صفیہؓ آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لائیں، جب واپس ہونے لگیں تو آپ ﷺ ان کو رخصت کرنے کے لیے مسجد کے دروازے تک آئے۔ ( بخاری) یہ بھی اظہار محبت کا ایک انداز تھا۔
آپ ﷺ اپنی ازدواجی زندگی میں اُمہات المومنینؓ کو روٹھنے کا حق دیتے تھے، تاکہ خواتین کی فطرت میں ناز کرنے کا جو وصف پایا جاتا ہے اس کا اظہار ہو اور اُمت کے لیے نمونہ مہیا ہو۔ پھر اگر کوئی بیوی خفا ہو جاتیں تو آپؐ کا رویہ نہایت مشفقانہ، کریمانہ اور دل دارانہ ہوتا، آپؐ ان کے مونڈھے پر دست مبارک رکھتے اور دُعائیہ کلمات ارشاد فرماتے، مفہوم: ’’اے اﷲ! ان کو معاف فرما دیجیے ، ان کے دل کے غصے کو دُور کر دیجیے اور ان کو فتنوں سے محفوظ رکھیے۔‘‘ (کنز العمال)
آپؐ کا معمول مبارک تھا کہ روزانہ دو مرتبہ تمام ازواج مطہراتؓ کے یہاں تشریف لے جاتے، ان کی خیریت دریافت کرتے اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارتے، ایک تو عصر کے بعد آپؐ کی تشریف آوری ہوتی۔ (بخاری) چناں چہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ تمام ازواج مطہراتؓ کے پاس تشریف لے جاتے، اظہار محبت کے لیے ان پر ہاتھ رکھتے اور ایسا عمل کرتے جس سے تعلق کا اظہار ہو، یہاں تک کہ آخری گھر تک پہنچتے اور جن کی باری ہوتی، ان کے یہاں قیام فرماتے۔ (ابودائود) دوسرا فجر کے بعد مسجد میں تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کرامؓ استفادہ کے لیے آپؐ کے گرد بیٹھ جاتے۔ پھر جب سورج طلوع ہوجاتا تو ہر بیوی کے پاس تشریف لے جاتے، ان کو سلام کرتے، انھیں دُعا دیتے اور جس کی باری ہوتی ان کے پاس مقیم ہوجاتے۔ (فتح الباری)
عورتوں میں زینت و آرائش کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے شریعت میں انھیں سونا اور ریشم استعمال کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ جس سے مردوں کو منع فرمایا گیا ہے، آپؐ عورتوں کے اس فطری جذبے کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔
جب اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ منافقین کے تہمت لگانے کے صدمے سے بیمار ہوگئیں تو آپ ﷺ ہمیشہ ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے اور جب وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئیں، ان کے گھر جاکر عیادت کی۔ آپؐ خبر گیر ی کرنے کے ساتھ اہل خانہ میں سے بیماروں کو دعا پڑھ کر دم بھی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب آپؐ کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس پر معوذات پڑھ کر پھونکتے تھے۔ (صحیح مسلم)
بیوی کا ایک اہم حق اس کی مالی ذمے داریوں کو پورا کرنا ہے، جس کو اسلام نے شوہر پر لازم قرار دیا ہے۔ عام طور پر لوگ اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو ثواب کا کام نہیں سمجھتے، آپ ﷺ نے اس کی نفی کی اور ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بہترین صدقہ وہ دینار (سونے کا سکہ) ہے، جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔‘‘ ( صحیح مسلم) اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس میں بھی اجر ہے۔‘‘ (مسند احمد)
آپؐ ازواج مطہراتؓ سے بعض اہم امور میں مشورہ بھی فرماتے تھے اور ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرامؓ کو احساس تھا کہ یہ صلح مشرکین مکہ کی شرطوں پر ہوئی ہے اور ایک طرح سے مسلمانوں نے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس لیے دینی حمیّت کے تحت ان کا حال یہ تھا کہ آپؐ کے یہ اعلان کردینے کے باوجود کہ احرام کھول دیا جائے، صحابہؓ نے احرام نہیں کھولا، وہ چاہتے تھے کہ عمرہ کرکے ہی واپس ہوں، آپ ﷺ نے اس موقع پراُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ سے صورت حال بیان کی، حضرت اُم سلمہؓ نے عرض کیا: آپؐ کسی سے کچھ نہ کہیں، بل کہ خود باہر نکل کر اپنے جانور کی قربانی کردیں اور بال مونڈھنے والے کو بلا کر بال منڈھالیں۔ آپ ﷺ نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور اسی پر عمل کیا۔ نتیجہ یہ ہُوا کہ صحابہؓ نے بھی اپنے جانوروں کی قربانی کردی، بال منڈھا لیے اور احرام کھول دیے۔ ( بخاری)
آپؐ اس بات کا بھی پورا خیال رکھتے تھے کہ ازواج مطہراتؓ کو آپؐ کے ذریعہ کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے کسی بیوی یا خادم پر کبھی ہاتھ نہیں اُٹھایا، کبھی ان کے رُخسار پر نہیں مارا، نہ آپؐ کسی کو بُرا کہتے تھے، نہ ترش زبانی کرتے تھے، نہ سخت دل تھے۔ (ابودائود) جیسے آپ ﷺ ازواج مطہراتؓ کی ضروریات اور ان کی دل داری کا خیال رکھتے تھے، اسی طرح آپؐ ان کی تربیت پر بھی متوجہ رہتے تھے، رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں ازواج مطہراتؓ کو آخر شب میں بیدار کرتے تھے، تاکہ وہ عبادت میں شامل ہوں۔ (ترمذی) حضرت عائشہؓ کو شب قدر کی دُعا سکھائی: ’’اے اﷲ! بے شک تُو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے معاف فرمادے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
ایک موقع پر حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ گن کر خرچ نہ کرو، تاکہ تم کو بھی اﷲ کی طرف سے گن کر نہ ملے ، یعنی خوب خرچ کرو، تاکہ اﷲ کی طرف سے خوب ملے۔ (بخاری)
غرض کہ رسول اﷲ ﷺ اپنی ازدواجی زندگی میں بھی ایک محبت کرنے والے شفیق و کریم، قدردان، مزاج شناس اور بردبار شوہر تھے۔ سیرت طیبہؐ کے ان نقوش سے واضح ہوتا ہے کہ آج کے دور میں اگر ہم آپؐ کی ازدواجی زندگی کے روشن پہلوؤں کو پیش نظر رکھیں تو ہماری گھریلو زندگی کے بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ مزید واضح ہوتا ہے کہ ازدواجی تعلق کو نبھانے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری مرد پر عاید کی ہے۔ کیوں کہ وہ صلاحیت اور فہم و فراست میں عورت کی نسبت زیادہ قوت و استعداد کا حامل ہے۔ لہٰذا ہم اپنی گھریلو زندگی میں باہمی تعلقات کو خوش گوار بنانے کے لیے سیرت مبارکہ کے درخشاں اصولوں کو سامنے رکھیں تو ہماری زندگی بھی خوش گوار اور پرمسرت ہوسکتی ہے۔
اﷲ تعالی ہمیں سیرت رسول کریم ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی کرامت عطا فرمائے۔ آمین
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا پ ﷺ نے فرمایا ازواج مطہرات رسول اﷲ ﷺ اپنی بیوی کے ساتھ ا کا اظہار سے زیادہ چناں چہ ہوتا ہے محبت کا کے لیے اور ان
پڑھیں:
ڈپریشن یا کچھ اور
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔
ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔
اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔
دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔
انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔
ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔
پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔
یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟
دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔
سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