Express News:
2025-07-26@13:42:34 GMT

وکی کوشل نے چھاوا کے لیے 105 کلو وزن بڑھایا، مداح حیران

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

وکی کوشل، راشمیکا مندنا، پروڈیوسر دنیش وجن اور ڈائریکٹر لکشمن اؤتیکر نے ممبئی کے پلازا تھیٹر میں فلم چھاوا کے ٹریلر کی شاندار تقریب میں رونمائی کی۔ ٹریلر لانچ سے قبل وکی کوشل کے روڈ شو نے شائقین کی زبردست توجہ حاصل کی، جہاں مداحوں کا جوش و خروش عروج پر تھا۔

تقریب کے دوران وکی کوشل نے فلم کے لیے اپنی تیاریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس کردار کے لیے اپنے وزن میں 25 کلو اضافہ کیا۔ 

ان کا کہنا تھا، "میرا وزن 80 کلو سے بڑھا کر 105 کلو کیا گیا۔ مجھے گھڑ سواری اور تلوار بازی سیکھنے میں چھ ماہ لگے۔ فلم کی تیاریوں کے دوران جو جی اور پرویز سر نے میرا بہت ساتھ دیا۔"

وکی نے مزید کہا، "فلم کی شوٹنگ کا بڑا حصہ وائی میں کیا گیا، جہاں شدید گرمی میں 2000 ایکسٹراز اور 500 اسٹنٹ مین شامل تھے۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا، اور ان اسٹنٹ مین نے روزے کے دوران کام کیا تاکہ چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی عظمت کو اجاگر کیا جا سکے۔ یہ دیکھ کر دل کو سکون ملتا تھا۔"

انہوں نے کہا، "میں نے اس کردار کے لیے اپنی پوری جان لگا دی۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس فلم کو دیا۔"

چھاوا 14 فروری کو سینما گھروں میں ریلیز ہوگی۔


 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وکی کوشل کے لیے

پڑھیں:

کمالیت پسندی: خوبی، خامی یا ایک نفسیاتی مرض!

ہماری روزمرہ کی زندگی اور معاشرتی اقدار میں ’’کمالیت پسندی‘‘ یا "Perfectionism" کو اکثر ایک خوبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ہر کام کو نہایت نفاست، محنت اور بے عیب طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے، اسے قابلِ تعریف اور کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ اسکول کے ذہین ترین طالب علم سے لے کر دفتر کے سب سے قابل ملازم تک، کمالیت پسندی کو کامیابی کا زینہ قرار دیا جاتا ہے۔

لیکن کیا ہو اگر کامیابی کی یہ بظاہر چمکتی ہوئی سیڑھی درحقیقت ایک پھسلن بھری ڈھلوان ہو جو انسان کو ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی گہری کھائی میں دھکیل دے؟ جدید نفسیاتی تحقیقات اور عالمی ماہرین کی آراء اس سکے کا ایک دوسرا، تاریک رُخ پیش کرتی ہیں، جس کے مطابق کمالیت پسندی ایک خوبی سے بڑھ کر ایک سنگین نفسیاتی مرض بھی بن سکتی ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر قسم کی کمالیت پسندی نقصان دہ نہیں۔ ماہرینِ نفسیات صحت مند (Adaptive) اور غیر صحت مند (Maladaptive) کمالیت پسندی میں واضح فرق کرتے ہیں۔ صحت مند کمالیت پسندی میں انسان اپنی ذات سے بہترین کارکردگی کی توقع رکھتا ہے، محنت کرتا ہے، اور ناکامی کو سیکھنے کا ایک موقع سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس، غیر صحت مند کمالیت پسندی ایک جنون کی شکل اختیار کر لیتی ہے جہاں انسان خود سے غیر حقیقی اور ناقابلِ حصول معیار وابستہ کر لیتا ہے۔ یہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اور ہر چھوٹی سی خامی بھی ذاتی ناکامی اور بے وقعتی کے شدید احساسات کو جنم دیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں یہ خوبی ایک مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

نفسیات کے موضوع پر دنیا کی مقبول ترین ویب سائٹ ’’سائیکالوجی ٹوڈے‘‘ (Psychology Today) کا کہنا کہ غیر صحت مند کمالیت پسندی محض ایک بری عادت نہیں، بلکہ یہ کئی ذہنی بیماریوں کی جڑ ہے۔

