ٹنڈوجام،خواتین کسان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مقررین
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت) سندھ زرعی یونیورسٹی کی زیر میزبانی 2 روزہ کانفرنس اختتام پذیر، ملکی و عالمی ماہرین نے خواتین کو زرعی شعبے میں فیصلہ سازی کے اختیار، مرد کے برابر اُجرت، خواتین کسانوں کو مارکیٹ تک رسائی اور پائیدار زرعی طریقوں کے لیے تربیتی پروگرامز اور عملی شمولیت کے مواقع فراہم کرنے کی سفارش پیش کیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کی میزبانی میںزرعی ترقی اور خواتین کا بااختیار بنانا چیلنجز اور آگے بڑھنے کے طریقے کے موضوع پر پہلی 2 روزہ عالمی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی، کانفرنس میں مختلف موضوعات پر ملکی و عالمی 60 مقالے پیش کیے گئے، جبکہ دونوں روز 6 مختلف موضوعات پر ٹیکنیکل سیشن بھی منعقد کیے گئے۔ اس موقع پر ماہرین کی جانب سے پیش کردہ مقالوں کے بعد سفارشات میں خواتین کو زرعی شعبے میں فیصلہ سازی کے اختیار، زرعی شعبے میں مرد کے برابر اُجرت، خواتین کسانوں کو مارکیٹ تک رسائی اور پائیدار زرعی طریقوں کے لیے تربیتی پروگرامز اور عملی شمولیت کے مواقع فراہم کرنے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی سمارٹ زرعی طریقے اپنانے اور فوٹو کیٹالیٹک فیول سیلز جیسی جدید توانائی کی ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے، غذائیت سے بھرپور خوراکی مصنوعات کی تیاری، بہتر فیصلوں کی اقسام کی ترقی اور بائیوفورٹیفائیڈ فصلوں کے فروغ کے ذریعے غذائی قلت کے خاتمے پر بھی زور دیا گیا، خواتین کو مویشی پالنے کے لیے تربیت اور وسائل کی فراہمی کے ذریعے ان کے اقتصادی کردار کو مضبوط کرنے اور انہیں زرعی وسائل تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے صنفی مساوات پر مبنی پالیسیوں کی سفارشات شامل ہیں۔ اس موقع پر اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا ملک کی نصف آبادی سے زائد خواتین ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور خاص طور پر کسان خواتین کے مثبت کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، زراعت دیہی اور شہری خواتین کے لیے لاتعداد مواقع فراہم کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے حکومت کا کردار قابل تعریف ہے اور اس ضمن میں تدریسی، تحقیقی ادارے، سماجی اور باشعور لوگ خواتین کے لیے تربیتی پروگرامز کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر نے کہا سندھ زرعی یونیورسٹی نے زرعی شعبے سے وابستہ خواتین کے لیے پہلی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے جس کے مستقبل میں بامقصد نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت سے منسلک دیہی خواتین ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن انہیں سماجی طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ کانفرنس کی سیکرٹری ڈاکٹر شبانہ میمن نے کہا کہ خواتین کو اس سماج میں برابری کی حقوق اور ان کے ساتھ منفی سلوک کو ملکر ختم کرنا ہے، کانفرنس خاص طور پر کسان خواتین کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ زرعی یونیورسٹی خواتین کو خواتین کے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین کھوکھر نے آئندہ سال اگلے سال گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان کر تے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں گندم کا کاشتکار ڈپریشن کا شکار ہے، ہم بات کرنے کو تیار ہیں لیکن وزیر اعلی پنجاب بات کرنا نہیں چاہتیں۔
لاہور پریس کلب میں پاکستان کسان اتحاد کے دیگر عہدیداروں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد حسین کھوکھر نے کہا کہ کسان اگلی فصل کہاں سے کاشت کریں گے؟، کسان کے لیے کوئی درد نہیں، کیا ہم گندم جلا دیں؟۔ خالد کھوکھر نے کہا کہ گندم کا مسئلہ ملکی مسئلہ ہے۔ بارڈر سیکیورٹی دوسرا لیکن خوراک کا مسئلہ پہلے نمبر پر ہے۔ گندم کے کاشت کار کے گھر بچے اور صحت کے حالات خراب ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گندم کا کاشتکار ڈپریشن کا شکار ہے اور کاشتکار صرف اپنی محنت ی اجرت مانگ رہا ہے۔ کاشتکار ملک کے تمام لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ اور وہ اپنی زمین کا ٹکڑا دوسرے ملک منتقل نہیں کرسکتا۔ کیا چینی والے زیادہ محب وطن ہیں۔
خالد کھوکھر نے کہا کہ کسان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ گندم کی لاگت کاشت کا اعلان کیا جائے۔ عالمی اصول ہے کہ لاگت میں 25 فیصد اضافہ کر کے ریٹ مقرر کیا جائے۔ 3900 روہے من گندم کا ریٹ مقرر کیا جائے کیونکہ 3400 روہے تو ہماری لاگت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر بات کرنے کو تیار ہیں مگر وزیراعلی پنجاب بات کرنا نہیں چاہتیں۔ آج ملکی زراعت تباہ ہو رہی ہے اور کسان آج رو رہا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کسان تنظیموں سے نہ ملیں لیکن حقیقی کسانوں سے تو ملیں۔کسا ن رہنما نے کہا کہ گندم امپورٹ کر کے اربوں ڈالرز کمائے گئے لیکن کسی کو سزا نہیں ملی۔ معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب کہتی ہیں کہ کسان چند ہزار ہیں انہیں تو زراعت کی الف ب بھی نہیں معلوم۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اراکین اسمبلی کی تنخواہ بڑھا سکتی ہے لیکن کاشتکار کے لیے فصل کی قیمت نہیں بڑھا سکتی۔ کاشتکار اگلی فصلیں لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ محکمہ زراعت کے کہنے پر اگیتی گندم زیادہ کاشت کی تھی جبکہ پاکستان کا کاشتکار گندم بیچے تو اس پر 18 فیصد ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ انہوں نے طنز کیا کہ چینی والے زیادہ محب وطن ہیں، کسان سال بھر کام کرتا اور عوام کی خدمت کرتا ہے، کسان کے گھر میں صف ماتم ہے، اس کی تمام امید گندم سے ہوتی ہے، محکمہ زراعت بتائے گندم پر کتنا خرچہ آتا ہے؟۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کسانوں کے ساتھ ملنا نہیں چاہتی ہیں، گندم امپورٹ کر کے ڈالر کمائے گئے کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔
خالد کھوکھر نے کہا کہ جس محترمہ کا کاشتکار سے کوئی تعلق نہیں اس کو بٹھا دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آئندہ سال گندم کی پیداوار میں بہت بڑی کمی آئے گی تو عوام پریشان ہوں گے، ہم تو مزدور اور کسان لوگ ہیں، لسی چٹی کھالیں گے، لیکن عوام کیا کریں گے؟۔