ادب اور زندگی کا گہرا رشتہ ہے۔ شاعری، افسانہ، ناول، ڈراما میں اس کا اظہار ہوتا ہے، یہ زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ لیکن اب شاید ڈراما ہی رہ گیا ہے وہ بھی اپنی پستی کے ساتھ۔
زندگی کے زخم انسان کے کردار کی مورت تراشتے ہیں، اور ادب اس مورت کو رنگ و نور سے مزین کرتا ہے۔ جس طرح کانٹے انسان کے صبر کو آزمانے کا ذریعہ بنتے ہیں، اسی طرح ادب اس صبر کو الفاظ کا حسن عطا کرتا ہے۔ مشکلات انسان کی صلاحیتوں کو جگاتی ہیں، اور ادب ان صلاحیتوں کو اظہار کا پیرایہ عطا کرتا ہے۔ انسان کا شعور درد کے کٹھن راستوں سے گزر کر نکھرتا ہے، اور ادب اس نکھار کو الفاظ کے موتیوں میں پروتا ہے۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں کردار کو سنوارتی ہے، لیکن ادب انسان کی روح کو بیدار کرکے اسے عظمت کا راستہ دکھاتا ہے۔ جس معاشرے میں ادب دم توڑ دیتا ہے، وہاں تہذیب بھی اپنی روح کھو دیتی ہے۔
ادب، جو معاشرے کا آئینہ اور اس کی روح کی گہرائیوں کا عکس ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ زوال پذیر معاشرت کے ساتھ ساتھ یہ بھی رواں صدی کے دوران بتدریج اپنی آب و تاب کھو بیٹھا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ گزشتہ دہائیوں سے پڑھنے اور لکھنے کے رجحان میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے اثرات کتابوں کی اشاعت میں کمی، ادبی رسائل کے سکڑتے ہوئے حلقے، اور سنجیدہ ادبی نشستوں کی رونق کم ہونے کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔ وہ ہفتہ وار محفلیں، جو تخلیقی اظہار کا محور ہوا کرتی تھیں، اب وقت کی دھول میں کہیں گم ہوتی جارہی ہیں۔ ادب کے اس زوال کے ساتھ نہ صرف الفاظ کا حسن ماند پڑ رہا ہے بلکہ معاشرتی شعور اور تہذیبی اقدار بھی معدوم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ تاریخی طور پر ادب نے فکری، ثقافتی اور اخلاقی ترقی میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مغرب میں شیکسپیئر، گوئٹے اور والٹیئر جیسے ادیبوں نے اپنے کام کے ذریعے وقت کی اشرافیہ کو للکارا، انسانی فطرت کو کھنگالا، اور معاشرتی اصلاح کی تحریک کو مہمیز دی۔ اسی طرح مشرق میں رومی، سعدی اور غالب جیسی ادبی شخصیات نے ایسے شاہکار تخلیق کیے جنہوں نے زندگی کے کئی رازوں کو آشکار کیا۔ انیسویں اور بیسویں صدی کا ابتدائی دور ادب کا سنہری دور کہلایا جا سکتا ہے۔ دوستوفسکی، ٹالسٹائی اور اقبال جیسے مصنفین نے اپنے قلم کے ذریعے سماجی و سیاسی مسائل پر گہری تنقید کی اور انسانی نفسیات کے بارے میں بڑے اور گہرے خیالات پیش کیے۔ لیکن صنعتی ترقی اور تجارتی تقاضوں کے ساتھ ساتھ ادب کا کردار بھی بدلنے لگا۔ ادیبوں پر مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق لکھنے کا دباؤ بڑھنے لگا، جس کے نتیجے میں تخلیقی اور فکری آزادی محدود ہوگئی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ادیبوں کی ایک بڑی تعداد نے مادی مفادات کے زیرِ اثر اپنی تخلیقی راہوں کو تبدیل کرلیا، اور یوں ادب اپنی حقیقی روح سے محروم ہونے لگا۔
معاشی دباؤ نے ادیبوں کو حاشیے پر ڈال دیا ہے۔ ادب، جو کبھی ایک معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا، آج کے دور میں اکثر غیر منفعت بخش سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے ابھرتے ہوئے مصنفین ایسے ناشر یا قارئین تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو ایسے کاموں کی حمایت کریں جو سماجی اصولوں کو چیلنج کریں یا پیچیدہ خیالات پر مبنی ہوں۔ ٹیکنالوجی کے ظہور نے ادب کے زوال میں دہرا کردار ادا کیا ہے۔ جہاں اس نے ادبی کاموں تک رسائی کو آسان بنایا، وہیں سطحی مواد کی بھرمار نے گہرائی سے مطالعہ کرنے کے رجحان کو کمزور کیا۔
نیل پوسٹ مین نے اپنی کتاب Amusing Ourselves to Death میں خبردار کیا تھا کہ ایک ایسی ثقافت جہاں تفریح کو غلبہ حاصل ہو، وہاں تحریری لفظ کی قدر ختم ہوسکتی ہے۔ مشرق سے علامہ اقبال نے گہری سوچ اور غور و فکر کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ جدیدیت اکثر انسان کو اُس کے اعلیٰ مقصد سے دور کردیتی ہے۔