’’سائیکالوجی ٹوڈے‘‘ کے ایک مضمون بعنوان "The Dangers of Perfectionism" میں بتایا گیا ہے کہ کمالیت پسند افراد اپنی زندگی کو ایک ایسی رپورٹ کارڈ کی طرح دیکھتے ہیں جس میں ہر حال میں ’’A+‘‘ گریڈ حاصل کرنا لازمی ہے۔ اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’کمال‘‘ یا "Perfection" حقیقت میں ایک ناممکن الحصول تصور ہے۔ اس کے پیچھے بھاگنے والے افراد شدید ذہنی دباؤ، اضطراب (Anxiety)، ڈپریشن، اور Obsessive-Compulsive Disorder (OCD) جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مضمون کے مطابق کمالیت پسندوں کی سب سے بڑی جنگ کامیابی حاصل کرنا نہیں، بلکہ ناکامی سے بچنا ہوتی ہے۔ ناکامی کا خوف ان پر اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ اکثر کام شروع ہی نہیں کر پاتے، اس کیفیت کو نفسیات میں "Procrastination" یا ٹال مٹول کی عادت کہا جاتا ہے۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ کام شروع کریں گے اور اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے تو یہ ان کی ذات پر ایک بدنما داغ ہوگا۔

ایک اور تجزیے میں، جو "What Is Maladaptive Perfectionism?"  میں بتایا گیا ہے کہ اس مرض کی بنیاد اکثر بچپن کے تلخ تجربات، والدین کی بے جا توقعات اور احساسِ کمتری پر ہوتی ہے۔ ایسے افراد اپنی قدر و قیمت کا تعین اپنی کامیابیوں اور کارکردگی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ وہ غیر مشروط محبت پر یقین نہیں رکھتے اور انہیں ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ کامل نہیں ہوں گے تو لوگ انہیں قبول نہیں کریں گے۔ اس مضمون میں کمالیت پسندی کی چند واضح علامات کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے "All-or-None Thinking" یعنی ’’سب کچھ یا کچھ نہیں‘‘ کی سوچ۔ ان کے لیے کوئی بھی کام یا تو مکمل طور پر بہترین ہوتا ہے یا مکمل طور پر ناکارہ۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔


عالمی ماہرینِ نفسیات کی مستند آرا

جب ہم کمالیت پسندی پر ہونے والی عالمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں تو دو نام سب سے نمایاں نظر آتے ہیں: کینیڈا کے ماہرینِ نفسیات ڈاکٹر گورڈن فلیٹ (Dr. Gordon Flett) اور ڈاکٹر پال ہیوٹ (Dr. Paul Hewitt)۔ ان دونوں محققین نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ کمالیت پسندی کی نفسیات کو سمجھنے اور اس کے علاج کے طریقے وضع کرنے میں صرف کیا ہے۔

ڈاکٹر فلیٹ، جو کینیڈا کی یارک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہیں، اور ڈاکٹر ہیوٹ، جو برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں کلینیکل سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں، نے اپنی دہائیوں پر محیط تحقیق کے بعد کمالیت پسندی کا ایک کثیر جہتی ماڈل (Multidimensional Model) پیش کیا۔ ان کی مشترکہ تصنیف "Perfectionism: A Relational Approach to Conceptualization, Assessment, and Treatment" کو اس میدان میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے مطابق، کمالیت پسندی کی تین بڑی اقسام ہیں:

 * ذات پر مبنی کمالیت پسندی (Self-Oriented Perfectionism): اس میں فرد خود اپنے لیے انتہائی بلند اور غیر حقیقی معیار مقرر کرتا ہے اور انہیں حاصل نہ کر پانے پر شدید خود تنقیدی کا شکار ہوتا ہے۔

 * دوسروں پر مبنی کمالیت پسندی (Other-Oriented Perfectionism): اس قسم میں فرد اپنے اردگرد کے لوگوں، جیسے خاندان، دوستوں یا ساتھ کام کرنے والوں سے کامل ہونے کی غیر حقیقی توقعات وابستہ کرتا ہے۔ جب دوسرے اس کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو وہ غصے، مایوسی اور رشتوں میں تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔

 * معاشرتی طور پر مسلط کردہ کمالیت پسندی (Socially Prescribed Perfectionism): ڈاکٹر فلیٹ اور ہیوٹ کے مطابق، یہ کمالیت پسندی کی سب سے خطرناک اور زہریلی قسم ہے۔ اس میں فرد یہ سمجھتا ہے کہ معاشرہ، یا اس کے اردگرد کے اہم لوگ اس سے کامل ہونے کی توقع رکھتے ہیں اور وہ ان توقعات کو پورا کرنے کے لیے شدید دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اسے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی تو اسے شدید تنقید، مسترد کیے جانے یا سماجی بے وقعتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی تحقیق میں ڈاکٹر فلیٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’معاشرتی طور پر مسلط کردہ کمالیت پسندی کا تعلق براہِ راست ناامیدی، ڈپریشن اور یہاں تک کہ خودکشی کے خیالات سے پایا گیا ہے۔‘‘

امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA) کے ایک پوڈکاسٹ انٹرویو میں، ڈاکٹر گورڈن فلیٹ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’کمالیت پسند افراد کامیابی سے لطف اندوز نہیں ہوپاتے، کیونکہ جیسے ہی وہ ایک ہدف حاصل کرتے ہیں، وہ فوراً اگلے، اس سے بھی زیادہ مشکل ہدف کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنی کامیابی پر مطمئن نہیں ہوتے اور ایک مستقل بے چینی کی حالت میں رہتے ہیں۔‘‘


کمالیت پسندی کے جسمانی اور ذہنی اثرات

جب ذہن مسلسل ’’کامل‘‘ ہونے کی جنگ میں مبتلا ہو تو اس کے اثرات صرف نفسیات تک محدود نہیں رہتے بلکہ جسم پر بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

 * دائمی ذہنی دباؤ (Chronic Stress): ہر وقت بہترین کارکردگی دکھانے کا دباؤ جسم میں کورٹیسول (Cortisol) جیسے اسٹریس ہارمونز کی سطح کو بلند رکھتا ہے، جس سے بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

 * اضطراب اور ڈپریشن: ناکامی کا خوف اور مسلسل خود تنقیدی اضطراب کی کیفیات کو جنم دیتی ہے اور جب انسان اپنے غیر حقیقی معیار پر پورا نہیں اتر پاتا تو وہ شدید مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔

 * بے خوابی (Insomnia): کمالیت پسند افراد اکثر راتوں کو اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نیند بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

 * سماجی تنہائی: دوسروں سے غیر حقیقی توقعات اور اپنی ذات میں ہر وقت نقص نکالنے کی عادت انہیں سماجی طور پر الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ وہ رشتوں میں بھی کمال تلاش کرتے ہیں جو کہ ناممکن ہے، اور نتیجتاً تنہا رہ جاتے ہیں۔


اس قید سے رہائی کیسے ممکن ہے؟

اگر آپ خود میں یا اپنے کسی پیارے میں غیر صحت مند کمالیت پسندی کی علامات پاتے ہیں تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ کوئی ناقابلِ علاج مرض نہیں۔ چند ٹھوس اقدامات اور سوچ میں تبدیلی سے اس کے شکنجے سے آزاد ہوا جا سکتا ہے:

 * حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کریں: اپنے لیے قابلِ حصول اہداف مقرر کریں۔ سمجھیں کہ انسان ہونے کے ناتے غلطیاں اور خامیاں زندگی کا حصہ ہیں۔

 * خود پر رحم کریں (Self-Compassion): ناکامی پر خود کو کوسنے کے بجائے خود سے ہمدردی برتیں۔ اپنی کوشش کو سراہیں۔

 * عمل پر توجہ دیں، نتیجے پر نہیں: اپنی توجہ صرف حتمی نتیجے کے بجائے کام کے عمل سے لطف اندوز ہونے پر مرکوز کریں۔

 * غلطیوں کو سیکھنے کا موقع سمجھیں: ہر غلطی ایک سبق ہے۔ اسے اپنی بے وقعتی کا ثبوت سمجھنے کے بجائے مستقبل میں بہتر ہونے کا ایک ذریعہ سمجھیں۔

 * ماہرانہ مدد حاصل کریں: اگر یہ کیفیت آپ کی روزمرہ زندگی، کام اور رشتوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے تو کسی ماہرِ نفسیات یا کاؤنسلر سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ کوگنیٹو بیہیویورل تھراپی (CBT) جیسی تکنیکس اس مرض پر قابو پانے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔

بلاشبہ، بہتری کی جستجو اور اپنے کام میں نفاست پیدا کرنا ایک مثبت عمل ہے، لیکن جب ’’بہترین‘‘ کی تلاش ’’کامل‘‘ ہونے کے جنون میں بدل جائے اور انسان کی ذہنی سکون اور خوشی کو نگلنے لگے، تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ زندگی نام ہی نامکمل ہونے کا ہے اور اس کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو قبول کر کے آگے بڑھیں۔ کامل ہونے کی کوشش میں ایک بے چین اور ناخوش انسان بننے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک خوش اور مطمئن ’’نامکمل‘‘ انسان بن کر جیا جائے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • چُن چُن کر سزائیں دی جا رہی ہیں، کوئی تو ہے جو خوفزدہ ہے، علیمہ خان
  • کرشمہ کپور اور آنجہانی سنجے کپور کے تعلقات پر سنیل درشن کے حیران کن انکشافات
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • اک چادر میلی سی
  • ایک بھیانک جنگ کا سامنا
  • صحافی وسعت اللہ خان کے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ اراکین کے ماضی سے متعلق حیران کن انکشافات 
  • کمالیت پسندی: خوبی، خامی یا ایک نفسیاتی مرض!
  • نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
  • دلجیت دوسانجھ کس پاکستانی گلوکار کے مداح نکلے؛ مشہور گانا بھی گنگنایا
  • سلمان خان بگ باس 19 کی میزبانی کی فیس کتنی لیں گے؟ جان کر حیران ہوں گے