چار اسرائیلی قیدی فوجی خواتین کو کل رہا کیے جائے گا، عزالدین قسام
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
عزالدین القسام کے ترجمان نے اعلان کیا کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کی چار خواتین قیدیوں کو کل کو رہا کر دیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ عزالدین قسام کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ کل (ہفتہ) قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت چار اسرائیلی خاتون فوجی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ فارس نیوز کے مطابق، عزالدین قسام کے ترجمان، ابوعبیدہ نے اطلاع دی ہے کہ کل (ہفتہ) جنگ بندی قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے کے تحت چار اسرائیلی خاتون فوجی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ ابوعبیدہ کے مطابق، ان چار قیدی خواتین کے نام کارینا آرئیو، دانیل گلبوع، نعمہ لیوی اور لیری الباج ہیں۔
اس اطلاع کے بعد، حماس نے بھی اعلان کیا کہ وہ ان فلسطینی قیدیوں کی فہرست کا انتظار کر رہی ہے جنہیں اسرائیلی فریق کو رہا کرنا ہے۔ تاہم، اسرائیلی حکومت نے حسب معمول بہانے تراشنے شروع کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ ابوعبیدہ کی جانب سے جاری کردہ بیان معاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسرائیلی ذرائع نے کل دعویٰ کیا تھا کہ حماس کو ہفتہ کے روز تین فوجی قیدی خواتین اور ایک غیر فوجی قیدی اربیل یعود (مجموعی طور پر چار خواتین) کو رہا کرنا تھا۔
اب اسرائیلی حلقے شکایات کر رہے ہیں کہ اربیل یعود کا نام فہرست میں کیوں شامل نہیں ہے؟ بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے بھی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان قیدیوں کی فہرست حاصل کر لی ہے جو رہا کیے جانے والے ہیں اور ہم جلد ہی اپنا موقف واضح کریں گے۔ اسرائیلی حکومت کے کچھ حلقے اپنی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ثالثوں کو بتائے کہ جب تک اربیل یعود کو رہا نہیں کیا جاتا، غزہ کے شہریوں کو شمالی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق، اسرائیل نے قطر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حماس کی فہرست کے بارے میں وضاحت دے۔ حماس کے ذرائع نے ابھی تک اسرائیل کی ان بہانوں پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ یاد رہے کہ پانچ دن پہلے، حماس نے قیدیوں کے پہلے تبادلے میں تین اسرائیلی قیدیوں رومی گونن، امیلی داماری اور دورون اشٹائن برچر کو 90 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیدیوں کے فوجی قیدی رہا کیے کو رہا
پڑھیں:
عید الاضحی کے روز مزید سولہ فلسطینی ہلاک، حماس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) غزہ میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ جمعے کے دن اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی کے تین علاقوں میں جیٹ طیاروں سے بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم سولہ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کی طرف سے ہلاکتوں کی ان رپورٹس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جمعہ کے روز شمالی غزہ کے مخصوص بلاکس کے رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے تھے۔
عینی شاہدین اور طبی عملے نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے جبالیہ اور بیت ہانون پر جمعے کی صبح سے حملے تیز کر دیے ہیں۔
(جاری ہے)
امدادی کی بحالی شروعامریکی حمایت یافتہ 'غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘ جی ایچ ایف نے روئٹرز کو ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ اس نے جمعے کو امداد کی فراہمی کا سلسلہ بحال کر دیا ہے حالانکہ اس نے اپنی آفیشل فیس بک پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ اس کے امدادی مراکز تا حکم ثانی بند رہیں گے۔
اس تنظیم نے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کے پیش نظر امدادی مراکز کے قریب نہ آئیں کیونکہ حالیہ دنوں میں فائرنگ کے مہلک واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے جمعے کو ایکس پر لکھا کہ فلسطینیوں کو صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک امدادی مراکز کی جانب 'آزادانہ نقل و حرکت‘ کی اجازت ہو گی لیکن اس کے بعد وہاں نقل و حرکت جان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اسرائیل نے دو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد وسط مارچ سے غزہ پٹی پر قابض حماس تنظیم کے خلاف دوبارہ شدید کارروائیاں شروع کی تھیں۔
جنگ بندی کے مطالبات میں شدتحالیہ ہفتوں کے دوران عالمی رہنماؤں کی طرف سے اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی کسی ڈیل کو حتمی شکل دی جائے۔
حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ نے جمعرات کو کہا کہ فلسطینی تنظیم حماس غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قیام کے لیے مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں اسرائیل اور حماس ایک معاہدے کے قریب دکھائی دیے تھے لیکن کوئی معاہدہ طے نہ پا سکا۔ امریکی حمایت یافتہ اس تجویز کی ناکامی کے لیے دونوں فریقین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
ساتھ ہی اسرائیل پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ غزہ میں زیادہ امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے کیونکہ دو ماہ سے زیادہ کے محاصرہ کے بعد وہاں خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت ہو چکی ہے۔
حال ہی میں اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی میں کچھ نرمی کی ہے اور امریکی حمایت یافتہ قائم کردہ نئی تنظیم 'غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ مل کر جنوب اور وسطی غزہ میں چند مراکز کے ذریعے امداد کی تقسیم کا نیا نظام نافذ کیا ہے۔
یہ تنازعہ شروع کیسے ہوا؟غزہ پٹی میں مسلح تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی، زمینی اور بحری حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جو جنگ بندی ڈیل تک جاری رہے۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اٹھارہ مارچ کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک کم از کم 4,402 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس مسلح تنازعہ میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 54,677 سے زائد بتائی جاتی ہے، جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی میں اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ غزہ پٹی کا زیادہ تر علاقہ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی، عدنان اسحاق