مغربی مفکر ٹی ایس ایلیٹ نے ثقافتی اقدار کے زوال کو ادب کے زوال کی اہم وجہ قرار دیا۔ اپنے مضمون Tradition and the Individual Talent میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادبی عظمت کو پروان چڑھانے میں ثقافتی ورثے اور فکری مہارت کی اہمیت ہوتی ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مذہب اور ادب کے درمیان تعلق پر بات کی، انہوں نے کہا کہ حقیقی ادب اخلاقی اور روحانی حقائق سے گہرے تعلق سے جنم لیتا ہے، جو مادی دور میں اکثر نظرانداز ہوجاتا ہے۔ اسی طرح واصف علی واصف نے کہا کہ ادیب کا کردار صرف تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے ضمیر کو بیدار کرنا ہے۔ سلیم احمد نے ہمارے استاد ڈاکٹر طاہر مسعود کو دیے گئے اپنے مفصل انٹرویو میں بجا فرمایا تھا کہ آج کا معاشرہ سطحی ضروریات پر اکتفا کررہا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے ٹیلی ویژن اور اخبارات انسان کو خواب دکھاتے ہیں، لیکن ان خوابوں کی حقیقت سے آگاہ نہیں کرتے۔ یہ ذرائع ایک افیون کی طرح کام کرتے ہیں جو خود شناسی اور معاشرتی حقیقتوں کو دبانے کا کام کرتی ہے۔ ادب، اس کے برعکس معاشرتی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے اور فرد کو اس کے نفس کے ساتھ آشنا کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ادیب کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ ادب کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود ادیب بھی ریاکاری اور منافقت کا شکار ہوچکا ہے۔ جیسا کہ سلیم احمد نے کہا ’’ادیب کی ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ منافق نہ ہو، بلکہ یہ کہ وہ اپنی منافقت کا اعتراف کرے‘‘۔ ادب کی تخلیق سچائی پر مبنی ہونی چاہیے، ورنہ وہ صرف لفظوں کی تجارت بن کر رہ جاتا ہے۔
سلیم احمد نے ادب کے احیا کے لیے ایک واضح راستہ پیش کیا: ’’ادیب کو اپنے ضمیر کو گواہ بناکر اپنے زمانے کی سچائیوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، چاہے اس کی کوئی قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے‘‘۔ ادب درویشوں، صوفیوں، اور انقلابیوں کا کام ہے، اور جب تک یہ سوچ زندہ نہیں ہوگی، ادب کا زوال برقرار رہے گا۔ بہت عرصہ پہلے جب میں نے احمد جاوید سے انٹرویو میں اس موضوع پر بات کی تھی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’یہ بات میں نے خود سنی ان کی محفل میں۔ سلیم احمد نے کہا کہ ’’ادب مرگیا ہے‘‘۔ یعنی وہ آدمی غائب ہوگیا جس کے لیے ادب ایک سنجیدہ مسئلہ یا مشغلہ تھا۔ یہ اُن کے اعلان کا اُنہی کے بیان کردہ الفاظ میں مطلب ہے۔ اس لیے میرے نقطہ نگاہ سے یہ بات بالکل درست ہے کہ ادب کی موت واقع ہوگئی ہے‘‘۔ وہ اس کی دلیل میں کہتے ہیں کہ ہماری تہذیب، ہماری زبان اپنے معنویاتی بندوبست کے ساتھ، اپنے لسانی اسٹرکچر کے ساتھ، اپنی علامات کے ساتھ موجود نہیں ہے، تویہ ممکن نہیں ہے کہ ’’تہذیب مر گئی ہے‘‘ کہنا درست ہو، ’’زبان فوت ہوگئی ہے‘‘ کہنا درست ہو، اور ان دونوں اموات کی موجودگی میں ہم یہ امکان روا رکھیں کہ ادب زندہ رہ جائے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ تو ادب بھی مرگیا‘‘۔ ادب کے زوال کے ذکر کے پس منظر میں ادیب، افسانہ نگار آصف فرخی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’جو لوگ کہتے ہیں کہ ادب مر گیا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ پڑھنا شروع کریں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’عسکری صاحب نے ادب کی موت کا اعلان ضرور کیا تھا مگر ادب مرا نہیں ہے‘‘۔ جب کہ معروف دانشور شاہنواز فاروقی، آصف فرخی کے اس شکوے پر کہ کتابیں شائع ہورہی ہیں مگر ان کا پڑھنے والا کوئی نہیں، کے جواب میں کہتے ہیں ’’اس کے معنی یہ ہیں کہ لکھنے اور پڑھنے والے کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے اور یہ بات خود معاشرے اور ادب کی صحت کا اظہار ہے‘‘۔
ادب اور ادیبوں کا زوال صرف ادبی دنیا کا نقصان نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک المیہ ہے۔ ادب وہ ذریعہ ہے جس سے معاشرے اپنی اجتماعی دانش محفوظ رکھتے ہیں، اپنی خامیوں پر تنقید کرتے ہیں، اور بہتر مستقبل کی امید پیدا کرتے ہیں۔ اگرچہ جدیدیت اور ٹیکنالوجی چیلنجز پیدا کرتی ہیں، لیکن وہ احیا کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ اپنی درخشاں تہذیبی روایت کی روشنی میں ہم ادب کی قدر کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں؟ یہ سوال ابھی موجود رہے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ محمد حسن عسکری نے پانچ چھے دہائیوں قبل ادب کی موت کا جو اعلان کیا تھا، وہ وقت کے آئینے میں کس حد تک درست ثابت ہوتا ہے۔ آیا یہ محض ایک انتباہ تھا، یا واقعی ادب اپنی روح کھوکر تجارتی تقاضوں اور معاشرتی بے حسی کے گرداب میں گم ہوچکا ہے؟ آنے والا وقت ہی اس سوال کا حتمی جواب دے سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سلیم احمد نے ادب کے زوال نے کہا کہ کے ساتھ کرتا ہے ہوتا ہے اور ادب ہیں کہ کہ ادب ادب کی ادب کا تھا کہ
