الیکشن کمیشن نے حکومت کے حق میں جھکا ؤظاہر کیا،سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
سپریم کورٹ نے عادل بازئی کیس میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکا ؤکو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا۔ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے ، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق کرتا ہے ، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس عدالت کی جانب سے 16 فروری 2024 کے رضا مندی کے حلف نامے کی اصلیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں دیا گیا فیصلہ سول عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے ، اپیل کنندہ کی جانب سے جعلی رضا مندی کے حلف نامے کی تیاری اور اس کے استعمال کے حوالے سے جو الزامات محمد شہباز شریف (جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اب وزیر اعظم پاکستان ہیں) کے خلاف لگائے گئے ہیں، الزمات کی سنگینی کے پیش نظر ہم توقع کرتے ہیں کہ سول عدالت، ان معاملات کا فیصلہ جلد از جلد کریں گی۔جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ فراہم کرتا ہے کہ حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے ، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے ، انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا استعمال کریں گے ، اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن
پڑھیں:
پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کی مشترکہ اعلامیہ، قانون کی بالادستی اور آئینی عدالت کے قیام کی حمایت
پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، اداروں کی مضبوطی اور آئین پاکستان کی پاسداری کے لیے کھڑی رہی ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کچھ سیاسی دھڑے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قانونی برادری میں تقسیم اور افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ عناصر اکثر بیانات جاری کرتے ہیں جو ملک کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں۔
اعلامیے کے مطابق غیر منتخب افراد کے اس طرح کے بیانات کی سخت مذمت کی جاتی ہے اور یقین دلایا گیا ہے کہ یہ کوششیں جلد ناکام ہوں گی۔
پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے واضح کیا کہ وہ صرف قومی مسائل پر اداروں کی جانب سے بیانات جاری کرنے کے لیے ہیں اور کسی بھی انفرادی یا اقلیتی بیان کو پورے قانونی برادری کی نمائندگی نہیں سمجھا جائے گا۔ قانونی برادری ہمیشہ قانون کی بالادستی اور آئین پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔
اعلامیہ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کا بھی اعادہ کیا گیا۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں کی مساوی نمائندگی کے ساتھ آئینی اور سیاسی معاملات کی سماعت ممکن ہوگی، جس سے عوامی مقدمات بروقت سپریم کورٹ میں مقرر اور فیصلے کیے جا سکیں گے۔
دونوں بار باڈیز نے کہا کہ وہ ججز کی تقرری سمیت تمام عمل پر بغور نظر رکھیں گی اور ضرورت پڑنے پر اپنے تحفظات اور شکایات جنرل ہاؤسز کے فیصلوں اور قراردادوں کے ذریعے ظاہر کریں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں