ملٹری تنصیبات پر حملہ، تحقیقات کا مطالبہ مسترد کر دیا جائے، آئینی ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)حکومتی ماہرین آئین و قانون نے مشورہ دیا ہے کہ ملٹری تنصیبات پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ یکسر مسترد کر دیا جائے، 26نومبر کے واقعات پر تحفظات کے ساتھ غور ہو سکتا ہے۔
گرفتارشدگان کی رہائی کا جائزہ ان کی فہرستوں کی فراہمی کے بغیر نہیں لیا جا سکتا،شرائط کے ساتھ مذاکرات جاری نہیں رہ سکتے حکومت کوئی پیشگی شرط قبول نہیں کرےگی۔
حکومت مذاکرات کو توڑنے یا علیحدگی میں پہل نہیں کرے گی حکومت کا پشاور کی تحریک انصاف کی اپنی درخواست پر انتہائی مختصر ملاقات کو مذاکرات کا رنگ دینے کی کوشش نظرانداز کرنے کا عندیہ ،وفاقی وزیر قانون و انصاف سینٹر اعظم نذیر تارڑ مشاورت میں شریک ہو گئے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے منگل کے اجلاس کے بعد کہا ہے کے حزب اختلاف کو اسکے محضر نامے پر “کرارا” جواب دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
تہران: ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے اعلان کیا ہے کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا، تاہم ملک کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر مسعود پزشکیان نے ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے دورے کے دوران یہ بیان دیا۔ اس موقع پر انہوں نے جوہری صنعت کے سینیئر حکام سے ملاقات بھی کی۔
صدر نے کہا کہ "عمارتوں اور فیکٹریوں کی تباہی ہمیں نہیں روک سکتی، ہم انہیں دوبارہ بنائیں گے اور اس بار زیادہ مضبوط انداز میں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام عوامی فلاح و بہبود کے لیے ہے، جس کا مقصد بیماریوں کے علاج اور صحت کے میدان میں ترقی ہے۔
خیال رہے کہ جون میں امریکی افواج نے ایران کی چند جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے، جنہیں واشنگٹن نے "ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام" کا حصہ قرار دیا تھا۔ تاہم ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن اور غیر فوجی مقاصد کے لیے ہے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے تباہ شدہ جوہری مراکز کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی تو امریکا نئے حملے کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر بڑھنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی اور عسکری صورتحال جنم لے سکتی ہے۔