پڑھیں:
کرکٹ میں بھی سیاست، پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کو کیا پیغام دیا؟
کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا یعنی بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف کوئی دو طرفہ کرکٹ نہیں کھیلے گا۔
ہندوستان اور پاکستان نے 2012-13 کے بعد سے کوئی دو طرفہ سیریز نہیں کھیلی ہے جب پاکستان نے محدود اوورز کی سیریز کے لیے بھارتی سرزمین کا سفر کیا تھا، جہاں پاکستان آخری بار 2008 میں کرکٹ کھیلنے گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدے کی معطلی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، خواجہ آصف
صرف ایک بار جب دونوں ٹیمیں بین الاقوامی مقابلوں کے دوران آمنے سامنے ہوتی ہیں پاکستان کے ساتھ ون ڈے ورلڈ کپ 2023 کے لیے بھارت آنے والا تھا۔ تاہم ہندوستان نے چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے لیے پاکستان کا سفر کرنے سے انکار کردیا اور ان کے تمام میچز بشمول پاکستان کیخلاف میچ اور فائنل دبئی میں منعقد ہوئے۔
https://Twitter.com/BCCI/status/1915054010148815214?ref_src=twsrc%5Egoogle%7Ctwcamp%5Eserp%7Ctwgr%5Etweet
’ہم متاثرین کے ساتھ ہیں اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، ہماری حکومت جو بھی کہے گی، ہم کریں گے، حکومتی موقف کی وجہ سے ہم پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز نہیں کھیلیں گے اور ہم پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز میں آگے نہیں کھیلیں گے۔‘
لیکن جب آئی سی سی ایونٹ کی بات آتی ہے تو ہم آئی سی سی کی مصروفیات کی وجہ سے کھیلتے ہیں، آئی سی سی کو بھی معلوم ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس پر عمل کریں گے۔”
بی سی سی آئی کے سیکریٹری دیواجیت سائکیا نے بھی اس حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ برادری کل پہلگام میں ہونے والے خوفناک دہشت گردانہ حملے میں معصوم جانوں کے المناک نقصان سے گہرے صدمہ سے دوچار اور غمگین ہے۔‘
مزید پڑھیں:چیمپیئنز ٹرافی: براڈکاسٹ میں پاکستان کا نام نہ ہونے پر پی سی بی نے آئی سی سی سے وضاحت مانگ لی
دیواجیت سائکیا کا کہنا تھا کہ بی سی سی آئی کی جانب سے اس بھیانک اور بزدلانہ عمل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے وہ سوگوار خاندانوں کے ساتھ دلی تعزیت کرتے ہیں۔
’میں مرحومین کے لیے دعاگو ہوں، اور ہم سانحے کی اس گھڑی اور درد میں ہاتھ بٹانے کے لیے دعا گو ہیں۔‘
یکجہتی اور احترام کی خاطر، بی سی سی آئی نے انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل کے دوران پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کیا، راجیو گاندھی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں سن رائزرز حیدرآباد اور ممبئی انڈینز کے درمیان کھیلے گئے میچ سے قبل 60 سیکنڈ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
مزید پڑھیں:تمام بھارتی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ملک بدر کیا جائے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
ٹاس کے دوران دونوں ٹیموں کے کپتانوں نے تعزیت کا اظہار کیا اور اس گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کی، پورے میچ کے دوران کھلاڑیوں، میچ آفیشلز، کمنٹیٹرز اور سپورٹ اسٹاف نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔
بی سی سی آئی نے بھی بغیر دھوم دھام کے کھیل کے انعقاد کا فیصلہ کیا، یہی وجہ ہے کہ بدھ کو کھیلے گئے میچ کے دوران چیئر لیڈر پرفارمنس، جشن منانے والی آتش بازی، موسیقی جیسی سرگرمیاں نہیں تھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آتش بازی اظہار یکجہتی بھارت پاکستان پہلگام چیئر لیڈر پرفارمنس سیاست کرکٹ کرکٹ بورڈ موسیقی