حکومت کمیٹی نے اپنے بیان میں سیکیورٹی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا، فیصل چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
راولپنڈی:
عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے اپنے بیان میں سیکیورٹی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے، یہ حکومت کے لیے ڈرؤانا خواب ہے۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج توشہ خانہ 2 کی سماعت بغیر کسی کارروائی کے جمعرات تک ملتوی کردی گئی، مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان نے بیان دیا ہے جس سے لگتا ہے کہ انھوں نے سیکیورٹی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، حکومت یا اس کے لوگ اعتماد نہیں کررہے یہ حکومت کے لیے ڈرؤانا خواب ہے۔
انہوں ںے کہا کہ حکومت کو دو خواب آتے ہیں کہ عمران خان جیل سے نہ نکل آئے اور دوسرا یہ کہ شہید بے گناہ لوگ ان کی خوابوں میں آتے ہیں۔
فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ مذاکرات کسی سے بھی ہورہے ہوں مقدمات کا ان سے کوئی تعلق نہیں، مذاکرات پاکستان کے وسیع تر مفادات میں کیے جارہے ہیں، جوڈیشل کمیشن کا ہمارا بنیادی مطالبہ ہے اور ہمارے اسیران کو بغیر کیسز کے جیلوں میں رکھا گیا ہے، ہم کسی سے بھیگ نہیں مانگتے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں فری اینڈ فئیرٹرائل کا موقع دیا جائے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمارے کارکنوں کو اغوا کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، عدالتیں بنیادی شہری حقوق کے تحفظ میں بار بار ناکام ہوئیں، سلمان اکرم راجہ اور گوہر علی خان کو ہدایات دے دی ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس امین الدین کو خط جائے گا کہ ہمارے انسانی حقوق کی درخواستیں سنی جائیں، آج جو سپریم کورٹ میں ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ 26 ویں ترمیم کا خوفناک چہرہ جو آج قوم نے دیکھا ہے، آج سب سے بڑا مسئلہ سپریم کورٹ کو اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانا ہے، میں سمجھتا ہوں توہین عدالت کا نوٹس چیف الیکشن کمشنر کو ہونا چاہیے، ناکام اسمبلیوں سے ہونے والی قانون سازی بنیادی حقوق سے متصادم ہے حکومتی کمیٹیاں اپنے کارناموں کو چھپانے کی کوشش کررہی ہیں اگر جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا تو مذاکرات آگے نہیں چل سکتے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمارے مطالبات کے اوپر سنجیدہ ردعمل دیں، جمعرات کو عمران خان سے دوستوں سے ملاقات کرائی جائے بشری بی بی کو پہلے ساڑھے نو مہینے جیل میں رکھا گیا اور اب بشری بی بی کا سامان بھی جیل میں نہیں دیا جارہا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فیصل چوہدری نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔
اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔
اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔
اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔
نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